امریکا میں کورونا سے ہلاکتوں کی تعداد سپینش فلو سے بڑھ گئی!


طب کے شعبے میں تمام تر ترقی کے باوجود امریکا میں کرونا سے ہلاکتوں کی تعداد سنۂ 1918 ء کی ہسپانوی زکام کی ہلاکتوں کی تعداد سے بڑھ گئی ہے۔ جان ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق بیس ستمبر تک امریکا میں کرونا سے ہلاکتوں کی تعداد چھ لاکھ پچھتر ہزار ہو گئی۔ جو کہ ہسپانوی زکام سے ہلاکتوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔

”اگر آپ مجھ سے سنۂ 2019 ء میں یہ سوال پوچھتے تو میں بہت حیران ہوتا۔“ یہ کہنا ہے ہاورڈ ٹی چین سکول برائے عوامی صحت کے ماہر و بائیات سٹیفن کیسلر کا۔ ”لیکن اگر آپ مجھ سے اپریل یا مئی سنہ 2020 ء میں یہی سوال پوچھتے تو میں ذرا سا بھی حیران نہ ہوتا کہ ہم موجودہ وبا کے دوران اس تعداد تک پہنچ جائیں گے“ ۔

اپریل سنہ 2020 ء میں سی این این نے ایک خبر میں سنہ 1918 ء کی ہسپانوی وبا سے حاصل شدہ اسباق کی ایک فہرست شائع کی تھی کہ جس سے موجودہ وبا سے نمٹنے میں آسانی ہو۔

ان میں حفاظتی اقدامات کو جلد ہی ترک نہ کرنا، نوجوان اور صحت مند افراد کا اس خوش گمانی میں مبتلاء نہ ہونا کہ انہیں اس وبا سے کچھ نہیں ہو گا، اور غیر تصدیق شدہ طریقۂ علاج کو اختیار نہ کرنا شامل تھے۔ لیکن سٹیفن کیسلر کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے بہت سے افراد نے اس تنبیہ پر عمل نہیں کیا ہے۔ ”وہ بہت سی غلطیاں جو ہم نے سنہ 1918 ء میں کیں جن سے وبا کی شدت زیادہ ہو گئی اور امید یہی تھی کہ ہم اس دفعہ ان غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے لیکن بدقسمتی سے ہم نے انہیں دوہرایا“ ۔ سٹیفن نے کہا۔

یہاں ہسپانوی زکام اور موجودہ کرونا وبا کے درمیان مشترکہ اور متفرق نکات کی تفصیل یہ ہے۔
متفرق نکات یہ ہیں۔
آبادی

اس وقت امریکا کی آبادی سنہ 1918 ء سے تین گنا بڑھ چکی ہے۔ چنانچہ اس وقت بظاہر تو کرونا کی ہلاکتوں کی تعداد ہسپانوی زکام سے بڑھ چکی ہے لیکن اگر اسے آبادی کے تناسب سے ناپا جائے تو ہسپانوی زکام سے ہلاکتوں کی تعداد اب بھی زیادہ بنتی ہے۔ سٹیفن کیسلر نے وضاحت کی۔

تریاق کی دستیابی

ہسپانوی زکام سے بچاؤ کا کوئی تریاق دستیاب نہیں تھا۔ لیکن موجودہ وبا سے بچاؤ کا تریاق دستیاب ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ابھی بھی لاکھوں امریکیوں نے اس سے بچاؤ کے ٹیکے نہیں لگوائے۔ عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے کرونا کو عالمی وبا قرار دیے جانے کے صرف نو ماہ بعد دسمبر سنۂ 2020 ء میں کرونا سے بچاؤ کا تریاق پیش کر دیا گیا تھا۔ اس وقت تک دو لاکھ اٹھانوے ہزار سے زائد امریکی اس وبا سے ہلاک ہوچکے تھے۔ لیکن اب بھی بارہ سال سے زائد العمر چھتیس فیصد امریکیوں نے کرونا کی ڈیلٹا قسم کی تباہ کاریوں کے باوجود تریاق نہیں لگوایا ہے۔

افواہوں کی فراوانی

سٹیفن کا کہنا ہے کہ سنۂ 1918 ء کے مقابلے میں اس وقت سب سے بڑی بدقسمتی افواہوں کی فراوانی ہے۔ ”انٹرنیٹ نے ہمارے لیے دو دھاری تلوار کا کام کیا ہے۔ ایک طرف اگر اس کی وجہ سے وبا سے بچاؤ کے اقدامات کے حوالے سے عالمی ادارۂ صحت اور سی ڈی سی کی تازہ ترین ہدایات کو انتہائی تیزی سے عوام کے ایک بڑے حصے تک پہنچانے میں مدد دی ہے تو دوسری طرف اس کی وجہ سے افواہوں کو بھی تیزی سے پھیلانے میں مدد ملی“ ۔ ڈاکٹر اور محققین ایک عرصے سے ان افواہوں کو بے بنیاد ثابت کرنے کے ثبوت فراہم کر کے لوگوں سے درخواست کرتے رہے ہیں کہ ان سے عوام کی صحت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

دونوں وباؤں کے درمیان مشترکہ نکات

نوجوان محفوظ نہیں

یہ سمجھ لینا کہ اگر کوئی جوان اور صحت مند ہے تو وہ وبا سے محفوظ رہ سکتا ہے، انتہائی درجے کی بیوقوفی ہے۔ ”ہسپانوی زکام کی خاصیت ہی نوجوان اور صحت مند افراد کو نشانہ بنانا تھا“ کیسلر نے بتایا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس وبا سے ہلاک ہونے والے بیشتر افراد کی عمریں بیس سے چالیس سال کے درمیان تھیں۔ سی ڈی سی کے اعداد و شمار کے مطابق یہ اس وبا کا سب سے عجیب پہلو تھا۔

”وبا سے دو تہائی سے زیادہ اموات کی عمریں اٹھارہ سے پچاس سال کے درمیان تھیں۔“ یہ کہنا ہے سنہ 2004 میں کتاب ”دی گریٹ انفلوئنزا:دی سٹوری آف ڈیڈلی ایسٹ پینڈیمک ان ہسٹری“ کے مصنف جان بیری کا۔ جان کی تحقیق کے مطابق سب سے زیادہ ہلاکتیں اٹھائیس سالہ افراد کی ہوئی تھیں۔ ویسے یہ اتنی زیادہ حیران کن بات نہیں ہے کیونکہ یہ سال پہلی عالمی جنگ کا اختتامی تھا اور بہت سے نوجوان فوجی مورچوں میں ایک دوسرے کے بہت قریب رہتے تھے۔

اب اس وقت کوئی عالمی جنگ تو نہیں ہے لیکن کرونا نے ثابت کیا ہے کہ جوان بھی بڑی تعداد میں اس سے متاثر ہو سکتے ہیں، چاہے ان کی اموات کا خطرہ کم ہی ہو۔ ”ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ نوجوان افراد بھی کرونا سے محفوظ نہیں، خاص طور پر لمبے عرصے تک لاحق رہنے والے کرونا اور ڈیلٹا قسم سے نوجوان اور بچے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔“ سٹیفن کیسلر نے وضاحت کی۔

خود اختیار کردہ حفاظتی اقدامات کی اہمیت

”سائنس اور عوامی صحت کے شعبے خواہ کتنی ہی ترقی کر جائیں لیکن یہ ایک فرد کے حفاظتی اقدامات اختیار نہ کرنے کا متبادل نہیں بن سکتے۔“ سٹیفن کیسلر نے وضاحت کی۔ ”جب ہسپانوی زکام کے مریضوں کی تعداد کم پڑنے لگی تو سان فرانسسکو شہر کی انتظامیہ نے کہا کہ اب تو وبا ختم ہونے لگی ہے۔ اب تمام پابندیاں ختم کرتے ہیں اور وبا اور جنگ کے خاتمے کی خوشی میں ایک بڑی پریڈ کا اہتمام کرتے ہیں جس میں ہم سب اپنے اپنے ماسک اتار پھینکیں گے“ ۔

ماہر وبائی امراض ڈاکٹر لیری بریلینٹ نے بتایا۔ ”اس تقریب کی وجہ سے دو مہینوں بعد ہسپانوی زکام کی وبا پہلے سے بھی زیادہ شدت سے پھیلنے لگی۔“ فلاڈیلفیا میں بھی یہی کچھ ہوا۔ اگرچہ کہ فلاڈیلفیا نیوی یارڈ کے چھ سو سے زائد ملاحوں میں اس وائرس کی ستمبر سنہ 1918 ء کے اوائل میں تصدیق ہو چکی تھی مگر شہر کی انتظامیہ نے 28 ستمبر کو پہلے سے طے شدہ فوجی پریڈ کی تقریب منسوخ نہ کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پنسلوینیا یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کی دستاویزات کے مطابق صرف تین دنوں بعد شہر میں 635 نئے مریض سامنے آئے۔ بہت جلد فلاڈیلفیاء امریکہ بھر میں اس وبا سے سب سے زیادہ ہلاک ہونے والے افراد کے شہر کے طور پر سامنے آ گیا۔

اس کے مقابلے میں میسوری ریاست کے شہر سینٹ لوئیس میں بھی ایسی ہی پریڈ منعقد ہونا تھی لیکن انتظامیہ نے وبا کے پیش نظر اسے منسوخ کر دیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اگلے مہینے کے اختتام تک جہاں فلاڈیلفیاء شہر میں وبا سے دس ہزار شہری ہلاک ہوئے وہاں سینٹ لوئیس میں ہلاکتوں کی تعداد سات سو سے بھی کم رہی۔

موجودہ صورتحال میں سنہ 2021 ء کے وسط کے بعد جتنی بھی ہلاکتیں ہوئی ہیں، سی ڈی سی کے مطابق ان ہلاکتوں کو ٹالا جا سکتا تھا۔

یہ بھی ممکن ہے کہ باقاعدہ وبائی عرصے کے خاتمے کے بعد بھی کرونا کا جرثومہ کئی سالوں تک سامنے آتا رہے۔ عالمی ادارۂ صحت کسی وبا کے عرصے کی تعریف یہ کرتا ہے کہ کوئی بیماری کتنا عرصہ ساری دنیا میں پھیلتی رہتی ہے۔ لیکن اس حوالے سے کوئی طے شدہ تعریف موجود نہیں ہے کہ کوئی وبا کب اختتام پذیر ہو جاتی ہے۔ سی ڈی سی کے مطابق سنہ 1918 ء کی وبا سنہ 1919 تک تین لہروں میں پھیلی تھی لیکن اس وبا کا باعث بننے والا جرثومہ اگلے اڑتیس ( 38 ) سالوں تک زکام کے موسم میں باقاعدگی سے سامنے آتا رہا تھا۔

ڈاکٹر کیسلر کا خیال ہے کہ کرونا کا باعث بننے والا جرثومہ بھی وبا کے باقاعدہ خاتمے کے بعد بھی بہت عرصے تک نظر آتا رہے گا۔ ”اس جرثومے کی نئی قسمیں سامنے آتی رہیں گی جو ہمیں پھر سے بیمار کریں گی“ کیسلر نے پیش گوئی کی ”لیکن امید تو یہی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم ادویات کی مدد سے یا ویسے ہی اس جرثومے کے خلاف اتنی قوت مدافعت پیدا کر لیں گے کہ یہ موجودہ دور کی طرح تباہی پھیلانے کے قابل نہیں ہو گا۔“ انہوں نے ایک بار پھر اس امر کی اہمیت پر توجہ دلائی کہ اس وبا کے خاتمے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ احتیاط اپنائی جائے اور ویکسین کا ٹیکا لگوایا جائے۔

اور اس بات کا انتظار نہ کیا جائے کہ یہ جرثومہ ایک دفعہ لاحق ہو جائے تو اس کے ذریعے سے اس وبا کے خلاف اپنی قوت مدافعت بنا لی جائے کیونکہ یہ جرثومہ کچھ افراد میں ”لانگ کوویڈ“ یا لمبے عرصے تک لاحق رہنے والے کرونا کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔ جو کئی ماہ یا بعض افراد میں سال بعد بھی برقرار ہے ”یہ ویکسین جو بنیادی کام کرتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کے جسم کو بیمار کیے بغیر اس جرثومے کو آپ کے جسمانی مدافعتی نظام سے متعارف کرا دیتی ہے تاکہ آپ کا جسم بیمار ہوئے بغیر اس وبا کے خلاف قوت مدافعت پیدا کر لے۔ اس سے ہلاکتوں سے بچانے میں بہت مدد ملتی ہے۔“ کیسلر نے وضاحت کی۔

درحقیقت اسرائیل میں ہونے والی تحقیق بتاتی ہے کہ ویکسین سے تقریباً نوے فیصد ہلاکتوں سے بچا جا سکتا ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس وقت کرونا سے ہونے والی ہلاکتوں میں سے ستر فیصد سے زائد تعداد ان افراد کی ہے جنھوں نے اب تک ویکسین نہیں لگوائی ہے۔

ایک اچھی خبر یہ ہے کہ سی ڈی سی کے سابقہ سربراہ نے سی این این سے بات کرتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ ڈیلٹا کے بعد کرونا کی مزید مہلک قسم نہیں آئے گی اور یہ آہستہ آہستہ کم مہلک اقسام سے ہوتا ہوا بے ضرر ہو جائے گا۔

واللہ علم
مصنف: دانش علی انجم ماخذ: سی این این


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments