عمر شریف! خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک


باآخر عمر شریف بھی کل طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ کسی دوسرے کو ان کی وفات سے حیرت ہوئی ہو تو ہوئی ہو لیکن ہمیں کوئی حیرت نہیں ہوئی ہے۔ کیونکہ جس وقت پہلے پہل ان کی طبیعت کی خرابی کی خبریں آئیں تھیں تو ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا تھا کہ پچھلے سال بیٹی کی وفات کے بعد ان کی طبیعت خراب رہنے لگی ہے تو یہ خبر سنتے ہی ہم گھر والوں کے ذہنوں میں صرف ایک نام گونجا۔ ”جمیل فخری“

جمیل فخری مرحوم کے ساتھ بھی تو یہی ہوا تھا کہ بیٹے کی وفات کی تصدیق ہونے کے ایک سال کے اندر اندر غم کی تاب نہ لا کر وفات پا گئے تھے۔ کیا کوئی کہہ سکتا تھا کہ اندھیرا اجالا کے سخت گیر اور قدرے لالچی نظر آنے والے انسپکٹر جعفر حسین کا کردار نبھانے والا شخص یوں بیٹے کے غم میں گھل کر ختم ہو جائے گا؟

اسی طرح ہمیں عمر شریف کے حوالے سے بھی یہی خدشہ لاحق تھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ فنکار خاص طور پر وہ فنکار جو خود لکھتے بھی ہوں، وہ انتہائی حساس ہوتے ہیں۔ اگر وہ حساس نہ ہوں تو وہ ان باتوں کو ہمارے سامنے کیسے مزاحیہ یا سنجیدہ انداز میں پیش کر سکتے ہیں کہ جنھیں دوسرے عام سی بات سمجھ کر نظر انداز کر جاتے ہیں۔

مثلاً عمر شریف کی ایک کیسٹ ”والیوم 93“ میں ایک جگہ ایک کردارماں سے کہتا ہے۔ ”اور اماں تمھیں تو ابا کی اور زیادہ عزت کرنی چاہیے۔ “ ماں پوچھتی ہے ”کیوں“ بیٹا کہتا ہے۔ ”کیونکہ وہ تمھارے باپ کی عمر کے برابر ہے۔“ اب عمروں میں بہت زیادہ تفاوت رکھنے والے جوڑے سبھی دیکھتے ہیں، ان پر پھبتیاں بھی کستے ہیں مگر اسے یوں بیان کرنا کوئی حساس نظر رکھنے والا ہی کر سکتا ہے۔ اس پورے کیسٹ میں عمر شریف نے ان لوگوں پر طنز کیا ہے جو انشورنس کی رقم ہتھیانے کی خاطر زندہ باپ کو دفن کر آتے ہیں۔ بظاہر تو یہ مزاح تھا، لیکن اصل میں معاشرے پر انتہائی گہرا طنز ہے۔

جس میں ہمارے معاشرے کے لالچ کو دکھایا گیا ہے۔ اسی کیسٹ میں ایک نواب عمر شریف کی چچا زاد بہن کا رشتہ مانگنا آتا ہے۔ تو وہ اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ نواب صاحب سے جو کوئی جو چیز مانگے اسے دے دیتے ہیں۔ مثلاً ابھی چند دن پہلے ایک صاحب نے کہا کہ نواب صاحب، میرا بیٹا نہیں ہے، مجھے بیٹا دے دیجیے۔ اس پر نواب نے اپنے سیکرٹری کو حکم دیا کہ وہ اپنا بیٹا ان صاحب کو دے دے۔ یہ ماجرا سن کر عمر شریف کا کردار نواب سے درخواست کرتا ہے کہ اس کی بیوی نہیں ہے، اسے بیوی چاہیے۔

یہ سن کر نواب اپنے سیکرٹری کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنی بیوی اسے دے دے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں اس میں ہمارے معاشرے کے ان افراد کو دکھایا گیا ہے جو خود کو مشہور کرنے کے لیے کسی دوسرے کی شے کو اپنا کہہ کر دوسروں کو دے دیتے ہیں۔ یہاں سیکرٹری کا کردار جمشید انصاری نے اداکیا تھا۔ عمر شریف کے لطیفوں کی خاص بات یہ ہے کہ وہ اتنے لمبے اور برجستہ مکالموں پر مبنی ہوتے تھے کہ انسان حیرت زدہ رہ جاتا تھا کہ ان کا ذہن کتنا ذرخیز ہے اور بات سے بات نکالنے کا فن جانتا ہے۔

عمر شریف کی وفات کے حوالے سے ہماری حیرت نہ ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ پچھلے ڈیڑھ دو ہفتے سے بار بار خبریں آ رہی تھیں کہ ان کی حالت خراب ہے اور انہیں فوری طور پر امریکا منتقل کرنے کی ضرورت ہے مگر جس طرح اس حوالے سے ضروری اقدامات کر نے میں حکام نے سستی دکھائی اور پھر جس طرح ان کے لیے ائر ایمبولینس آنے میں تاخیر ہوتی رہی تو اس حوالے سے بھی ہمارے خدشات زیادہ ہو گئے کہ ایک ایسا مریض کہ جس کے دل کا مرض اتنا سنجیدہ ہو وہ بغیر علاج کے اتنے دنوں تک کیسے زندہ رہ سکتا ہے۔ ساتھ ہی ہمیں وہ شعر رہ رہ کر یاد آتا رہا۔ کہ

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

عمر شریف کے حوالے سے کافی کچھ لکھا جا چکا ہے اور بعد میں بھی لکھا جاتا رہے گا۔ لیکن ہم اس حوالے سے بار بار خبروں میں آنے والی باتوں کو دوہرا کر اس بھیڑ چال میں نہیں پڑنا چاہتے۔ ہم کچھ وہ باتیں کریں گے کہ جو دوسرے نہیں کہہ رہے۔

عمر شریف کے پہلے کیسٹ ”عمرشریف شو 83“ میں ایک عورت کہتی ہے۔ ”ہائے میرے بیٹے میرے لال“ اس پر عمر شریف جو اس عورت کے شوہر بنے ہوتے ہیں، دانت پیس کر کہتے ہیں۔ ”تیرے لال! کسی دن ان کو مار مار کے اودا کر دوں گا، نیلا کر دوں گا، جامنی، ٹیکنی کلر کر دوں گا اور پھر جب کوئی تیرے بچے دیکھے گا تو کہے گا کہ یہ فیوجی والوں کے بچے ہیں۔“

نئے زمانے کے اس دور میں پیدا ہونے والے جو لوگ اس لطیفے کو نہیں سمجھ پائے، ان کو بتاتے چلیں کہ فیوجی فلم پاکستان میں روایتی سیلولائیڈ فلم بنانے والا بڑا نام تھا، جو ٹیکنی کلر فلم بھی بناتے تھے۔

اسی طرح عمر شریف شو 84 میں ایک بادشاہ پوچھتا ہے ”فریادی، فصل کٹ گئی“ اس پر عمر شریف فریادی کے روپ میں جواب دیتے ہیں۔ ”مہا بلی! فصل تو نہ کٹ سکی، آج بوہری بازار میں ہماری جیب کٹ گئی“ ۔

یعنی بادشاہ کے رعایا کے خیال نہ رکھنے کی جانب اشارہ تھا۔

عمر شریف شو 85 میں ایک جگہ عمر شریف اور بیوی کی لڑائی ہوتی ہے تو وہ کہتی ہے۔ ”میں تم سے دو سال بڑی ہوں تو کیا ہوا، جہیز بھی تو کتنا لائی ہوں“ تو عمر شریف جواب دیتے ہیں ”پہلی قسط کے علاوہ باقی جہیز کی ساری قسطیں میں نے ہی ادا کی ہیں۔“ یعنی اس لطیفے میں اس جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ جو لوگ جہیز کے لالچ میں شادی کرتے ہیں، ان کے ساتھ یہ بھی ہو سکتا ہے۔

عمر شریف شو 86 میں ایک جگہ شہنشاہ جہانگیر عمر شریف کے ساتھ لاہور آتے ہیں۔ تو جگہ جگہ سڑکیں کھودی ہوئی دیکھ کر پوچھتے ہیں ”نوجوان کیا خدانخواستہ جنگ کا خطرہ ہے جو شہر کے چاروں طرف یہ خندقیں کھود دی گئی ہیں“ ۔ اس پر عمر شریف جواب دیتے ہیں ”خندقیں؟ بھیا یہ ایل ڈی اے والے نئی پائپ لائن ڈال رہے ہیں۔“

برسبیل تذکرہ آج کل ہمارے علاقے میں بھی سات فٹ قطر کی نئی پائپ لائن ڈالی جا رہی ہے تو اس حوالے سے کھودی ہوئی سڑک اور اس کے گڑھے دیکھ کر روز ہمیں یہ لطیفہ یا طنز یاد آ جاتا ہے۔

اگر عمر شریف ز ندہ رہ جاتے تو وہ اس معاشرے کے ناسوروں کو اجاگر کرنے کے لیے مزید مزاحیہ کردار تخلیق کرتے، اگر خود اداکاری نہ کر پاتے تو دوسروں کے لیے مزاح لکھتے اور معاشرے کی برائیاں اجاگر کرتے۔

انسانی معاشرتی حیوان ہے، اس میں بڑے عجیب وغریب کردار پائے جاتے ہیں۔

ایک عمر شریف تھے جو بیٹی کے انتقال، کہ جس میں ان کا کوئی قصور نہ تھا، کے صدمے کو برداشت نہ کرتے ہوئے ڈیڑھ سال کے اندر وفات پاء گئے اور ایک وہ بھی باپ ہی کہلاتے ہیں جو جائیداد بیٹی کونہ دینے کے لیے اسے مار ڈالتے ہیں۔

ایک سعید انور ہیں کہ جنھوں نے بیٹی کے انتقال کی وجہ سے نہ صرف عین اپنے عروج پر کرکٹ چھوڑ دی بلکہ اپنی زندگی کا دھارا ہی بدل ڈالا۔ ہمارے ایک جاننے والے خاندان میں ماں کا انتقال ہوا تو بیٹا نوکری پر باہر گیا ہوا تھا۔ دفتر سے واپس گھر آیا تو ماں کی لاش دیکھتے ہی اس پر گر گیا اور اس کا بھی صدمے سے انتقال ہو گیا۔ یوں ایک گھر سے بیک وقت ماں اور بیٹا دونوں کے جنازے نکلے۔ دوسری طرف وہ بھی بیٹے ہوتے ہیں کہ جو سگی ماں کو گھر سے نکال دیتے ہیں یا قتل بھی کر دیتے ہیں۔

یہ تقسیم کے قریب کا واقعہ ہے کہ ہمارے خاندان کی ایک پڑوسی عورت کے شوہر کا انتقال ہوا تو جنازے کے بعد شام کو اس نے تعزیت کے لیے آنے والی عورتوں سے کہا کہ شوہر کے بغیر یہ شام تو اکیلے گزار لی ہے لیکن اگلی شام نہیں گزاروں گی۔ لوگوں نے اسے بہت کہا کہ تمھارے بعد تمھارے چھوٹے چھوٹے بچوں کا کیا ہو گا لیکن وہ یہی کہتی رہی۔ اگلی صبح اس کادل بند ہونے سے انتقال ہوا اور شام تک وہ عورت اپنے شوہر کے پہلو میں دفن ہو گئی تھی۔ حالانکہ اس عورت کو اپنے بچوں سے بھی بے انتہا پیار تھا اور وہ ان کے بہت زیادہ ناز نخرے اٹھایا کرتی تھی۔ دوسری طرف وہ بھی بیویاں ہوتی ہیں کہ جو شوہروں کو قتل کر دیتی ہیں۔

بس ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ ہم کس قسم کے انسان بننا چاہتے ہیں۔

پوری دنیا میں مزاحیہ فنکار ہیں۔ مثلاً جم کیری، ارشد وارثی، گووندا، جے لینو، ٹریور نوح، جان سٹیورٹ، جانی لیور اور کتنے ہی دیگر مگر عمر شریف کے انداز اور مزاح لکھنے سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مزاح ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ جیسے وہ کھاتے پیتے بھی مزاح ہی تھے۔ جمشید انصاری کا انکل عرفی ڈرامے میں تکیہ کلام ہوتاتھا ”چقو (چاقو) ہے، میرے پاس“ ۔ اسی طرح عمر شریف بھی اپنے مزاح کے چاقو کے ذریعے معاشرے کے ناسوروں کی جراحی کیا کرتے تھے۔

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments