ستمبر


ستمبر شاید ستم گر ہے۔ برس ہا برس سے خواہش ہے کہہ ستمبر کا آخری ہفتہ ہنزہ میں گزاروں پر کوئی نہ کوئی مشکل درپیش آجاتی ہے۔ کبھی زلزلہ کبھی فنڈز کی کمی اور کبھی چھٹی کا نہ ملنا۔ بہرحال اس دفعہ تیاری پوری تھی اور ہمت جواں تھی۔ لیکن گھٹنے کے درد نے نہ جانے کا مشورہ دیا اور ڈاکٹر کہتے ہیں 35 کلو وزن کم کریں اور سیڑھیاں بھی نہ چڑھیں جی اچھا کے علاوہ کوئی جواب نہیں میرے پاس۔

پر میں تو پہاڑوں پر چڑھنا چاہتا ہوں۔ میرے اللہ مجھے ہمت اور صحت دے دے امین۔
ایک موٹر، سائیکل لے لیا کہہ اس پر سفر، کروں گا وہ بھی کھڑا ہے مکمل ہی نہیں ہو پا رہا۔

مجھے لگتا ہے شاید ہنزہ جانے کی حسرت ہی رہ جائے گی۔ شاید یا پھر ہنزہ نہیں چاہتا کہ اس کی شاندار تصاویر بنیں کیوں کہ میرا مکمل یقین ہے کہ تصویر فوٹوگرافر کو بلاتی ہے۔ ہو سکتا ہے میری ریاضت میں کچھ کمی ہو۔

بستر پر پڑا ہوں اور ہنزہ کو سوچ رہا ہوں کہ اس کے درخت لال پیلے زرد ہونا شروع ہوچکے ہوں گے اور میرا انتظار کر رہے ہونگے پر دل بہلانے کو، خیال آتا ہے خزاں زدہ پتے درخت کے نہیں ہوئے میرے کیسے ہونگے

ساری معلومات ہر سال دوبارہ اکٹھی کرتا ہوں جانے والے سمجھتے ہیں میں کئی دفعہ ہنزہ جا چکا ہوں اور مشورہ کرتے ہیں۔ میں اپنے لیے لی گئی معلومات ان سے شیئر کرتا ہوں۔ چلو کسی کے کام تو آئیں جی اگر بجٹ اجازت دے تو ایگل نیسٹ ہوٹل میں ضرور ٹھہریں وہاں سے آٹھ کی آٹھ چوٹیاں نظر آتی ہیں اور کریم آباد تو ہنزہ کی جان ہے۔ سب جگہیں وہاں سے نزدیک ترین ہیں خنجراب پاس جانا ہو تو ساتھ کچھ کھانے پینے کو رکھ لیں وہاں سے کچھ نہیں ملتا عطا آباد لیک جائیں تو کشتی میں بیٹھ کر اس سے وابستہ پرانے گاؤں ضرور جائیں اور رات وہاں قیام ضرور کریں۔

اس طرح کی معلومات دیتا ہوں جیسے اپنا علاقہ ہو سب دوستوں سے جو وہاں بار بار جاتے ہیں۔ معلومات اکٹھی کرتا رہتا ہوں خاص کر سجاد، نبی بابر بھائی اظہر بھائی جب جانا ہو بتا دیجئے گا ایگل نیسٹ کا مالک علی اپنا دوست ہے بکنگ کروا دوں گا۔ جی اچھا ہر سال ستمبر شروع ہوتا ہے اور میرے اوپر بھی خزاں طاری ہوجاتا ہے۔ رنگ کالا ہونے کی وجہ سے سرخ اور زرد تو نہیں ہو پاتا لیکن مرجا ضرور جاتا ہے۔ اور جس طرح خزاں زدہ پتے درخت کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں میں بھی اپنی ذات کو چھوڑ کر اپنے آپ سے نکل کر ہنزہ پہنچ جاتا ہوں۔

کئی دفعہ خوبانی کے درختوں سے خوبانیاں توڑتا ہوں اور کبھی انگور کی بیلوں سے انگور اور کچھ دفعہ تو لوگوں کو منع بھی کرتا ہوں۔ سوری جی میں ہنزہ واٹر نہیں پیتا کیوں حرام ہلال کے چکر میں پڑ گئے کیا جی نہیں بدبودار کوئی بھی شربت نہیں پی سکتا۔ آج تک کبھی کھانسی کا شربت نہیں پیا اور پھر ذہن کو جھٹک کر واپس اپنی اوقات میں آ جاتا ہوں۔ کروٹ بدلتا ہوں اور بیوی پوچھتی ہے کیا سوچ رہے ہیں اٹھارہ سال سے ایک حرفی جواب ہے ہنزہ۔

آپ چکر لگا آئیں جی اچھا اور میں گلی کا چکر لگا آتا ہوں وہ بھی میری اس حرکت پر مسکرا دیتی ہے بہت سارے دوست بھائی ہر دفعہ جاتے ہیں اور میری حسرتوں کو جوان کر دیتے ہیں۔ سب سے بچوں کی طرح سوال کرتا ہوں کتنا خرچہ آتا ہے پٹرول کتنا لگتا ہے۔ دن کتنے ہونے چاہیں پٹرول پمپ کہاں کہاں ہیں سیکورٹی کے حالات کیا ہیں کھانے کیسے ہیں وہاں کے لوگ کیسے ہیں سب معلومات اب جمع ہیں۔ میرے پاس مجھے سب مقامات بھی پتہ ہیں کہاں سے فوٹو اچھی بنتی ہے پر اسی بات کا دکھ ہے فوٹو بنانے کے لیے اس مقام پر جانا ضروری ہوتا ہے۔ اور میں جا نہیں پاتا سوچا ہنزہ کی کہانی تو لکھ سکتا ہوں اور آج لکھ دی اور کلام سن رہا ہوں اپنے اندر سے۔

مائے نی میں کنوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال نی

محمد اظہر حفیظ
Latest posts by محمد اظہر حفیظ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments