طارق فتح اور ان کا مطمح نظر


کچھ دن قبل مشہور مفکر جناب طارق فتح صاحب کا ایک انٹرویو سننے کا موقع ملا، جو انہوں نے محترمہ آرزو کاظمی صاحبہ کو دیا اور جس میں انہوں نے کئی حوالوں سے ہماری اغلاط اور کمزوریوں کی نشاندہی فرمائی۔ اسی نشست میں انہوں نے ہماری اس غلطی کی بھی نشاندہی فرمائی جس میں ہم طالبان اور امریکہ کا تقابل کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے نقطہ نظر کی رو سے گویا یہ وہ دو متحارب اور متضاد قوتیں ہیں، جو ازل سے باہم سرپیکار ہیں لہذا کسی بھی زاویے سے ان دو کا موازنہ درست نہیں ہے۔ ان کے خیال میں طالبان سراپا جہالت، گھٹا ٹوپ اندھیرا، رجعت پسندی کے نمائندہ اور تاریک خیال طبقہ ہے، جبکہ امریکہ اس کے عین برعکس ترقی کا نمائندہ، علمی ترقی کا علمبردار، انصاف پسند اور روشن خیال ملک ہے، لہذا ان دونوں کے مابین کسی بھی صورت میں نسبت قائم نہیں کی جا سکتی۔

اگر ہم اس بات کو ذرا ماضی کے حوالے سے سوچیں، اور ان واقعات پر غور کریں جو دنیا میں اتنی بڑی تبدیلی کا باعث بنے، جیسا کہ روس کا بطور سپر پاور خاتمہ، یک قطبی بلاک کی موجودگی، طالبان کا افغانستان میں اقتدار، گیارہ ستمبر کا واقعہ اور پھر دہشت گردی کی ایک نئی تعریف کے تحت ایک ملک کو بارود کے ڈھیر میں بدلنا وغیرہ وہ واقعات ہیں جو ایک دوسرے سے مربوط اور باہم متصل ہیں۔ تو کیا ہمیں یہ نظر نہیں آتا کہ طارق فتح صاحب کی یہ توجیہ انتہائی بودی، حقائق کے منافی اور عقل و شعور کے مخالف ہے۔

لیکن عقل ورطہ حیرت میں گم ہوجاتی ہے، جب اس قسم کے مفکرین کو ہم ان حقائق کو یکسر نظر انداز کر کے، اپنی طرف سے ایسی لایعنی توجیہات پیش کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اور پھر سوچتے ہیں کہ آج جب کہ مطلع صاف ہو چکا اور کئی ممالک علانیہ و غیر علانیہ اس سارے عمل کی وضاحت کرچکے، تو ایسے میں امریکہ کو بیک جنبش قلم سارے گناہوں سے مبرا کر کے، تمام تر گناہوں کا طوق طالبان کے گلے میں ڈال دینا کیسے درست اور جائز ہو سکتا ہے۔

ہم انسانوں کے اندر یہ ایک خاصہ ہے، کہ ہمیں جب کسی چیز سے محبت ہو جائے تو اس کی ہر ناگوار بات اور منفی عمل کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں، اور جس سے نفرت ہو اس کے جائز عمل کو بھی ناجائز ثابت کرنے کے واسطے سارا زور بیاں صرف کر دیتے ہیں۔ چنانچہ آج موصوف جن اوصاف کی وجہ سے امریکہ کے گن گاتے اور طالبان پہ تبرا بھیجتے نظر آتے ہیں، وہ کیا اس بات سے بے خبر ہیں کہ طالبان کو کس نے بنایا، کس نے اقتصادی کمک فراہم کی، کس کے اشاروں پر افرادی قوت مہیا ہوتی رہی، کون ان کی منظم انداز میں تربیت کرتا رہا، کون ان کو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا علمبردار نمائندہ بنا کر دنیا کو دھوکہ دیتا رہا؟

کیا طارق فتح صاحب جیسا باشعور آدمی اس حقیقت سے بے خبر ہے، جس کو آج کا ہر باشعور، عقل مند اور ذی ہوش انسان جا چکا ہے؟ تو کیا ان جیسے تمام عناصر کی موجودگی میں ہم پھر بھی ایک فریق کے سارے اعمال و افکار کو نظر انداز کر کے، محض ان کو مورد الزام ٹھہرائیں جن کا وجود اول الذکر کے فکر نظر سے مستعار یا ان کی مہربانی کا نتیجہ ہے۔

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ایک عمدہ انسان وہی تصور کیا جاتا ہے، جس کی سوچ، عمل، معاملات اور کردار میں معتدل مزاجی کی جھلک نظر آتی ہو اور جو کسی بھی منطقی نتیجے تک پہنچنے سے قبل اس کے تمام پہلوؤں کا عمیق نظری سے جائزہ لے کر پھر اس سے نتائج اخذ کرے۔ مگر جہاں اعتدال پسندی پر حب جاہ اور من پسند مفاد غالب ہو جائے وہاں غیر جانبدارانہ سوچ مغلوب اور جذباتی رجحانات غلبہ پا لیتے ہیں اور پھر انسان اپنی آنکھوں سے دیکھے، اور کانوں سے سنے ہوئے واقعات تک کو جھٹلا کر، انہی نتائج کو اخذ کرتا ہے جو اس کے جذبات کی تسکین اور اس کے زاویہ فکر سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔

لہذا یہ بات اور منطق سمجھ سے بالاتر ہے، کہ جب ایک تحریک کی اٹھان اور اس کی تراش خراش جن ہاتھوں سے ہوئی ہو، ان کو ہم بری الذمہ کر دیں، لیکن اس کے لگائے ہوئے پودے کے پھل کو ہم کوسنے دینے شروع کر دیں اور وہ بھی اس انداز میں کہ جہاں ایک طرف ہم سراپا خیر سے ایک قوت کو تعبیر کر رہے ہوں تو دوسری کو سراپا شر سے۔ گویا اس پہ وہ حافظ کا مصرعہ چسپاں ہوتا ہے کہ بسوخت دیدہ حیرت کہ این چہ بوالعجبیست۔

ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ہم انسان دنیا کے جس حصے میں بھی موجود ہیں، ہمارا مشترکہ فرض مظلوم کی حمایت اور ظالم کے خلاف آواز اٹھانا ہے، مگر ہمیں اس بات کا تعین بھی تو کرنا چاہیے کہ اصل ظالم کون ہے اور حقیقی مظلوم کون ہے۔ لیکن اگر ہم کل وقتی رجحانات کے تحت، محض ایک خاص نکتہ نظر کے ساتھ کسی معاملے، کسی تحریک یا کسی بیان کو دیکھیں گے، اور اس سے منسلک دوسرے تمام ارکان کو نظر انداز کر دیں گے، تو ہم صریح ٹھوکر کھائیں گے، جس کا اندازہ ہمیں اس وقت ہوتا ہے جب تمام گرد بیٹھ چکی ہوتی ہے اور ہم اپنا بہت کچھ گنوا چکے ہوتے ہیں۔

چنانچہ اس ساری تحریک کو جس کی بنیاد اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے نام پر رکھی گئی اور ہم اس کے اندر برضا و رغبت شامل بھی ہوئے مگر ہم نے یہ نہیں سوچا کہ اس کی اٹھان اور اس کی رکاب کس کے ہاتھ میں ہے۔ ہماری ذہن سازی ایک ایسے فریق کے خلاف اس انداز مین کی گئی جس میں ہمیں بتایا گیا کہ وہ فریق خدا کے وجود کا منکر اور گرم پانیوں تک رسائی کی خواہاں ہے، اور جس کا اقتصادی نظام ایک غیر فطری اور غیر شرعی ہے جس میں شخصی ملکیت کا تصور بھی گناہ ہے۔ لہذا اس کے خلاف ہمارا جہاد واجب اور اس کو نیست و نابود کرنا ہمارا سب سے بڑا شرعی فریضہ ہے۔ اور اس وقت وہ شوریدہ فکر لوگ جو ہمارے آگے ہاتھ باندھ کر ہمیں دو ہاتھیوں کی لڑائی میں کودنے سے منع کرتے تھے، ہم نے ان کا اس قدر استحصال کیا کہ ان کی آواز نقار خانے میں بند ہو گئی۔

مگر آج ہم اپنے منہ سے جب اس بات کا سر عام اقرار کرتے نظر آتے ہیں کہ ہم نے امریکہ کے لئے ڈالرز کے عوض جنگ لڑی تو ذرا بتائیے اب اس چیز کی ہم کیا توجیہ پیش کریں۔ اور کس منہ سے اپنے آپ کو اسلام کا داعی کہیں کہ جب ہم نے پرائی آگ میں اپنے ہی بچے جھونک کر اس کو اور بڑھکاوا دیا۔ لہذا ہمیں کسی کی محبت میں اتنا اندھا نہیں ہونا ہوجانا چاہیے کہ ہم اس کے ہر غلط عمل کو نظر انداز کر کے، اس کی ظاہری خوبیاں گنوانے بیٹھ جائیں اور ساری غلطیاں کسی دوسرے کے پلڑے میں ڈال کر اپنے ضمیر کو مطمئن کر لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments