وجاہت مسعود کے نام!


مورخہ نو اکتوبر کے کالم کے آخر میں استاد محترم جناب وجاہت مسعود صاحب نے اپنے قارئین سے سے استفسار کیا ہے کہ وہ انہیں انگریزی زبان کی ایک مشہور مثل ”بادشاہ مر گیا، بادشاہ زندہ باد“ کے حوالے سے ذہن میں آنے والی الجھن دور کر دیں۔ ہمارے خیال میں تو استاد محترم اس مثال کو بہت اچھی طرح سے سمجھتے ہیں اور صرف کسر نفسی سے کام لیتے ہوئے انجان بن کر ہم جیسے نالائق شاگردوں کا امتحان لینا چاہ رہے ہیں۔ اس لیے ایک تو استاد محترم سے دست بستہ عرض ہے کہ اتنی کسر نفسی سے کام نہ لیا کریں۔

دوسرا، ہماری پوری کوشش ہوگی کہ جہاں تک ہو سکے، ہم ان کی جانب سے دی گئی اس مشق کا جواب دیتے ہوئے انہیں اس معمے کا حل بتا دیں۔ اب جہاں تک ہماری ناقص عقل اس مثال کو سمجھ پائی ہے اور ”گوگل بابا“ نے اس مثال کے حوالے سے جو ترکیب بتائی ہے۔ وہ کچھ یوں ہے۔

یہ مثال دراصل اقتدار کی بے رحمی اور سفاکی کو اجاگر کرتی ہے۔ عام طور پر کسی کا کوئی بہت ہی قریبی فرد انتقال کر جائے تو انہیں نہ کھانے کا ہوش رہتا ہے نہ پینے کا۔ وہ اپنے پیارے کی آخری رسومات ادا کرنے کے بعد بھی کئی دنوں تک ہر وقت اسی کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ انہیں نہ کاروبار کی فکر رہتی ہے نہ گھر کی دیکھ بھال کی۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے مواقعوں پر رشتہ دار اور پڑوسی انہیں کھانا پینا بھجوا کر اور باقاعدہ اصرار کر کے اس جانب توجہ دلاتے ہیں۔

لیکن امور مملکت میں ایسا نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی کسی بادشاہ یا وزیر اعظم یا صدر کا انتقال ہوتا ہے تو کوئی نہ کوئی فوراً اس کی جگہ لینے کے لیے پہلے سے تیار ہوتا ہے۔ اور بعض حالات میں تو کئی افراد جانشینی کے لیے تیار ہوتے ہیں اور ان میں باقاعدہ طور پر اس حوالے جھگڑا بھی ہو جاتا ہے۔ یعنی بجائے اس کے کہ وہ مرنے والے کی یاد میں روئیں، اداس ہوں، اور ان کی توجہ کسی دوسرے کام کی طرف نہ جائے، وہ مرنے والے کو بھول بھلا کر اس کی میراث کسے ملے گی، پر لڑنے جھگڑنے لگتے ہیں۔

اس حوالے سے برصغیر کی تاریخ تو خاص طور پر افسوس ناک ہے کہ جہاں مغل بادشاہ کے انتقال کی صورت میں شہزادوں میں جانشینی کے لیے جھگڑا شروع ہوجاتا تھا اور بادشاہ بننے میں کامیاب ہونے والا بھائی اقتدار ملتے ہی سب سے پہلا کام یہ کرتا کہ اپنے دیگر تمام بھائیوں اور تخت و تاج کے ممکنہ وارثوں کو قتل کرا دیتا تھا۔ اب ذرا یہاں ایک لمحے کو رک کر سوچیے کہ اقتدار ایسی بے رحم چیز ہے کہ وہ سگے بھائی جو ایک ہی ماں کی گود میں پرورش پاتے تھے، بچپن میں ایک دوسرے کے ساتھ کھیلا کرتے تھے، ایک دوسرے کو عید اور دیگر تہواروں پر گلے لگایا کرتے تھے، وہ محض اقتدار کی ہوس میں اتنے اندھے ہو جاتے تھے کہ انہی بھائیوں کے گلے کاٹتے ہوئے انہیں کوئی ندامت اور پشیمانی نہیں ہوتی تھی۔

اور اس نہایت قبیح فعل کو انجام دینے کے بعد بھی وہ خود کو دین دار اور خدا کے سچے ماننے والے قرار دیتے تھے۔ حالانکہ یہ سب اقتدار پانے کی دوڑ اور خود غرضی نہیں تو اور کیا تھی۔ آج کے دور میں لوگ ذرا اتنے مہذب ہو گئے ہیں کہ براہ راست گلا تو نہیں کاٹتے یا کم از کم اسے سب کے سامنے تسلیم تو نہیں کرتے لیکن پیٹھ پیچھے حق دار کو اقتدار سے محروم کرنے کے لیے کسی بھی حربے کو اپنانے سے گریز نہیں کرتے۔ یہی اقتدار کی خود غرضی ہے۔

اور اس محاورے کہ ”بادشاہ مر گیا، بادشاہ زندہ باد“ میں اسی تلخی کو نہایت سادگی اور پرکاری سے بیان کر دیا گیا ہے۔ آپ ایک طرح سے کہہ سکتے ہیں کہ جب ایسا جملہ ادا کیا جاتا ہے تو یہ ایک اور محاورے سے ملتا جلتا ہوتا ہے کہ ”گندا ہے پر دھندا ہے۔“ بادشاہ مر گیا پرانے بادشاہ اور اس کے جانے کے غم کی طرف اشارہ کرتا ہے جبکہ ”بادشاہ زندہ باد“ نئے بادشاہ اور اس کے آنے کی خوشی کا اظہار کرتا ہے۔

ضرب المثل اور محاورے اسی لیے وجود میں آتے ہیں کہ ان میں ایک نہایت پیچیدہ اور لمبی کہانی کو نہایت سادہ سے چند الفاظ میں اس طرح سمو دیا جاتا ہے کہ جب اس کی وضاحت کرنے بیٹھیں تو دفتر کے دفتر کالے کرنا پڑ جاتے ہیں۔ اب یہی دیکھ لیں کہ پانچ الفاظ کی اس ضرب المثل کی وضاحت کرنے میں کتنے الفاظ اور سطریں خرچ ہو گئے ہیں۔

یہ محاورہ اصل میں فرانسیسی زبان سے انگریزی اور دیگر زبانوں میں آیا ہے۔ اس جملے کی بنیاد وہ قانون بنا کہ جس میں ایک بادشاہ کے مرتے ہی اقتدار دوسرے بادشاہ کو منتقل ہونے کا فلسفہ بیان کیا گیا تھا۔ اس کے فرانسیسی زبان میں الفاظ یہ تھے۔ ”لی مورٹ سیئسٹ لی وف ( le mort saisit le vif )“ ۔ اس دور میں انگلستان کی اشرافیہ کی زبان فرانسیسی ہوتی تھی چنانچہ اس قانون کو فوراً ہی انگلستان میں بھی اپنا لیا گیا۔ سنہ 1272 عیسوی میں جب انگلستان کے بادشاہ ہنری سوم کی وفات ہوئی تو تخت کا وارث شہزادہ ایڈورڈ اول صلیبی جنگ پر گیا ہوا تھا۔ اس خدشے کہ بادشاہ بننے کے حوالے سے کوئی خانہ جنگی شروع نہ ہو جائے، شاہی کونسل نے اعلان کر دیا کہ ”تخت کبھی بھی خالی نہیں رہتا اور مملکت کبھی بھی بادشاہ کے بغیر نہیں رہے گی۔“ چنانچہ ایڈورڈ کی غیر موجودگی میں ہی اسے بادشاہ قرار دے دیا گیا۔

بادشاہ مر گیا، بادشاہ زندہ باد ”کو فرانسیسی زبان میں یوں بیان کیا جاتا ہے“ لی روئی ایسٹ مورٹ، وی وی لی روئی ”

Leroi est mort, vive le roi

یہ جملہ پہلی دفعہ فرانس کے شاہ چارلس ششم کی وفات کے بعد شاہ چارلس ہفتم کے تخت نشین ہونے کے موقع پر سنہ چودہ سو بائیس ( 1422 ) عیسوی میں استعمال کیا گیا تھا۔ یہ اعلان بادشاہ چارلس ششم کے تابوت کو ”سینٹ ڈینس باسیلا“ کے تہہ خانے میں اتارتے ہی کر دیا گیا تھا۔

ڈنمارک میں بادشاہ کے مرنے پر وزیراعظم نئے بادشاہ کی آمد کا اعلان کچھ ایسے ہی الفاظ میں اور اس کے لیے اس سے ملتا جلتا جملہ ڈینش زبان کا جملہ استعمال کیا جاتا۔ کہ ”کوگن لیو، کوگن ار ڈوڈ ( Kongen leve،

kongen er død (hail the king, the king is dead) ) ”

یعنی بادشاہ زندہ باد، بادشاہ مر گیا۔ یہ اعلان ڈینش پارلیمان ”کرسچیئن بورگ پیلس“ کی عمارت کے جھروکے (بالکنی) سے کیا جاتا۔ جو کہ ایک بادشاہ سے اقتدار دوسرے بادشاہ کو منتقل ہو جانے کا باقاعدہ حکم بھی ہوتا ہے۔ یہ اس وجہ سے کیا جاتا کہ فریڈرک سوم نے سن 1660 میں نئے بادشاہ کی تاج پوشی کی رسم کو منسوخ کر کے بادشاہت کو مکمل طور پر خاندانی وراثت قرار دیا تھا۔ تخت شہزادوں کا پیدائشی حق قرار پایا جبکہ اس سے پہلے بادشاہ کی وفات پر چرچ اور ملک کے رؤساء آپس میں مشورہ کر کے نئے بادشاہ کا انتخاب کیا کرتے تھے۔ ساتھ ہی بادشاہ ملک کا حاکم اعلٰی اور اپنے طرز حاکمیت کے بارے میں صرف خدا کو جوابدہ قرار دیا گیا تھا۔ سنہ 1849 میں ڈنمارک کو آئینی بادشاہت قرار دینے کے بعد شاہ کے اختیارات تو بڑی حد تک کم کر دیے گئے لیکن اس کا تخت و تاج پر حق اور اختیار پہلے جیسا ہی ہے۔

بعض ممالک میں اختیار اس وقت منتقل ہوتا ہے جب نئے بادشاہ کی تاج پوشی کی رسم ادا کی جاتی ہے لیکن برطانیہ میں بادشاہ کے مرنے کے بعد اقتدار فوری طور پر ولی عہد کو منتقل ہو جاتا ہے۔ اور یہ مشہور جملہ اقتدار اعلٰی کی منتقلی کا اشارہ دیتا ہے۔ برطانیہ اور دیگر ایسے ممالک جہاں کا قانون کسی خاتون کو ملکہ بننے کی اجازت دیتا ہے، وہاں بادشاہ کے مرنے کی صورت میں جملے کو تھوڑا سا بدل کر استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً سنہ 1952 میں شاہ جارج ششم کی وفات پران کی بیٹی ایلزبتھ دوئم کے اقتدار سنبھالنے پر برطانوی حکومت کی جانب سے کچھ یوں اعلان کیا گیا۔ ”بادشاہ مر گیا، ملکہ زندہ باد۔“ سنہ 1901 میں ملکہ وکٹوریا کے انتقال پر ان کے بیٹے ایڈورڈ ہفتم کے اقتدار سنبھالنے پر یوں اعلان کیا گیا ”ملکہ مر گئیں، بادشاہ زندہ باد۔“

دلچسپ بات تو یہ ہے کہ پچھلے ایک سو بیس سالوں میں بادشاہ مر گیا، بادشاہ زندہ باد کا روایتی جملہ بغیر کسی تبدیلی کے جنوری سنہ انیس سو چھتیس میں اس وقت استعمال کیا گیا جب شاہ جارج پنجم کے انتقال کے بعد شاہ ایڈورڈ ہشتم نے اقتدار سنبھالا۔ لیکن جب انہوں نے اپنی امریکی محبوبہ سے شادی کرنے کے لیے تخت و تاج چھوڑ دیا تو یہ جملہ استعمال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ تخت و تاج سے محروم ہونے والا بھی زندہ تھا۔

”ملکہ مر گئیں، ملکہ زندہ باد“ کے ترمیمی جملے کو استعمال کرنے کا پہلا موقع تب ملا جب سنہ 1558 میں ملکہ میری اول کے انتقال پر ان کی سوتیلی بہن ملکہ ایلزبتھ اول نے اقتدار سنبھالا۔ اب موجودہ ملکہ کے انتقال پر بھی یہ جملہ تبدیل ہو کر اس طرح اسے استعمال ہو گا۔ ”ملکہ مر گئیں، بادشاہ زندہ باد“ ۔ اگر چارلس بادشاہ بنے تو شاید روایتی جملے کے استعمال کی نوبت جلد آ جائے کیونکہ چارلس بھی اس وقت چوہتر سال کے ہو چکے ہیں لیکن اگر وہ پہلے انتقال کر گئے تو شہزادہ ویلیم نسبتاً جوان عمر میں بادشاہ بنیں گے اور اگر وہ طویل عرصے تک بادشاہ رہے تو ان کے بیٹے کو اقتدار منتقل کیے جانے پر روایتی جملہ استعمال ہو سکے گا جو ہو سکتا ہے کہ کوئی سو ڈیڑھ سو سال کے عرصے کے بعد پہلی دفعہ استعمال ہو۔

دوسری طرف ”پولش۔ لتھووینن دولت مشترکہ“ میں اقتدار فوری طور پر نئے بادشاہ کو منتقل نہیں ہوتا تھا کیونکہ وہاں پر بادشاہ کا انتخاب کیا جاتا تھا چنانچہ ایک بادشاہ سے دوسرے بادشاہ کو اقتدار منتقل ہونے میں کافی عرصہ لگتا تھا۔ اس وقفے میں ”پرائیمیٹ“ یعنی بادشاہ کا نائب وقتی طور پر بادشاہ کی ذمہ داریاں اٹھا لیتا تھا۔ اس دور کو ”انٹریکس“ یعنی دو بادشاہوں کے درمیانی عرصے کا حکمران کہا جاتا تھا۔

تھائی لینڈ جو اب بھی آئینی طور پر بادشاہت ہے، میں سولہ اکتوبر سن 2016 کو بادشاہ ”بھومبی بول آدیولجے“ کے انتقال کی خبر دیتے ہوئے وزیر اعظم نے اعلان کیا۔ ”ہز مجسٹی بادشاہ بھومبی بول آدیو لجے راما نہم انتقال کر گئے ہیں۔ نئے بادشاہ زندہ باد۔

لیکن بادشاہوں یا اقتدار کے علاوہ بھی اس جملے کو یا تو اپنی اصل حالت میں یا پھر کچھ ترمیم کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلا لیگ آف نیشنز کے بانیوں میں سے ایک رابرٹ سیسل نے لیگ آف نیشنز کے آخری اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس محاورے میں کچھ ترمیم کرتے ہوئے یوں اپنا مقصد واضح کیا۔ ”لیگ آف نیشنز مر چکی، اقوام متحدہ زندہ باد“ ۔

اب تو اس جملے میں نئی اختراعات کا رواج پڑ گیا ہے۔ مثلاً ایرک نیواؤ نے اعلان کیا۔ ”جاوا سکرپٹ مر چکا، ایکما (ECMA) سکرپٹ زندہ باد۔“

ایک ہماری جانب سے بھی پیٹرول انجن پر بیٹری کو فوقیت دینے کے حوالے سے تحریفی جملہ سن لیجیے۔ ”رکازی ایندھن مر گیا، قابل تجدید ذرائع زندہ باد“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments