زندگی کا دائرہ اور ہمارا بیمار رویہ
ایشیائی ممالک بالخصوص جنوبی ایشیا میں ہر شخص کو پیدا ہوتے ہی ایک زندگی کا اسکرپٹ ہاتھ میں پکڑا دیا جاتا ہے جس میں زندگی کا پورا لائحہ عمل طے کیا جاتا ہے۔ 9 ماہ میں بولنا، ایک سال میں چلنا، تین سال میں اسکول جانا شروع کرنا ہے، پندرہ سال میں میٹرک، 17 سال میں کالج، 24 سال میں یونیورسٹی ختم اور نوکری شروع 26 سال میں نوکری شادی، اگر آپ خاتون ہیں تو سولہ سال سے شادی کا کاونٹ ڈاؤن شروع ہو جائے گا اور تیس سال تک دو بچے، پھر ان کو پالیں، پڑھائیں شادی کریں، ساٹھ سال میں ریٹائر اور ستر سال میں مر جائیں یہ سبق اتنا پڑھایا جاتا ہے کہ آپ اس کے اثر کے تحت جینا شروع کر دیتے ہیں اور ستر سال تک واقعی سمجھتے ہیں کہ بس زندگی ختم ہو گئی اور اب ایک ہی مقصد ہے وہ ہے مرنا۔ یہ اسکرپٹ صرف یہاں تک محدود نہیں ہم نے غمی میں خوشی میں بیماری میں کیسے پیش آنا ہے یہ سب اس میں طے ہوتا ہے اس لیے اپنی شادی میں خوش دکھنے والے بے حیا، غم میں پچھاڑے نہ کھانے والے بے حس اور اپنے کام سے کام رکھنے والے مغرور قرار دیے جاتے ہیں۔
ہم نے شادی کو نا خوش لوگوں کی فیکٹری بنایا ہوا ہے لڑتے جائیں اور کہتے جائیں بچوں کے لیے ساتھ رہ رہے ہیں ارے کیا بات ہے کیا سیکھا رہے ہیں کہ شادی نہیں سزا ہے جو اپنی جسمانی تسکین کے نتیجے میں ملتی ہے بچہ تو اس بات کو ذہن نشین کرے گا کہ اس رشتے کی اساس یہی ہے کہ آپ رات کو جسمانی تسکین حاصل کریں اور صبح میں ایک دوسرے کو، ایک دوسرے کے خاندانوں کو، ایک دوسرے کی روح تک کو پامال کریں یہ کون سی شادی ہے اس تو بہتر ہے کہ اپنے آپ کو سدھاریں نہیں تو خوش اسلوبی سے الگ ہو جائیں کم ازکم نئی نسل کو یہی سکھا دیں کہ مسائل دو لوگوں کے درمیان خوش اسلوبی سے بھی حل ہو سکتے ہیں۔
صرف شادی نہیں بیماری اور موت میں بھی ہم ایک دوسرے کو نہیں بخشتے۔ بیمار کی تیمار داری کرنے جائیں گے تو اس کو کوئی حوصلہ دینے کی بجائے جب تک اسی بیماری میں مبتلا چار سو اور لوگوں کی بیماری اور سسک سسک کے مرنے کا احوال نہ سنا لیں ہمیں سکون نہیں آتا۔ بجائے بیمار کے گھر والوں کا ساتھ دینے کے فکر اپنے پروٹوکول کی ہوتی ہے۔ چاہے بیمار کے گھر والے کتنے ہی پریشان کیوں نہ ہوں ان کو ملنے والوں کے ساتھ ایسے پیش آنا چاہیے کہ ان کو زندگی میں کوئی پریشانی نہیں ہے اور اگر ان کی پریشانی منظر پر آ جائیں تو ہم صبر کی تلقین کر کر کے ان کو مار دیتے ہیں لیکن یہی صبر جب خود ان کو کرنا پڑتا ہے تو یک دم یہ غائب ہو جاتا ہے۔
ہم دوسرے کے دکھ کی طرف اتنے بے حس ہوتے ہیں کہ ہم ان کے غم، ان کی تکلیف کی طرف سے اندھے ہو جاتے ہیں۔ جب آپ کا کوئی اپنا آپ سے جدا ہو جاتا ہے تو اس وقت آپ ایسی حالت میں ہوتے ہیں کہ آپ کسی جگہ پر کھڑے ہوتے ہیں اور آپ پر سے طوفان گزر جائے اور آپ خدا جانے کس طرح بچ جاتے ہیں لیکن سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب ہو جاتی ہے۔
اس وقت آپ کیا کر رہے ہوتے ہیں وہ آپ کے بس میں نہیں ہوتا۔ ضروری نہیں ہے کہ جو پچھاڑے کھا کر گر رہا ہو اور اونچا اونچا رو رہا ہو وہی غمزدہ ہو غم کا اپنا راستہ ہے ہنستا ہوا چہرہ روتا ہوا چہرہ سب کو نظر آ تا ہے لیکن روح کے زخم کسی کو نظر نہیں آتے دہشت گردی کی کارروائیوں میں جان گنوانے والے مظلوموں کو تو شہید کا رتبہ دے دیا جاتا ہے لیکن پیچھے رہ جانے والے کس کرب سے گزرتے ہیں ۔
ہمارے معاشرے اور ریاست نے کبھی نہیں سوچا 70 ہزار پاکستانیوں کے شہید ہو جانے کے بعد ہم ان کے لواحقین کے لیے Trauma rehabilitation centre بنانے کی جگہ ان کو بتاتے ہیں کہ وہ اپنی لاشوں سے ہمیں بلیک میل نہیں کر سکتے اور پاکستانی طالبان کے لیے عام معافی کا اعلان بھی کیا جا سکتا ہے اگر وہ ہمارے خلاف کارروائیوں کو بند کر دیں اس سلسلے میں APS میں ملوث احسان اللہ احسان کو ہم پہلے ہی چھوڑ چکے ہیں یہ سوچے بغیر کہ ان بچوں کے ماں باپ پر کیا گزری ہو گی جو آج بھی سراپا احتجاج ہیں۔
کیا یہ احتجاج ہمیں نیوزی لینڈ یا کینیڈا میں دہشتگرد حملوں کے بعد نظر آیا نہیں کیونکہ ریاست نے بلا چوں چرا اپنی غلطی تسلیم کی اور لواحقین کو انصاف کا یقین دلایا ان کے وزیراعظم کو لاشوں سے نہیں بلکہ دہشتگردوں سے بلیک میل ہونے کا خطرہ تھا یہ سب ہمارے معاشرے کی بیمار سوچ کے عکاس ہیں۔
ہم اپنی زندگی کے دائرے کو ایک آگ کا دائرہ بنا لیتے ہیں اس میں ہماری خوشی کا تعین ہم نہیں بلکہ ہمارے اردگرد کے لوگ کرتے ہیں ہم میں سے بیشتر لوگ اپنی زندگی ایسے رشتے، ایسی نوکریاں، ایسا کام کرتے گزرتے ہیں جو ہم نہیں چاہتے ذہین ہیں تو ڈاکٹر انجنیئر بنیں، اچھا بیٹا یا بیٹی ہیں تو والدین کی پسند کی شادی کریں، بیوی یا شوہر ہیں تو صرف زندگی کو رشتہ ازدواج تک محدود کر لیں یہاں تک کہ اتنا حبس زدہ کر دیں کہ رشتے سے زندگی نکل جائے۔
ماں باپ ہیں تو بس کولہو کے بیل کی طرح اولاد کے گرد چکر کاٹیں یہ سب کر کے آپ جیتے جی شہادت کا میڈل تو اپنے سینے پر سجا سکتے ہیں لیکن زندگی نہیں گزار سکتے بلکہ زندگی آپ کو گزارتی ہے کیونکہ ہم personal boundary کے قائل نہیں جب تک رشتوں میں ہم ہر چیز پامال نہ کر دیں رشتے میں گہرائی نہیں آتی ہمارے مطابق گالیاں ہمارا لاڈ، لڑائی پیار بڑھانے کا ذریعہ، مار کٹائی ہمارا لگاؤ قرار دیا گیا ہے۔
ہم اپنے لفظوں کے نشتر سے ایک دوسرے کو نڈھال کرتے ہیں، اور اگر کوئی اس سے پریشان ہو تو سونے پہ سہاگہ ہم اس کا یہ کہہ کہہ کے جینا حرام کر دیتے ہیں کہ ارے یہ تو بہت حساس ہے ہر چیز کو زیادہ محسوس کرتا /کرتی ہے۔ ہم نے تو کچھ نہیں کیا اس کا ہی دماغ خراب ہے پھر آپ جا کر دیوار میں ٹکر ماریں بولنے اور باتیں بنانے والوں نے آپ کی جان نہیں چھوڑنی بلکہ آپ کی زندگی ان کی زندگی ہے اور چاہے اپنے گھر میں کپڑے اتار کر ناچیں آپ کو اخلاقیات کا درس دینا ان کا فرض ہے۔
شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں کو اس وقت تک پتھر مارے جائیں گے جب تک وہ آپ کو واپس اٹھا کر اینٹ نہ ماریں۔ یہ انتہائی بیمارانہ سوچ ہے ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں ذہنی امراض تیزی سے بڑھ رہے ہیں پاکستان میں دیگر ممالک کی طرح 10 اکتوبر کو مینٹل ہیلتھ کی آگاہی کا دن منایا گیا لیکن عملاً ہم نے نفسیاتی مریضوں کی فیکٹری لگا رکھی ہے ۔
مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ آپ کسی پاکستانی سے نفسیاتی صحت کے بارے میں بات کریں تو وہ اصل وجوہات کی بجائے اس کو دین سے دوری اور صبر شکر کی کمی بتائے گا اور ساتھ ہی توجہ مغربی معاشرے کی حالت کی طرف دلائی جائے گی لیکن اصل صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 50 ملین لوگ دماغی امراض کا شکار ہیں اور اس میں ڈپریشن، generalized anxiety disorder، post trauma stress disorder سرفہرست ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو علاج کے لیے ڈاکٹروں کے پاس آئے اور جنہوں نے اس کو مختلف لبادوں کے انداز چھپایا ہوا ہے۔
ان کا کوئی شمار نہیں حالانکہ ہمارے معاشرے کی حکایتوں کے مطابق انسان کے کوئی جذبات نہیں ہونے چاہیں اور کسی بھی حادثے کی صورت میں بھی اس کو پتھر کی مانند بے حس ہو جانا چاہیے اس صورتحال سے نبٹنے کے لیے صرف 400 کوالیفائیڈ سائیکائٹرسٹ ہیں اور وہ بھی شہروں تک محدود ہیں 475 کلینکل سائیکولوجسٹ ہیں وہ بھی شہروں تک محدود ہیں جب کہ نفسیاتی امراض دیہاتوں میں بھی پھیلے ہوئے ہیں اور لوگ اپنی تکلیف بتانے تک کے قابل نہیں شہروں میں موجود سائیکائٹرسٹ حضرات کا زور پیسہ بنانے پر ہے اور ان کے پاس نہ ہی دردمند دل اور ہمدرد دماغ ہے وہ آنے والے کو اتنا لمبا نسخہ پکڑاتے ہیں کہ ویسے ہی دماغ ماؤف ہو جائے۔
اس صورتحال میں تھراپی ورکس جیسے اداروں کی کارگردگی سونے پہ سہاگہ ہے جن کی وجہ شہرت تھراپی کی جگہ امیروں کی اولادوں کے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالنا ہے۔ تھراپسٹ اور سائیکائٹرسٹ کا کام اس وقت تک آسان نہیں جب معاشرے میں اتنا اخلاقی انحطاط ہو گا اور معاشرہ دوسروں کی بے بسی پر ہنسنے والے ایسے ہجوم پر مشتمل ہو گا جو بلاوجہ خودساختہ مورال بریگیڈ بن کر بے رحمی سے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر مار دیتے ہوں تو یہ الارم ہے کہ ہمیں نہ صرف ریاستی بلکہ شخصی سطح پر بھی اپنے احتساب کی ضرورت ہے کہ ہم کہاں پر غلط ہیں کہ ایسے درندے پیدا کر رہے ہیں جو بظاہر پڑھے لکھے ہیں لیکن اندر سے کسی جنگل کے باسی ہیں۔
یونیورسٹیوں کالجوں کا مقصد صرف ڈگری تھمانا نہیں بلکہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اخلاقیات کے ساتھ رہنا سکھانا ہے، خاندان کے لوگوں کے ساتھ عزت سے پیش آنا جوائنٹ فیملی سسٹم یا خاندان میں شادیوں سے نہیں آتا بلکہ ایک دوسرے کی ذاتی زندگی کی حدود کا احترام اور خوشیوں میں کھلے دل سے شرکت اور دوسرے کے غم کو اپنا غم سمجھ کے نہ کہ اس کے گناہوں کی وجہ قرار دے کر آتا ہے۔
ہر وقت کا مقابلہ، حسد، نیچے دکھانے کی خواہش، پروفیشنل اور پرسنل برن آؤٹ کو نہ سمجھنا اور اپنے الفاظ کے دوسروں پر اثرات سے آنکھیں چرانا نفسیاتی امراض کو جنم دیتا ہے جب آپ کا کوئی اپنا آ کر آپ کو یہ بتاتا ہے کہ وہ اپنا کام چاہے وہ اس کام میں کتنا کامیاب کیوں نہ ہو مزید نہیں کر سکتا تو وہ نہ ہی بطور پروفیشنل نہ ہی بطور انسان ناکام ہوتا ہے بلکہ وہ زندگی کا نیا صفحہ پلٹنا چاہتا ہے۔
طلاق نہ ہی رشتے کی نہ ہی اس سے جڑے انسانوں کی ناکامی ہوتی ہے بلکہ نفسیاتی صحت مند انسانوں کے درمیان ایک اور باہمی احترام کے رشتے کا آغاز ہوتا ہے جسے دوستی کہتے ہیں ضروری نہیں کہ طلاق کے بعد جب تک آپ ایک دوسرے کو اور پورے خاندان کو تباہ نہ کر لیں سکون نہ لیں ہمارے ہاں مشترکہ خاندانی نظام نفسیاتی امراض کا گڑھ ہے ۔ ساتھ رہتے ہیں اور طعنوں کے نشتر سے ہر رشتے کو لہولہان کرتے ہیں، ایک دوسرے کے بچوں کے ساتھ شادیاں کرتے ہیں اور پھر ان بچوں سے ان کے ماں باپ کے بدلے اتارتے ہیں۔
شادی کرتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ بہو ساس سسر نند دیور کی خدمت میں حاضر رہے، بیٹا اپنے بیوی بچوں کے ساتھ نہیں بلکہ والدین بہن بھائیوں کا اسیر رہے اور ان کی شہ پر ہر وقت اپنے بیوی بچوں کی بے عزتی کرے، استاد اور تعلیمی ادارے صرف ان طالب علموں کو پروان چڑھائیں جو اپنے دماغ پر لوہے کا ہیلمٹ چڑھا کر رکھیں اور جو سوال کرے اس کو مشال کی طرح موت کے گھاٹ اتار دیں۔
سیاستدان عوام کو جاہل قرار دیں اور بیوروکریسی اپنے آپ کو عوام کے ٹیکس سے تنخواہ لینے والا عوام کا ملازم نہیں بلکہ بادشاہ سمجھیں عدالتیں فیصلوں میں سالوں گزار دیں اور جرنیل اپنے آپ کو احتساب سے بالاتر سمجھیں وہاں نفسیاتی امراض نہیں جنم لیں گے تو کیا ہو گا مغرب کو برا ضرور کہیں لیکن یہ ضرور یاد رکھیں کہ وہاں ہر منہ سے نکالی گئی بات کا نتیجہ ہوتا ہے اور آپ کسی بات سے یہ کہہ کر جان نہیں چڑھا سکتے کہ میں مذاق کر رہا تھا یا لوگ تو بات کرتے ہیں آپ اپنے آپ کو مضبوط بنائیں۔
ایک صحتمند معاشرہ صحت مند ذہن کے ساتھ پروان چڑھتا ہے اور مینٹل ہیلتھ کی تعلیم اسکولوں سے دینے کی ضرورت ہے تاکہ اس کی افادیت ہر گھر تک پہنچ سکے، بطور ریاست اس کے اصولوں کا احترام کیا جائے لوگوں کی عزت نفس کو نہ کچلا جائے تاکہ نہ زندگی ان کے لیے عذاب بنے نہ دوسروں کے لیے۔
- ماریہ سے ماریہ تک کا سفر - 07/04/2024
- محبت میں چار سو بیسی کے فارمولے - 16/02/2024
- خود کو ناپسند کرنے والے لوگ کیا کریں؟ ڈاکٹر خالد سہیل، ڈاکٹر سارہ علی - 17/01/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).