میری بہشتی بہن


اسے دسویں جماعت پاس کر لینے کے بعد صرف انڈوں کا حلوہ بنانا آتا تھا۔ یہ بھی اس نے سکول میں ”خانہ داری“ کی جماعت میں سیکھا تھا۔ قصبہ میں لڑکیوں کا کالج تھا نہیں اور نہ ہی لڑکیوں کو پڑھنے کے لیے شہر بھیجنے کی ہمارے ہاں کوئی ریت بن پائی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس سے بڑی دو بہنوں نے اس کے میٹرک پاس کر لینے سے پانچ چھ سال پہلے صرف آٹھویں جماعت ہی پاس کی تھی کیونکہ تب وہاں تھا ہی مڈل سکول فار گرلز۔ جب سکول کو ہائی کیا گیا تب تک وہ گھر کے کاموں میں رچ بس چکی تھیں۔ بس پھر بڑے بھائی اپنی گمبھیر آواز میں ”آخری چٹان“ اور ”یوسف بن ناشرین سناتے خود بھی روتے اور سننے والی ماں بہنوں کو بھی رلاتے۔

مگر بہنوں میں سب سے چھوٹی نے مزید پڑھنے کی ٹھان لی تھی۔ رو دھو کے انٹر کی کتابیں منگوا لیں اور دو سال بعد پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے بارہویں پاس کر لی۔ ماں تو پتہ نہیں کیوں اس کی ویسے ہی مخالف تھی شاید اس لیے کہ اس کی پیدائش کے بعد دو بچوں کی کم عمری میں اموات ہو گئی تھیں۔ چنانچہ اس کو ماں کی جلی کٹی سننی پڑتی مگر دھن کی پکی رہی۔ نہ صرف بی اے پاس کیا بلکہ پولیٹیکل سائنس میں ایم اے بھی پرائیویٹ امتحان دے کے پاس کر لیا۔ اس طرح وہ ہمارے کنبے کی پہلی پوسٹ گریجویٹ بنیں کیونکہ باقی بھائی بہنوں میں، میں نے ہی ڈبل گریجویشن کی تھی یعنی ایم بی بی ایس جبکہ چھوٹا بھائی بعد میں ایل ایل بی کا گریجویٹ ہو کے وکیل ہوا۔

ہمارے ہاں بہنوں کے بیاہ ذات، خاندان، تہذیب وغیرہ کے جائز و ناجائز تقاضوں می پھنس کے موخر ہو گئے تھے۔

سنا کہ ہمارے ماموں اور پھوپھی زاد جو بہنوں میں سب سے بڑی کے شوہر بھی تھے، کوئی رشتہ لے کر آئے، دو بڑی بہنوں کی بجائے یہی ایم اے پاس بہن ان صاحب سے بیاہ دی گئیں کیونکہ باقی بہنوں کی نسبت اس کی اولاد پانے کی عمر باقی تھی۔ میں ان دنوں ایک جھگڑے کے سبب اپنے گھر والوں کی جانب سے راندہ ہوا تھا چنانچہ مجھے بلانے کی ضرورت ہی نہیں محسوس کی گئی تھی۔

پھر گھر والے اس بیچاری کو رخصت کر کے اسے پہلی بار میکے لانا بھول گئے تھے۔ تب میں نے ایران سے لوٹ کر ایک بالکل ہی اجنبی قصبے کوٹ ادو میں رہائش اختیار کر لی تھی اور پرائیویٹ پریکٹس کرنے لگا تھا۔ نوبیاہتا بیچاری بہن نے ”ڈاکٹر کیپٹن مرزا محمد مجاہد، کوٹ ادو، مظفرگڑھ“ پتہ لکھ کے مجھے خط لکھ بھیجا تھا جو میرے نام کی وجہ سے مجھے مل گیا۔ اس خط میں اس نے خود کو بھلائے جانے کا ذکر کیا اور مطالبہ کیا کہ اس کو لے جاؤں۔

اپنا پتہ اس نے لکھا ہی تھا۔ میں خط پڑھ کے شام کو ہی لاہور کے لیے روانہ ہو گیا تھا۔ تب صدر بازار کے چوک سے ایک طرف عسکری 9 تھا۔ کچھ خالی علاقہ، پھر مرغی خانہ سٹاپ کے ایک طرف محلہ جس کے آٹھ مرلہ کے گھر میں ہماری ایم اے پاس بہن ایک ایسے شوہر کے ساتھ تھی جس نے اپنی پہلی بیوی سے صرف ایک بیٹی ہونے کا ذکر تو میرے بہنوئی سے کیا تھا مگر یہ چھپا لیا کہ بیٹی سے بڑے دو بیٹے بھی ہیں۔

موصوف شکل کے تو جیسے تھے سو تھے عمر میں بھی بہن سے کئی سال بڑے تھے۔ سوشل، ملنسار اور مہمان نواز انسان تھے۔ بہت بعد میں معلوم ہوا کہ وہ خفیہ پولیس میں اے ایس آئی تھے اسی لیے انہوں نے مجھے یہی بتایا تھا کہ وہ پرنٹنگ کا کام کرتے ہیں۔ اسی دوران میرے بڑے بہنوئی پہنچ گئے جن کے توسط سے یہ رشتہ ہوا تھا۔ لگتا تھا کہ خفیہ پولیس والے بہنوئی نے ہی انہیں مدعو کیا تھا کیونکہ اپنے سے ہوئی ایک سماجی زیادتی کی وجہ سے میں بڑے بہنوئی سے روٹھا ہوا تھا۔ باوجود اس کے کہ میں ان کا احترام کرتا تھا، اس بے جوڑ رشتے کی وجہ سے میں نے ان کے ساتھ خاصی اکھڑی ہوئی گفتگو کی تھی۔ پھر بہن کو لے کر کوٹ ادو اپنے گھر پہنچ گیا تھا۔ دس روز بھائی کے ہاں رہنے کے بعد وہ اپنے گھر لاہور لوٹ گئی تھی۔

پھر جب 1987 میں میں مریدکے منتقل ہو گیا تو ہم ایک دوسرے کے گھر آنے جانے لگے تھے۔ بہن کی ایک ہی بیٹی ہوئی تھی جس کا نام میں نے رکھا تھا۔ ان کے شوہر کا چھوٹا بیٹا ہیروئن کا عادی اور مجرم صفت ہو چکا تھا جس کا رویہ سوتیلی ماں سے ناگفتہ بہ تھا۔ پھر اس نے کسی کو قتل کر دیا۔ اس کے والد شاہ جی نے کسی طرح اسے چھڑوا لیا۔ اس کی موجودگی کے دوران میری بہن بہت مضطرب اور پریشان رہی۔ کچھ عرصہ بعد اس لڑکے کو بھی کسی نے قتل کر دیا تھا۔ یوں ہمارے امن پسند کنبے کی اس ڈھیٹ لڑکی کو ایسا سب سہنا پڑا تھا۔

ان کے شوہر کا پہلی بیوی سے بڑا بیٹا پہلے سے نیویارک جا چکا تھا اور بیٹی کا بیاہ ہو گیا تھا۔ بیٹی کی رخصتی میں میری بہن نے ماں کا سا کردار نبھایا تھا۔ سب برا بھلا ہو جانے کے بعد اس علاقے سے جی اوبھ گیا تھا چنانچہ وہ گھر بیچا اور ان کے خاوند نے ڈی ایچ اے موڑ کے نزدیک پھر ایک گلی میں پانچ مرلے کا پلاٹ لے لیا تھا۔ وہاں گھر تعمیر کرنے کی خاطر علی پور میں برقعہ اوڑھنے والی اس لڑکی نے چادر اوڑھے عورت کے طور پر ہر وہ کام سرانجام دیا جو عام طور پر مرد کرتے ہیں جیسے تعمیراتی سامان خریدنا، تعمیر کے مقام تک پہنچانا اور تعمیر کی نگرانی وغیرہ۔

اب اس نے اپنا ایک چھوٹا سا گھر بنا لیا تھا۔ شاہ جی کب سے ریٹائر ہو چکے تھے مگر اپنے پیشے سے وابستہ برے معاملات میں بھی ملوث ہو جاتے۔ گالم گلوچ بھی بازار کی زبان میں کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ اس اثناء میں میری بھانجی نے بھی ایم اے کر لیا تھا اور لاہور گرائمر سکول میں پڑھانے لگی تھی۔ اس کا بیاہ ہوا تو لگتا تھا کہ میری بہن استراحت کرنے کو فارغ ہو چکیں مگر شاہ جی فالج کا شکار ہو کر بستر سے جا لگے اور آٹھ سال بستر پر اپنی بیوی سے خدمت کرواتے رہے۔ پولیس کی زبان میں برا زبانی سلوک بھی کرتے رہے۔ اللہ کی اس بندی نے تو جیسے زبان سی لی تھی، کبھی کبھار مریض کی بک جھک سے اکتا بھی جاتیں تو جھنجھلاتیں سہی مگر شوہر کی بدزبانی کا ترکی بہ ترکی جواب نہ دیتیں۔

آٹھ برس کی اذیت سہ کر اور اذیت دے کر شاہ جی یہ دنیا چھوڑ گئے۔ اب بہن اکیلی رہنے لگیں۔ سب کام مردانہ وار کرتی تھیں اور تو اور میرے روکنے کے باوجود دور بازار جا کے میرے لیے رکشہ کر کے دروازہ تک لا دیا کرتی کہ بھائی کو چلنا نہ پڑے۔ صابر تو وہ تھیں ہی اللہ نے گزارا بھی اچھا چلایا ہوا تھا۔

میں روس سے آتا تو مریدکے میں بیٹے کے ہاں رکتا، جو دیر گئے سو کے اٹھتا۔ اگر مجھے لاہور میں کسی سے ملنا ہوتا یا کوئی کام ہوتا تو بیٹا مجھے اسی بہن کے ہاں چھوڑ جاتا۔ وہ میری خدمت اسی طرح کرتی جیسے میں وہی چھوٹا ننھا ہوں جسے وہ دس گیارہ برس کی عمر میں ساتھ ساتھ لیے پھرتی تھی۔ ہر کھانے کے بعد میٹھا کیونکہ اسے بتا دیا گیا تھا کہ میں کچھ دہائیوں سے میٹھا پسند کرنے لگا ہوں۔ ناشتے میں ملائی کا اہتمام کرتی کیونکہ جانتی تھیں کہ مجھے ملائی اچھی لگتی ہے۔

بیٹی کی دو بچیاں ہو گئیں تو وہ سسرالی گھر سے شوہر کے ساتھ ماں کے گھر منتقل ہو گئی جس کے لیے ماں بیٹی نے مل کر دوسری منزل پر بھی کمرے اور برآمدہ تعمیر کر لیے۔ میرا بیٹا بھی تین برسوں سے لاہور منتقل ہو گیا تھا چنانچہ بہن کے ہاں قیام موقوف ہوا مگر مختصر ملاقات ہو جاتی۔ انہوں نے کئی بار رہنے کو کہا بھی مگر مجھے موقع نہ مل سکا۔

دو برس پہلے نومبر میں ملاقات رہی۔ ارادہ تھا کہ مارچ 2020 میں لاہور جاؤں گا مگر کورونا کی وبا کی وجہ سے جا نہ سکا۔ گیارہ ماہ کے بعد یکم اکتوبر 2020 کو میں ماسکو پہنچ گیا۔ فلائٹ کراچی سے تھی اس لیے لاہور جانے کی ضرورت نہ تھی۔

میری بہن اگرچہ اپنی ایم اے پولیٹیکل سائنس بھلا چکی تھیں مگر اتنی باشعور بہر حال تھیں کہ کرونا کے خلاف تمام احتیاطیں نبھاتیں۔ سائنو فارم ویکسین کے دونوں ٹیکے بھی لگوا لیے تھے۔ 7 ستمبر کو میری ان سے وڈیو کال ہوئی۔ مطمئن تھیں۔ گلہ کیا کہ ان کا داماد کورونا کے خلاف احتیاطیں نہیں برتتا۔ 12 ستمبر کو میری بھانجی نے پیغام بھیجا کہ امی کو کورونا ہو گیا ہے۔ ان کے خون میں آکسیجن کی شرح 83 % تک گر چکی ہے۔ انہیں ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا ہے۔ میں ڈر رہی ہوں۔

اگلے ہی روز بتایا کہ ان کے 70 % پھیپھڑے متاثر ہوئے ہیں اور انہیں ڈبل آکسیجن پہ ڈالا گیا ہے۔ چند روز بعد بتایا کہ امی تعاون نہیں کرتیں۔ آکسیجن ماسک اتار دیتی ہیں۔ میں نے چھوٹا ہوتے ہوئے بھی سخت تنبیہی وائس میسیج بھیجا۔ بھانجی نے بتایا کہ سن کے چپ رہیں، کچھ نہیں بولیں۔ پھر ایکٹرما ٹیکوں کی ڈھنڈیا پڑی جو سوا ڈیڑھ لاکھ روپوں سے کم میں نہیں ملتا۔ کسی نہ کسی طرح حاصل کیے اور دو ٹیکے لگائے مگر طبیعت بہتر نہ ہو کے دی۔ چار روز پہلے خون میں آکسیجن کی شرح 35 فیصد تک گر گئی تو انہیں وینٹی لیٹر پر منتقل کر کے سلائے رکھا جانے لگا۔

دو دن پہلے مجھے بتایا گیا کہ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا۔ کیا مطلب؟ کورونا میں ڈاکٹر جواب نہیں دیتے۔ آخری حد تک کوشش کرتے ہیں مگر پاکستان ہے جہاں پرائیویٹ ہسپتال کا روزانہ خرچ ہی تیس چالیس ہزار آتا ہے۔ سترہ روز کے بعد کل سوا دس بجے میری جنتی بہن دوسرے جہان چلی گئیں۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور بہشت عطا کرے، آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments