سید خوش خصال تھا، کیا تھا!


میں نے یہ نظم سید ابوالاعلیٰ مودودی کے سانحۂ ارتحال پر لکھی تھی جس کا مطلع ہے ؎
حق تھا، حق کی مثال تھا، کیا تھا! سید خوش خصال تھا، کیا تھا!

ان کی وفات 22 ستمبر 1979 کو وقوع پذیر ہوئی۔ وہ 76 سال قبل اسی مہینے کی 25 تاریخ کو دنیا میں آئے اور اپنے عظیم الشان لٹریچر، جدید علم الکلام اور پرعزم اور پروقار اسلوب زندگی سے دنیا بھر کے مسلم نوجوانوں میں احیائے دین اور پرامن سیاسی اور جمہوری جدوجہد کی جوت جگا گئے۔ زندگی میں اس کے زیراثر علمائے حق کے پہلو بہ پہلو کالجوں اور یونیورسٹیوں کا تعلیم یافتہ طبقہ ان کی طرف کھنچتا چلا آیا۔ یوں جماعت اسلامی وجود میں آئی جس نے اعلیٰ کردار اور خدمت خلق کی اچھی مثالیں قائم کیں۔ اس تنظیم میں باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں جن میں موروثیت کا ذرہ بھر شائبہ نظر نہیں آتا۔ سید مودودی آج بھی پوری اسلامی دنیا میں ایک جلیل القدر مفسر، مورٔخ اور اسلامی انقلاب کے داعی کے طور پر احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اور ہمیشہ یاد رہیں گے۔

میرا ان سے پہلا تعارف 1944 میں اس وقت ہوا جب میں سرسہ ہائی اسکول میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ انہی دنوں ایک مسلمان استاد چودھری نظام دین تبدیل ہو کر آئے جو نہایت عمدہ ادبی ذوق رکھتے تھے۔ وہ تنہا رہتے تھے، اس لیے ان کے ہاں اکثر آنا جانا رہتا۔ اکتوبر کی ایک صبح میں نماز فجر کے بعد استاد محترم کی طرف جا نکلا۔ گرم گرم چائے کی پیالی پر اردو زبان کی وسعت اور جمالیات پر بات چل نکلی۔ دوران گفتگو میں نے پوچھا کہ آج اردو ادب کا سب سے بڑا نثر نگار کون ہے۔

”سید ابوالاعلیٰ مودودی“ انہوں نے بے ساختہ جواب دیا۔ مزید کہا ”وہ شخص اس اچھوتے انداز میں لکھتا ہے کہ اپنے ساتھ قاری کو بہا کر لے جاتا ہے۔“ میرے بڑے بھائی حافظ افروغ حسن جماعت اسلامی کے رکن تھے اور ہمارے ہاں باقاعدگی سے رسالہ ’ترجمان القرآن‘ آتا تھا۔ میں نے اسے پڑھنا شروع کیا جس سے مولانا کی تصنیفات پڑھنے کا شوق فزوں تر ہوتا گیا۔

ہم نومبر 1947 میں ہجرت کر کے پاکستان آئے اور چوبرجی کوارٹرز لاہور میں آ کر ٹھہرے۔ میں سید ابوالاعلیٰ کی تلاش میں اچھرے جا پہنچا۔ معلوم ہوا کہ وہ اگلی شام سے رحمٰن پورہ کی مسجد میں درس قرآن شروع کرنے والے ہیں۔ مجھے ان کے پہلے درس میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی جس میں قرآن کے مطالب کھلتے جا رہے تھے۔ میرا محبوب نظر میرے سامنے تھا۔ میں نے بصد شوق ان سے مصافحہ کیا اور اپنا مختصر تعارف کرایا۔ یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی جو مجھے زندگی بھر دعوت حق کا فریضہ ادا کرنے پر ابھارتی رہی۔

1948 کے اوائل میں انہوں نے ہر اتوار کی صبح ٹیمپل روڈ لاہور پر واقع مولانا عبدالحلیم قاسمی کی مسجد میں درس قرآن جاری رکھا۔ یہ غالباً مئی کا مہینہ تھا کہ درس قرآن کے اختتام پر ایک شخص نے مولانا سے جہاد کشمیر کے بارے میں سوال کیا۔ وہ پہلے خاموش رہے اور پھر بار بار اصرار کے بعد گویا ہوئے کہ قرآن کی رو سے صرف ریاست جہاد کا اعلان کرنے کی مجاز ہے اور مسلح غیرریاستی جتھے اپنے طور پر کسی ملک یا ریاست کے خلاف جہاد شروع نہیں کر سکتے۔

دوسرا سوال پوچھا گیا کہ کیا آزاد قبائل کشمیریوں کی مدد کے لیے جا سکتے ہیں۔ مولانا کا جواب تھا قبائل آزاد ہیں، اس لیے اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کی مدد کو پہنچ سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ خبر اس طرح اخبارات میں شائع کرائی گئی جیسے سید مودودی جہاد کشمیر کو حرام سمجھتے ہوں۔ ان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا اس شدت سے کیا گیا کہ سردار عبدالرب نشتر جیسے دین دار اور جمہوریت پسند گورنر پنجاب نے مولانا اور ان کے قریبی ساتھی سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیے اور ان کو سی کلاس دی گئی۔

جماعت اسلامی نے پبلک سیفٹی ایکٹ کے نفاذ پر شدید مزاحمت کی تھی اور پاکستان میں چوٹی کے وکیل میاں محمود علی قصوری کی قیادت میں شہری آزادیوں کا ایک فورم بھی قائم کیا تھا۔ اس ایکٹ کے تحت کسی شہری کو چھ ماہ تک نظربند کیا جا سکتا تھا جس میں توسیع ممکن تھی۔ جب گورنر نے چوتھی بار توسیع کے احکام جاری کیے، تو ہائی کورٹ کی طرف سے فیصلہ آ گیا کہ کسی کو اٹھارہ ماہ سے زیادہ قید میں نہیں رکھا جا سکتا، چنانچہ مولانا اور ان کے ساتھی رہا کر دیے گئے۔

سید ابوالاعلیٰ مودودی کا موقف قرآنی تعلیمات کے عین مطابق اور اجتماعی سلامتی کا ضامن تھا۔ جب پاکستان کے وزیرخارجہ سر ظفراللہ خاں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ بیان دیا کہ پاکستانی فوجیں کشمیر میں لڑ رہی ہیں، تو مولانا نے اپنی جماعت کو جہاد کشمیر میں حصہ لینے کی تلقین فرمائی اور مسلمانوں کو بھی اپنا فریضہ ادا کرنے کا احساس دلایا۔ آج مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی قرآن کے بنیادی تصورات سے انحراف کا نتیجہ ہے۔

پاکستان کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے جی ایچ کیو میں منعقدہ 6 ستمبر کی مرکزی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس حقیقت پر زور دیا کہ صرف ریاست جہاد کا اعلان کرنے کی مجاز ہے اور کسی گروہ کو اپنے طور پر ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ پاکستان میں گزشتہ برسوں میں اسی ہزار سویلین اور فوجی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے ہیں۔ اگر 1948 میں سید مودودی کی دینی بصیرت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غیرریاستی عناصر طاقت کے استعمال کی اجازت نہ دیتے اور عوام کے اندر غلط رجحانات کی پرورش کی حوصلہ افزائی نہ ہوتی، تو ہم اس عذاب سے محفوظ رہ سکتے تھے۔

مجھے یاد ہے کہ حکومت پنجاب نے اس امر کا اہتمام کیا تھا کہ مولانا کا موقف اخبارات میں شائع نہ ہونے پائے، چنانچہ جماعت اسلامی اپنا موقف پوسٹرز کے ذریعے لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرتی رہی۔ میں ان دنوں اچھرے میں رہتا تھا اور ہم چند نوجوان رات کے وقت پوسٹر چسپاں کرتے اور گمراہ نوجوان ہم پر پتھر پھینکتے اور گالیوں سے نوازتے تھے۔ یہ تو آزمائشوں کا آغاز تھا۔ قائد دعوت اسلامی نے آگے چل کر کیا کچھ برداشت کیا اور اللہ کے دین کی سربلندی، آئین و قانون کی حکمرانی اور سیاست میں اخلاقیات کی پاسداری کے لیے جس جاں سوزی اور خیرخواہی سے کام کیا، ان کا بیان جاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments