کپتان کی تقریر کی ویوور شپ کہیں سازش تو نہیں؟


اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے چھہترویں اجلاس میں تمام سربراہان کی تقاریر میں وزیر اعظم عمران خان کی تقریر کو اس سال بھی اس قدر پذیرائی ملی کہ اقوام متحدہ کے یو ٹیوب چینل کے مطابق ان کی تقریر دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی اور سنی گئی ہے۔ گویا اقوام متحدہ کے یو ٹیوب چینل کے مطابق وزیر اعظم عمران خان اس بار بھی جنرل اسمبلی سے خطاب میں عالمی راہنماؤں سے بازی لے گئے۔ مودی جنہیں پاکستان میں ویسے بھی دو نمبر ہی سمجھا جاتا ہے، وہ اپنی تقریر کے لحاظ سے دوسرے نمبر رہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن تیسرے، چین چوتھے جبکہ نیوزی لینڈ پانچویں نمبر پر رہے۔ پتہ نہیں مجھے کیوں ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کسی عالمی سازش کا حصہ ہی نہ ہو۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ جو لوگ یو ٹیوب چینل کو باقاعدہ چلا رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ آج کے دور میں ویوور شپ اور لائیک بڑھانا اتنا مسئلہ نہیں ہے۔ دنیا میں بہت سے دو نمبر کاموں کی طرح اس میں بھی دو نمبری کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح سے ہو سکتا ہے کہ اقوام متحدہ کے یو ٹیوب چینل نے بھی اپنی مرضی کی ویورشپ حاصل کی ہو۔

وگرنہ ذرا غور کریں کہ چلیں نیوزی لینڈ کی آبادی تو چند لاکھ ہے، چین جو کہ ڈیڑھ ارب آبادی کا ملک ہے وہ بھی اتنی ویورشپ حاصل نہیں کر سکا جتنی کہ ہم حاصل کر گئے۔ اگر چین کی آدھی آبادی بھی اپنے راہنما کی تقریر سنتی تو کوئی دوسرا لیڈر ان کو مات نہیں دے سکتا۔ مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ بقول اقوام متحدہ کے یو ٹیوب چینل عمران خان یہ بازی لے گیا۔

میں نے عرض کیا کہ مجھے یہ سب کسی عالمی یا پاکستان کے خلاف کسی سازش کا حصہ لگتا ہے۔ لیکن اس سے قبل میں عرض کردوں کہ میری اس بات کا تعلق کسی جماعت یا لیڈر سے نہیں بلکہ پاکستان ہے۔ کیونکہ راہنما آتے جاتے رہتے ہیں، جماعتیں بنتی اور ٹوٹتی رہتی ہیں۔ ملک اور ریاستیں ہمیشہ قائم رہتی ہیں۔ ملک و قوم اور ریاستیں اگر نیست و نابود بھی ہو جائیں تو وہ قرطاس تاریخ میں کبھی دفن نہیں ہوتیں بلکہ اپنی شان و شوکت اور عظمت و رفعت میں زندہ و جاوید رہتی ہیں۔

پاکستان کے خلاف سازش اس لئے کہ خطہ کی موجودہ سیاسی صورت حال میں پاکستان ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ جیسا کہ چین کے ساتھ تعلقات، روس کا پاکستان کی طرف جھکاؤ، ایران کے ساتھ تعلقات کی از سر نو بہتری اور افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا۔ ان سب کے پیچھے کہیں نہ کہیں پاکستان کا کردار رہا ہے۔ اور یہ بات امریکہ اچھی طرح سے جانتا ہے۔ کیونکہ ہم ایک عرصہ تک امریکہ کے اتحادی رہے ہیں۔ ابھی بھی ہماری کوئی واضح مخالفت نہیں، ہماری خارجہ پالیسی کا موقف صاف، شفاف اور واضح ہے کہ ہم اب برابری کی سطح پر تعلقات اور امن کے داعی کی حیثیت سے پارٹنر ہیں۔

دوسری بات ملکی سیاسی عدم استحکام، لاقانونیت اور قیمتوں میں گرانی جیسے مسائل سے وزیر اعظم کی توجہ ہٹا کر انہیں بین الاقوامی مسائل و معاملات میں ایسے الجھائے رکھنا کہ انہیں یہ کنفرم ہو جائے کہ وہ صرف پاکستان کے وزیر اعظم ہی نہیں ہیں بلکہ عالم اسلام کے عظیم راہنما بھی ہیں۔ اسی لئے آپ نے بھی دیکھا ہو گا کہ وزیراعظم صاحب ملکی مسائل کی طرف اتنی توجہ نہیں دے پا رہے جتنا کہ وہ الیکشن جیتنے سے قبل عزم رکھتے تھے۔

بلکہ ان کی زیادہ توجہ بین الاقوامی مسائل و معاملات کی طرف زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ انہیں بین الاقوامی امور سے ہٹا کر ملکی معاملات و مسائل میں الجھا دیا گیا اور پھر ایک دن، دکھ تو یہ ہے کہ تیرا قاتل تیرا درباں نکلا۔ یعنی انہیں تختہ دار پر لٹکا کر ان کی سیاست کو تہ خاک کر دیا گیا۔ اگرچہ ان کی باقیات بلاول بھٹو کی صورت میں پارٹی کی راہنمائی میں مشغول ہے تاہم میرا اپنا خیال ہے کہ ”کہاں اکبر بادشاہ اور کہاں گنگو تیلی“ ۔

بھٹو کا قصور صرف اتنا تھا کہ انہوں نے جب ڈھاکہ فال ہو رہا تھا تو اقوام متحدہ میں ایک تقریر کرتے ہوئے اقوام عالم کو مخاطب کیا تھا کہ جب آپ لوگ پارٹی بنیں گے تو میں یہاں بیٹھ کر اپنا وقت کیوں ضائع کر رہا ہوں، میرا ملک مجھے پکار رہا ہے میں واپس جا رہا ہوں۔ ان تاریخی الفاظ کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے سامنے پڑے کسی مسودہ کو پھاڑتے ہوئے کرسی چھوڑی اور اقوام متحدہ کی اسمبلی ہال سے باہر تشریف لے گئے۔ بھٹو اس وقت وزیر خارجہ تھے۔

میرا اپنا خیال ہے کہ انہیں اسی بات کی سزا کے طور پر بین الاقوامی سیاست سے نکال باہر کیا اور پاکستان کا وزیر اعظم بنا کر مستقل طور پر انہیں ملکی معاملات و مسائل میں الجھا دیا۔ حالانکہ اگر قدرت اللہ شہاب کی خود نوشت شہاب نامہ کا مطالعہ کیا جائے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ بھٹو کس قدر محتاط شخص تھا۔ بقول قدرت اللہ کے، جب وہ جرمنی میں چند گھنٹے میرے مہمان ہوئے تو انہوں نے جرمنی پہنچنے سے قبل ہی مجھے فون کر دیا کہ میرے پاس چند گھنٹے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ بغیر پروٹوکول آپس میں ملاقات کر کے ملکی سیاست پر بات کر لی جائے۔ قدرت کہتے ہیں کہ جب میں گاڑی لے کر ائر پورٹ پہنچا تو اپنی نشست سنبھالنے سے قبل ہی پوچھنے لگے کہ قدرت ڈرائیور کو کون کون سے زبان آتی ہے۔ میں نے کہا کہ اسے اپنے ملک کی زبان ہی آتی ہے تو بھٹو صاحب کہنے لگے کہ پھر ہم اپنی زبان میں بات کریں گے تاکہ یہ ہماری باتیں سن اور سمجھ نہ لے۔

حالیہ بین الاقوامی سیاسی صورت حال میں بھی ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے ہمارے وزیراعظم کو بھی ایسی ہی کسی سازش کا حصہ بنا یا جا رہا ہے جس میں وہ داخلیہ امور کی بجائے خارجیہ معاملات میں الجھے رہیں۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ وزیر اعظم کو دونوں معاملات میں ہی عبور حاصل ہونا چاہیے۔ لیکن ان دو میں توازن اپنانا بھی اتنا ہی ضروری ہوتا ہے۔ ہاں جب داخلی مسائل سے جان چھوٹ جائے تو خارجہ امور میں اپنا کردار وزیراعظم کو ضرور ادا کرنا چاہیے۔ وگرنہ میری طرح اور بہت سے لوگ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ کہیں ہم کسی بین الاقوامی سازش کا شکار تو نہیں ہو رہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments