ون ویلنگ جان لیوا ہے


سرفراز کی عمر 25 سال ہے۔ یہ گلگت سٹی میں رہتا ہے۔ یہ خود کو بائیک رائیڈنگ ماسٹر سمجھتا ہے۔ ایک ٹائر پر بائیک چلانا، ویلنگ کرنا، ٹائر کے شوز پہن کر بیچ ٹریفک دوڑنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ یہ روزانہ اپنی ٹیم کے ساتھ شہر کی مختلف سڑکوں اور گلیوں پر خوف ناک کرتب دکھاتا رہتا ہے۔ مہینہ پہلے کی بات ہے۔ میں سڑک کے کنارے کھڑا تھا۔ یہ اچانک تیزی کے ساتھ آیا، موٹر سائیکل اس کے قابو سے نکل گئی اور سیدھا گندی نالی میں جا گرا۔ اس کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ اسے ہسپتال پہنچایا گیا۔ شاید اس کی کوئی نیکی اللہ کو پسند آ گئی ہو یا ماں باپ کے دعاؤں کی وجہ سے جان تو بچ گئی مگر اب دوسرے ویلرز کے لیے عبرت کا نشان بنا ہوا ہے۔ ورنہ بائیک اسے موت تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔

تیز رفتاری اور ون ویلنگ کے ذریعے اپنی زندگی کو ناسور بنانے کی حماقت نہ صرف گلگت بلتستان یا پاکستان بلکہ دنیا میں آپ جہاں بھی نکل جائیں دیکھنے کو ملے گی۔ نوجوان طبقہ ایکشن فلموں میں دکھائے جانے والے خطرناک کرتب سے متاثر ہو کر ایسا ہی عملی زندگی میں بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ خونی کھیل ان کی زندگی کو عمر بھر کے لیے معذور بنا دیتی ہے۔ ویلنگ نہ صرف نوجوان طبقہ میں مقبول ہے بلکہ بزرگ افراد بھی مستیاں کرتے، لٹکتے، مٹکتے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے نظر آرہے ہیں۔ مثلاً ایک لڑکا اپنے ساتھ بائیک پر خاتون کو بٹھا کر لے آتا ہے۔ نہ جانے اس کے دل میں کیا سوجھی ’بیچ سڑک پچھلے ٹائر پر موٹر سائیکل کو کھڑی کرتا ہے۔ اس کے بعد سوار خاتون کی جو حالت تھی وہ ناقابل بیان ہے۔

اسی طرح ایک شخص نے نئی موٹر سائیکل خریدی۔ بچوں نے سیر کرنے کی ضد کر لی۔ یہ انہیں منع بھی نہیں کر سکتا تھا اور اپنے چار بچوں کو بٹھا کر سیر سپاٹے کے لیے نکل پڑا۔ قریبی گاؤں سے نکل کر جونہی کے کے ایچ پر بائیک دوڑانا شروع کیا، ایک تیز رفتار کار کے ساتھ ٹکرا کر آدھے گھنٹے میں عمر بھر کے لیے اپاہج بن گئے۔ ہفتہ پہلے کی بات ہے۔ ایک نوجوان صبح سویرے کام پر نکلا تھا اتنے میں ایک اور ہمسایہ اپنی بائیک لے کر آتا ہے دونوں کو شوخی لگی اور کراسنگ کے دوران موٹر سائیکلز کا ٹکراؤ ہوا۔ نوجوان بری طرح زخمی ہو گیا۔ دو دن ہسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑتے لڑتے جان کی بازی ہار گیا۔ یہ گھر کا اکیلا کفالت کرتا تھا۔ اس کے جانے کے بعد اہل خانہ جس کرب سے گزریں گے، وہ آپ بہتر جانتے ہیں۔

تیز رفتاری کے اس جنون نے کئی گھر اجاڑ دیے ہیں۔ آخر یہ لوگ چند لمحوں کی خوشی کے لیے اپنے ساتھ اپنے پیاروں کی زندگیوں کو خطرے میں کیوں ڈالتے ہیں؟ شاید یہ زندگی سے بیزار ہیں ورنہ ایسی حماقت کون کر سکتا ہے؟ اس میں زیادہ قصور ان کے والدین کا ہے جو اپنے کمسن بچوں کو موت کی سواری پر سوار ہونے دیتے ہیں۔ موٹر سائیکل خرید کر دینے سے پہلے ٹریفک قوانین کی پاسداری نہیں سکھاتے ہیں بلکہ اپنے کمسن بچوں کی ڈرائیونگ کرنے اور قانون کی خلاف ورزی پر اتراتے رہتے ہیں۔

اسی لیے یہ موٹر سائیکل کم چلاتے ہیں اور اپنے فن کا مظاہرہ زیادہ کرتے ہیں۔ لہٰذا شدت کے ساتھ بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات کے پیش نظر ون ویلنگ کے ذریعے خوف ناک کرتب دکھا کر شہریوں کو پریشان کرنے اور سر عام قانون کی دھجیاں اڑانے والوں کے خلاف ٹریفک پولیس سخت پابندی عائد کرے، خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے سزا اور جرمانے عائد کیے جائیں۔ تاکہ قیمتی انسانی جانوں کو بچایا جا سکے۔ کیونکہ بائیک ایکسیڈنٹ کے بعد ہر کوئی سرفراز کی طرح زندہ بچ نہیں سکتا۔ یہ اکثر افراد کو اوپر ہی پہنچا دیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments