کمپنیاں ہم سے چیزیں کیسے خرید کرواتی ہیں۔


یہ جو بار بار اشتہار دکھائے جاتے ہیں کیا واقعی اس کا کوئی معاشی فائدہ ہوتا ہے؟

ہم میں سے اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ جب ہم اشتہار دیکھتے ہی نہیں اور نہ ہی غور سے سنتے ہیں تو کمپنیاں اربوں کھربوں روپیہ مارکیٹنگ اور ایڈورٹائزنگ کی مد میں کیوں صرف کرتی ہیں؟

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جب بھی کوئی انتہائی دل چسپ یا پسندیدہ یوٹیوب ویڈیو یا کوئی بین شدہ ٹیوب کی ویڈیو کلک کی جاتی ہے تو وہ پانچ یا دس سیکنڈ جن سے پہلے ہم ایڈ کو سکپ نہیں کر سکتے انتہائی اذیت ناک ہوتے ہیں۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ غصے کی وجہ سے وہ ایڈ دیکھتے ہی نہیں۔ اور جیسے ہی سیکنڈ پورے ہوتے ہیں ہم ایک لمحہ ضائع کیے بغیر سکپ ایڈ پر کلک کر دیتے ہیں۔

اب ہوتا کیا ہے بھلا۔

ہمارے دماغ کے دو انتہائی اہم حصے پریفرنٹل کارٹیکس اور ہپو کیمپس فیصلہ سازی میں وہی کردار ادا کرتے ہیں جو ہمارے ملک میں بڑی سرکار ادا کرتی ہے۔

ہپو کیمپس کے اس کے علاوہ بھی کئی کام ہیں جن میں حواس خمسہ سے ملنے والی معلومات کو میموری کے طور پر محفوظ کرنا ہے۔

جب بھی ہم کسی ایسی صورت حال سے دوچار ہوتے ہیں جہاں ہم نے کوئی فیصلہ لینا ہے تو ہمارے دماغ کے مختلف حصوں سے مختلف نیورو ٹرانسمیٹرز ریلیز ہوتے ہیں۔ مختلف نیورانز کے گروپ مختلف طریقوں سے اپنے اپنے کوڈڈ پیٹرن کے مطابق فائرنگ کرتے ہیں۔ مختلف بائیو کیمیکلز ریلیز کیے جاتے ہیں وہ دیگر نیورانز کے سیٹ کو متحرک کرتے ہیں اور دماغ کے مختلف حصے ایک دوسرے سے کوارڈینیٹ کر کے بیرونی دنیا کی صورت حال کے حساب سے دماغ کے پریفرنٹل کارٹیکس کے سامنے ڈھیر سارے جوابی آپشن رکھ دیتے ہیں۔

ان میں سے موزوں ترین آپشن /فیصلے کا انتخاب کرنے کے لئے ہمارا دماغ ایک مائیکرو سیکنڈ سے بھی کم وقت میں یعنی ایک سیکنڈ کے دس لاکھویں حصے سے بھی کم وقت میں ماضی کی ذخیرہ شدہ معلومات، حال کے تجربات، مستقبل کی پیشین گوئیاں اور امکانات کو پراسیس کر ڈالتا ہے اور پھر تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے ملی سیکنڈ یعنی ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں ان ڈھیر سارے آپشنز میں ایک انتہائی موزوں ترین آپشن اٹھا لیتا ہے۔

وہ آپشن وہی ہوتا ہے جسے ہم عام لفظوں اپنا فیصلہ کہتے ہیں۔

دنیا کی ہر کمپنی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ہمارے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی آواز، اپنے گرافکس/وڈیو، کاروباری پیغامات اور ہم سب کو چ بنانے اور سبز باغ دکھانے والا گمراہ کن پروپیگنڈا ہماری آنکھوں، کانوں، لمس اور قوت شامہ (سونگھنے کی حس) کے ذریعے اپنا اشتہاری مواد ہمارے دماغ کے ہپو کیمپس تک ٹھونس دے۔ اس کے لئے آپ کا توجہ سے سننا یا دیکھنا بھی ان کے کوئی معنی نہیں رکھتا۔

کیوں کہ جب ایک تواتر سے مسلسل ایک ہی پیغام کی بمبارڈمنٹ ہمارے حواس خمسہ پر کی جائے گی تو اس پیغام کا پورا نہ سہی کچھ نہ کچھ حصہ ضرور دماغ میں سٹور ہو جائے گا۔

اور دماغ کا پریفرنٹل کارٹیکس اور دیگر حصے فیصلہ سازی کے عمل میں تمام عوامل کی پراسسنگ کرتے ہوئے زیادہ اہمیت مانوس یادداشتوں یا ایسی میموری کو دیتے ہیں جو ہم نے کہیں سنی، دیکھی، چھوئی یا سونگھی ہو۔

لہذا ہم ایک سپر سٹور کی آئل (راہدری) میں جب جوسز والی قطار میں پہنچتے ہیں تو اٹھارہ بیس روپے کے ڈھائی سو ملی لیٹر کے شیزان جوس کی بجائے ساٹھ ستر روپے کا نیسلے جوس اٹھا لیتے ہیں۔ حالانکہ شیزان کی مقدار، ذائقہ، کوالٹی اور ریٹ سب کچھ نیسلے سے بہتر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments