تم سے کچھ بھی نہ ہو پائے گا


دلہن نے شادی کے کچھ عرصے بعد شوہر نامدار سے کہا ”سرتاج میرا دل چاہتا ہے کہ میں آپ کو اپنے ہاتھ سے مزیدار میٹھے پکوڑے بنا کے کھلاؤں بس آپ مجھے بازار سے کچھ ضروری سامان لا دو“ ۔ شوہر نے کہا ”بیگم تم مجھے عام روز مرہ کا سادہ اور موٹا جھوٹا کھانا ہی کھلاتی رہو، وہی کافی ہے، تم ان میٹھے پکوڑوں کے چکر میں مت پڑو، میں جانتا ہوں کہ یہ تم سے نہیں بنیں گے“ ۔

لیکن بیگم ضد پہ اڑی رہی اور کہا ”سرتاج میٹھے پکوڑے بنانے کی میں بہت ماہر ہوں، بس ایک بار مجھے سامان لا کر دو پھر دیکھنا کیسے مزیدار میٹھے پکوڑے بنا کر کھلاتی ہوں“ شوہر بیچارا مرتا کیا نہ کرتا بازار گیا اور ضروری سامان لا کر بیگم کے حوالے کر دیا۔

اب بیگم صاحبہ بڑے طمطراق سے میدے اور گڑ کا آمیزہ بنانے لگی، ایک کٹوری میں تل بھی بھگو دیے۔ لیکن عجلت اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے پانی زیادہ پڑ گیا، اب سوچ میں پڑ گئی کہ کیا کرے۔ اچانک اس کے دل میں خیال آیا کہ کوئی بات نہیں میٹھے پکوڑے نہ سہی میٹھا حلوہ تو بن ہی سکتا ہے ناں۔

اس خیال سے شوہر کے پاس آئی اور کہا ”بالم میٹھے پکوڑے تو اب بن نہیں سکتے کیونکہ مجھ سے آمیزے میں پانی کچھ زیادہ پڑ گیا ہے، مگر اب سوچتی ہوں کہ میٹھا حلوہ بنا کر آپ کو پیش کروں“ ۔

شوہر نے جب یہ مدعا سنا تو کہا ”بیگم میں نے تم سے پہلے عرض کی تھی ان میٹھے پکوڑوں کے چکر میں مت پڑو، مجھ خاکسار کو عام دال روٹی ہی کھلاتی رہو تو صد شکر بجا لاؤں، مگر تم نے نہ سنی، ابھی بھی رک جاؤ اس میٹھے حلوے کے جنجال میں مت پڑو کیونکہ تم سے یہ میٹھا حلوہ بھی نہیں بن پائے گا“

مگر بیگم صاحبہ پہ تو مجازی خدا کی خدمت کا بھوت سوار تھا کہنے لگی ”نہیں سرتاج میٹھا حلوہ تو میں ایسا بناتی ہوں کہ کھانے والے انگلیاں چاٹتے رہ جاتے ہیں، آپ ذرا ایک بار کھا کر تو دیکھیں“ شوہر نے خاموشی میں ہی عافیت جانی اور اہلیہ محترمہ چل پڑیں حلوہ بنانے۔

حلوہ بناتے ہوئے ایک بار پھر ہاتھ ذرا سا اوچھا پڑ گیا اور حلوے کی دیگچی ایک بار پھر پانی پانی ہو رہی۔ بیگم صاحبہ کی ایک نظر اس پکوان پہ پڑتی اور دوسری نگاہ کھانے کے منتظر آنگن میں بیٹھے شوہر پر۔

آخر بوجھل قدموں سے شوہر کے پاس گئی اور کہا ”سرتاج حلوے میں بھی زیادہ پانی پڑ گیا ہے اب یہ رقیق حریرہ سا بن گیا ہے، کھانے کے قابل تو ہے نہیں اب میں اسے چھت پہ لے جاکر عقبی گلی کی اور انڈیل آتی ہوں“ ۔

شوہر نے جب یہ سنا تو فوراً کہا ”نا بابا نا، چھت پہ بالکل بھی انڈیلنے مت جانا۔ تم سے میٹھے پکوڑے بنے نہ ہی میٹھا حلوہ۔ اب انڈیلنے جاؤ گی تو کوئی نیا چاند چڑھاؤ گی۔ میں خود اس قصے کو تمام کروں گا تم مزید زحمت نہ کرو تو بہتر ہے“ ۔ بیوی بولی ”سرتاج آپ بھوک سے ویسے نڈھال ہیں اور بھلا یہ انڈیلنا بھی کوئی کام ٹھہرا، میں پلک جھپکنے میں کر کے آتی ہوں“ ۔

زوجہ محترمہ ابھی چھت سے آمیزہ انڈیل کے واپس بھی نہ پلٹی تھیں کہ زور زور سے کواڑ بجنے کی آواز آئی، شوہر دوڑے کہ خدا خیر کرے، کون ہے جو جو اتنے جارحانہ انداز میں در پیٹ رہا ہے۔

محترمہ نے خراماں خراماں زینے اتر کر صحن میں نگاہ دوڑائی تو شوہر ندارد، گلی میں ہنگامے کی آواز کان پڑی، دوڑ کے بیرونی دروازے پر گئی اور جھانک کے گلی میں دیکھا تو شوہر نامدار دو افراد کے ساتھ گتھم گتھا تھے، ان دونوں کے سفید لباس پہ حریرے کے چھینٹوں نے نقش و نگار بنا دیے تھے۔ لڑائی چھڑانے اور تماشا دیکھنے والے کی بھی معقول تعداد جمع تھی۔ بیگم صاحبہ کے دل سے اک آہ سی نکلی۔

لوگوں نے بیچ بچاؤ کرا دیا، سرتاج متورم ہونٹ اور دریدہ لباس کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے تو بیگم پہ گھڑوں پانی پڑ گیا، ایک لفظ بھی منہ سے نکلنا محال ٹھہرا۔ شوہر کے سوجے ہونٹ تو ویسے ہی کچھ بولنے سے قاصر تھے، لیکن اس کی غصیلی آنکھیں زبان حال سے یہ کہ رہی تھیں۔

”بیگم میں نے کہا تھا نا کہ تم سے میٹھے پکوڑے بنیں گے نہ میٹھا حلوہ اور آخر کار تم سے یہ بکھیرا بھی نہیں جائے گا، مگر تم نہ مانیں، خدا غارت کرے تمہارے زعم کو۔

(یاد رہے کہ یہ خالصتاً غیر سیاسی تحریر ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments