بہ حیثیت متعلم فلسفہ چند مشاہدات و تجربات



اگرچہ راقم السطور کو مضمون نگاری کے فن میں کسی درجے کی مہارت نہیں، تاہم حال دل کو قارئین تک یکسوئی اور ربط سے پہنچانے کی ایک کوشش ضرور کر سکتا ہوں، کیونکہ ان لکھے الفاظ اور ان کہے جذبات و احساسات اندرون وجود ہلچل مچائے رکھتے ہیں۔

یونیورسٹی آف دی پنجاب، لاہور (رہائش گاہ اور درس گاہ) میں رہتے اور پڑھتے ہوئے پورے چھ سال بیت چکے ہیں۔ اس دورانیے میں کئی ایک مشاہدات کو یاداشت میں محفوظ رکھ پایا اور کئی غیر ضروری نوعیت کے تجربات ذہن پہ غور دینے سے یاداشت میں بحال ہوتے ہیں۔ ان ہی ان گنت مشاہدات و تجربات میں سے چند ایک کو تحریر کرنا وقت کی ضرورت سمجھتا ہوں۔ آپ اسے آپ بیتی کہیں یا جگ بیتی، آپ پہ منحصر ہے۔ مدعا بیان کرنے سے پہلے مختصر تعلیمی پس منظر کا ایک خاکہ، بطور تمہید پیش کرتا چلوں ؛

فزکس کے مضمون میں ذاتی دلچسپی 2015 میں مجھے پنجاب یونیورسٹی میں کھینچ لائی۔ ابھی داخلہ فارم پر کرنے ہی لگا تھا کہ ساتھ بیٹھے امیدوار نے توجہ دلوائی کہ تم تو پری میڈیکل کے اسٹوڈنٹ ہو، فزکس میں اپلائی نہیں کر سکتے۔ مزید رہنمائی لی تو معلوم ہوا کہ زوالوجی، باٹنی اور کیمسٹری وغیرہ میں فارم جمع کروایا جائے۔ اس طرح میں زوالوجی کا طالب علم ٹھہرا۔ جوں توں کر کے ایک سمیسٹر گزارا تو دوسرا اور تیسرا بھی گزر گیا۔

تیسرے سمیسٹر تک مجھے مکمل احساس ہو چکا تھا کہ میں غلط جگہ پہ ہوں ( اس کے پیچھے حالات و واقعات کی داستاں کار فرما ہے، جو کہ مضمون کی طوالت کا باعث بنے گی) ۔ مجھے کلاس روم کے ماحول سے کوفت سی ہونے لگ گئی اور بار ہا کلاس روم سے نکالا بھی گیا۔ میں کلاس کا سب سے نکما، نالائق اور نافرمان طالب علم مشہور رہا۔ ہم جماعتوں سے ہم آہنگی نہ رہی، ان کو سر سبز صحن میں بیٹھنا اور برسات میں گھومنا پسند تھا جب کہ مجھے ان سوالات کا سامنا درپیش تھا؛

؎سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے

انہیں پھولوں کی مختلف اقسام پہ پریزینٹیشن دینے میں آسانی ہوتی اور مجھے سماجی، معاشی اور ثقافتی مسائل پہ بولنے کا شوق (اگرچہ یہ سب دس منٹس کی قید میں نمٹانے کا حکم صادر رہتا) ۔

تیسرے سمیسٹر کے آخری ایام میں خوش قسمتی سے میرا واسطہ فلسفے کی چند کتابوں سے پڑا۔ جن کو پڑھ کر ایسا لطف ملا کہ ؛

؎میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

قصہ مختصر، شعبہ زوالوجی سے راہ فرار پاتے ہوئے، شعبہ فلسفہ میں پڑاؤ ڈال دیا اور وہاں سے بہ حیثیت گولڈ میڈلسٹ بی۔ ایس کی ڈگری حاصل کی۔ اس تمہید سے مقصود یہ بتانا ہے کہ میرا واسطہ دو مختلف ڈیپارٹمنٹ سے رہا اور دونوں سے تجربات سمیٹے۔

ان مشاہدات و تجربات کا قصہ ذیل کی سطور میں درج کیا جائے گا۔

اگر اچھے یا قابل ذہن کی کسی ایک رائج الوقت تعریف کو سامنے رکھا جائے تو میں نے ہر اچھے اور قابل ذہن کو سائنس سے وابستہ ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لیتے ہوئے پایا۔ اول بات تو یہ کہ اگر کوئی کہے کہ اسے سائنسی درسگاہ میں اعلیٰ سطح کی تحقیق کا شوق اس شعبہ کے انتخاب کی جانب مائل کر گیا تو یہ مکمل نہ سہی، آدھا جھوٹ تو ضرور ہو گا۔ دوران گفتگو بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مستقبل کے بقا کا خوف انہیں سائنسز ( بائیو، ہیلتھ، نیچرل سائنسز) کے مضامین کے انتخاب پہ مجبور کرتا ہے۔

چونکہ میں نے سائنس کے شعبہ میں خود بھی وقت گزارا اور گاہے بگاہے وہاں کے واقف کاروں سے تبادلہ خیال بھی ہوتا رہا ہے، ان کے ساتھ ملکی سیاسی، سماجی۔ غرض یہ کہ زندگی کے کسی بھی شائستہ پہلو پہ چند منٹس کی بات تک دشوار ہے۔ ان اچھے، قابل اور بہترین اذہان کا جو حشر وہاں ہوتا ہے اس کے لئے مجھے لغت کا کوئی مناسب لفظ ڈھونڈنے میں مہلت درکار ہے۔ ان ڈیپارٹمنٹس میں داخل ہونے والے طالب علم کو نوٹس کے اوراق کو وقتی طور پہ دماغ میں چھاپنے اور پریکٹیکل نوٹ بکس لکھنے جیسے کار بے کار سے فرصت ہی کہاں کہ وہ اس ماحول کی خبر لے سکے جس میں کہ وہ جیے جا رہا ہے۔

یہاں کا سائنس کا طالب علم ادب کی کتاب سے حتی الامکان دور رہنا پسند کرتا ہے، کیونکہ اس سے اس کی باقی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں اور ایسی کتابوں کا مطالعہ اس کے نزدیک وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ کہیں مل بیٹھ کر کسی مسئلے پہ اظہار خیال کر رہے ہوں تو ان کے کلام کے بنیادی ذرائع میں گلی کوچوں کی سنی سنائی باتیں یا زیادہ سے زیادہ اے۔ آر۔ وائے نیوز چینل شامل ہیں۔ فلسفہ والوں کو یہ اغیار کی بستی کا باشندہ سمجھتے ہیں۔

ایک دن کینٹین پہ بیٹھے ہائر انرجی فزکس کا ایک طالب علم، اپنے ایک بھائی (ایم بی بی ایس) کے ہمراہ اس بات پہ بہ ضد رہا کہ ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق اس کی ڈگری مشکل ترین ڈگری میں اول، اس کے بھائی کی مشکل ترین ڈگری میں چوتھے نمبر پہ جبکہ فلسفہ سب سے آسان ترین مضامین کی فہرست میں شامل ہے۔ اس کی ساری گفتگو کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم کامیاب ہیں اور تم لوگ ناکام۔

سائنسز ہی کے ایک شعبہ سے وابستہ چند طلباء سنجیدگی کے ساتھ جنوبی وزیرستان کے مسئلے پہ طویل بحث کر کے تھک بیٹھے تو ان میں سے ایک گویا ہوا ؛ ’یار یہ وزیرستان ویسے ہے کہاں؟‘ ۔ ساتھ بیٹھے ایک ذہین نے طنزاً قہقہہ لگایا اور اسے اطلاع دی کہ یہ بلوچستان میں ہے، تجھے اتنا بھی معلوم نہیں؟

کچھ طلاب سائنس جو دور اندیش واقع ہوئے ہیں، وہ پلان بی کے تحت ملک میں پھیلی وبائے عام بسلسلہ تیاری سی۔ ایس۔ ایس کی زد میں لپٹے ہوئے پائے گئے۔ بوجہ مجبوری ایک روز ہاسٹل اسٹڈی روم گیا تو اس کے داخلی دروازے پہ نوٹس آویزاں تھا کہ ’میرے پاک افئیرز کے نوٹس کسی نے اٹھا لیے، مہربانی کر کے واپس رکھ دے، ورنہ کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے‘ ۔ ایک صاحب نے اسٹڈی روم میں اپنے لیے خاص حصہ مختص کر رکھا ہے، ماتھے کے عین سامنے جلی حروف میں لکھ دیا کہ؛

I WILL TOP IN CSS
INSHA ALLAH


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments