پرائیویٹ اساتذہ کی مشکلات


مکرمی! پرائیویٹ تعلیمی ادارے ملکی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان میں اساتذہ کی ایک کثیر تعداد نجی تعلیمی اداروں میں قوم کے نونہالوں کو زیور علم سے آراستہ کر رہے ہیں اور ایک استاد کو ضروریات زندگی اور دیگر لوازمات کو پورا کرنے کے لیے معقول تنخواہ درکار ہوتی ہے تاکہ وہ کسی معاشی دباؤ کے بغیر نسل نو کی صحیح معنوں میں آبیاری کر سکے، مگر وطن عزیز کی نجی تعلیمی اداروں میں قلیل اور تضحیک آمیز تنخواہ ان کی بنیادی ضروریات بھی پورا کرنے سے قاصر رہتی ہے اور سالانہ نہایت کم شرح سے تنخواہوں کے بڑھنے کا معیار بھی بڑا مضحکہ خیز ہے۔ انہیں وہ مراعات بھی میسر نہیں ’جو حکومتی ملازمین کو حاصل ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی باضابطہ پلیٹ فارم ہے‘ جہاں ان کے مسائل کے حل اور حقوق کی آواز کو حکام بالا تک پہنچایا جا سکے۔

پرائیویٹ اساتذہ کو تنخواہیں فیسوں کی ادائیگی کے بعد ہی ملتی ہیں اور ان کے پاس فیسوں کے علاوہ کوئی اور راہ حل نہیں۔ جبکہ بعض والدین چھٹیوں کی فیسیں تک دینے سے پہلوتہی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پر فیسوں کی وصولی کے خلاف مختلف تحریکیں چلانے اور اساتذہ کی ہرزہ سرائی کرنے والے افراد کے بے تکے اور عقل سے ماورا بیانات دیکھ کر کلیجہ ہلتا ہے۔

پرائیویٹ اداروں کو مافیاز کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے۔ ان کا نعرہ ہے کہ جب چھٹیوں میں پڑھایا ہی نہیں تو فیسیں کس بات کی؟ حالانکہ تعلیمی ادارے چھٹیوں کو ٹریننگ، ورک شاپس اور ماہانہ و سالانہ منصوبہ بندی کی صورت میں استعمال میں لاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اساتذہ گھروں پر اسائنمنٹس چیک کرتے ہیں اور کلاسوں کی تیاری کرتے ہیں۔ اسی طرح سال بھر والدین کو مطمئن کرنے کے ساتھ پبلک ڈیلنگ بھی ہوتی رہتی ہے۔ ان تمام چیزوں کو مدنظر کیوں نہیں رکھا جاتا؟

حالیہ عالمی وبا نے وطن عزیز میں جو قہر برپا کیا ہے اس سے ملکی معیشت مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ باوجود اس کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور دیگر مراعات میں اضافہ ہوتا رہا ہے تو سوچئے ایسی نازک صورت پرائیویٹ اداروں کی کیا حالت ہو گی اور جن کاندھوں پر قوم کے نونہالوں کا مستقبل سوار ہے ’آزمائش کی اس مشکل گھڑی میں ان پر کیا بیتی ہو گی؟ حکومت نے دیہاڑی دار طبقے کی مشکلات کو بھانپ لیا اور قلاش افراد کی احساس پروگرام کے ذریعے اچھی خاصی مدد بھی کی ہے جبکہ اس لاک ڈاؤن کے سبب پرائیویٹ تعلیمی ادارے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ اساتذہ کے لیے معاشی مشکلات پیدا ہو گئیں ہیں اور گھر کے افراد فاقہ کشی کا شکار ہیں۔

اگر اس سیکٹر کی جانب خصوصی توجہ نہیں دی گئی تو مستقبل قریب میں ان اداروں کی بقا مشکل میں پڑ جائے گی اور اکثر اساتذہ کا فکر معاش کی تلاش میں اس پیغمبرانہ پیشے کو خیرباد کہنے کا قوی امکان پایا جاتا ہے۔ جس کا بوجھ براہ راست حکومت کے کاندھوں پر آئے گا۔ کیونکہ اس وقت حکومت پاکستان کا نصف بوجھ نجی تعلیمی اداروں نے اٹھا رکھا ہے اور اساتذہ کی ایک کثیر تعداد کا روزگار اس سیکٹر سے وابستہ ہے۔ لہٰذا ریاست مدینہ کے فرماں رواؤں سے دست بستہ گزارش ہے کہ آپ ان پرائیویٹ سیکٹرز کے مسائل کو درک کر کے ان کو حل کرنے کی کوشش کریں اور ان کے لیے خصوصی گرانٹ کا اعلان کریں تاکہ قوم کے ان عظیم محسنوں کا معاشی پہیہ چلتا رہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments