بدمعاش بچہ



ہم شہر لاہور میں نہر کنارے جس مقام پر رہتے ہیں وہ ایک چھوٹی سی ہاؤسنگ سکیم ہے۔

جیسے شہروں اور دیہات کے بیچ کہیں قصبے ہوتے ہیں جو مکمل شہر بنتے ہیں نہ دیہات رہتے ہیں بالکل اسی طرح یہ ہاؤسنگ سکیم بھی گنجان آباد محلوں اور ایلیٹ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی درمیانی سی حالت میں ہے۔ یعنی یہاں جو چاہے وہ محلے جیسا ماحول بنا کر اک دوسرے سے ملتا ہے اور جو چاہے وہ اسے سوسائٹی سمجھ کر ساتھ والے گھروں میں بسنے والوں سے بھی بے خبر رہتا ہے۔

یہیں ہم سے اگلی میں ایک دس گیارہ سال کا لڑکا رہتا ہے جو سال بھر پہلے تک ہمارے معاشرے میں رائج اصولوں کے مطابق پرلے درجے کا بدتمیز، انتہائی درجے کا شرارتی اور ”بدمعاش بچہ“ قسم کی شے تھا۔ اپنے ساتھ کھیلتے ہوئے باقی بچوں سے جب چاہے لڑتا بھڑتا، کسی کو بھی ہلکی پھلکی چوٹ لگا دیتا، کسی سے بھی منہ ماری کرتا۔ کسی کا بھی دروازہ پیٹ کر، گھنٹی بجا کر بھاگ جاتا۔ سائیکل چلاتے کسی بچے کو سمیت سائیکل بیچ گلی میں زمین بوس کر دیتا۔ کبھی یوں بھی ہوتا کہ کسی اور کی شرارت بھی اسی کے ذمے لگ جاتی لیکن اس پر اس کا بھی کوئی اثر نہ ہوتا۔

پھر اس کے دادا جان اچانک دل کا دورہ پڑنے سے وفات پا گئے اور ان کے ساتھ ہی وہ ”بدمعاش بچہ“ بھی جیسے کہیں اڑن چھو ہو گیا۔

اس کی جگہ اک اچھا خاصا معقول اور بیبا بچہ برآمد ہوا۔ اب پنجابی کی کہاوت کے عین مطابق ”کن چہ پایا نہیں رڑکدا“

تبدیلی حیران کن تھی، تجسس ہوا سو کھوج لگایا تو معلوم ہوا کہ برخوردار اپنے دادا جان کے بے انتہا لاڈلے تھے اور یہ سب اپنے دادا جان کی ہلا شیری پر ہی کیا کرتے تھے۔

اصل میں اس بچے کو یہ یقین تھا کہ دادا جان کے ہوتے نہ تو باہر اسے کوئی کچھ کہہ سکتا ہے نہ گھر میں۔ یہاں تک کہ اس کے اپنے ماں باپ بھی اس پر کوئی زیادہ روک ٹوک نہیں کر سکتے تھے کیونکہ وہ اپنے دادا کا لاڈلا پوتا تھا۔ تو بس دادا صاحب کے مان پر ہی وہ علاقے بھر میں اڑا پھرتا۔

عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کی شخصیت میں موجود الہڑ پن، شوخی، شرارت، خود پسندی، غرور، اور ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی یا تو قدرتی طور پر ان کی ذات کا حصہ ہے یا پھر اپنے ہی دم خم پر وہ دنیا کو جوتے کے نوک پر رکھے ہوئے ہیں، لیکن عموماً ایسا ہوتا نہیں۔

ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا ہے کہ عموماً ہماری ساری پھنے خانی، ساری شوخی تو دراصل کسی اور کے زعم پر ہوتی ہے۔

اس احساس کی مختلف سطحوں اور صورتوں کے مختلف نام ہو سکتے ہیں جن میں کچھ مثبت اور کچھ منفی بھی ہیں مثلاً کسی کا مان، اعتماد، زعم، ہلا شیری، شہ، غرور، اگر یہ سب چیزیں ایک خاص حد سے تجاوز نہ کریں تو ان میں زندگی کا حسن ہے۔

اگر کسی کے جانے سے آپ کے اندر کا ”بدمعاش بچہ“ مارا گیا تو ضرور ہمیشہ کسی کا مان بن کے رہیے اور اپنے زعم پر کسی کو ”بدمعاش بچہ“ بنا کر رکھیے۔

جیسے کسی بھی معاشرے میں معاشی اعتدال قائم رکھنے کے لیے اشرافیہ اور غرباء کے درمیان متوسط طبقے کا ہونا ضروری ہوتا ہے بالکل اسی طرح معاشرے کے مزاج کی مجموعی فضا معتدل رکھنے کے لیے شرفاء اور حقیقی بدمعاشوں کے درمیان ذرا بدتمیز، تھوڑا شرارتی، کچھ بد لحاظ، قدرے منہ پھٹ اور بناوٹی سا ”بدمعاش بچہ“ طبقہ بھی بہت ضروری ہوتا ہے۔ میرے مطابق یہ کریکٹر ایک صحتمند اور متحرک معاشرے کا حسن ہے۔

آپ کے اندر کا ”بدمعاش بچہ“ کب اور کس کے جانے پہ یوں تیر کی طرح سیدھا ہوا، چاہیں تو کمنٹس میں شیئر کر سکتے ہیں۔

نیلم ملک
Latest posts by نیلم ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments