عثمان بزدار کے پنجاب میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں 9 افراد کا قتل


پہلے ہم سمجھتے تھے کہ ڈاکو راج اور قبیلائی دہشتگردی صرف سندھ اور بلوچستان میں ہے۔ پنجاب جہاں ترقی کی طرف گامزن ہے وہیں امن امان کی صورتحال بھی بہتر ہے۔ ڈاکو راج، اغوا برائے تاوان اور قبیلائی دہشتگردی سندھ اور بلوچستان میں ہے۔ پنجاب میں دودھ کی ندیاں بہتی ہیں۔ راوی پنجند، میں پانی کی بجائے شہد کی ندیاں بہتی ہیں۔ ہمارے ذہن میں سندھ بلوچستان کے لئے الگ رائے ہوتی تھی جبکہ پنجاب کے لئے الگ سوچ ہوتی تھی۔

پنجاب میں قانون، پنجاب کی گڈ گورننس، پنجاب کی پولیس وغیرہ۔ لیکن بعد میں پتا چلا کہ سندھ پنجاب بلوچستان یا کے پی کے کیا پورا ملک ایک جیسا ہی ہے۔ جہاں لاقانونیت۔ قتل و غارت، اغوا برائے تاوان۔ امن امان کی صورتحال ایک جیسی ہی ہے۔ پورے ملک میں ایک ہی مائنڈ سیٹ ہے۔ قانون تو ویسے ہی اندھا ہے اسے کوئی نہیں دکھتا سوائے اپنوں کے۔

10 اکتوبر اتوار کے روز دوپہر وقت پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کے قریب کوٹ سبزل تھانے کی حدود ماہی چوک پر 5 موٹر سائیکل سوار ایک درجن مسلح ڈاکوؤں جانو انڈھڑ کی سربراہی میں نو ماہی چوک پولیس چوکی کے سامنے پیٹرول پمپ، سیڈ کی آفس اور دکانوں پر فائرنگ کر کے ایک ہی انڈھڑ خاندان کے 9 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا ایک شخص زخمی بھی ہوا۔

ڈاکو جانو انڈھڑ کے گینگ کے ایک درجن سے زائد قاتلوں نے اپنی ہی برادری کے 9 افراد کو بھتا نہ دینے پر قتل کیا۔ قتل ہونے والوں میں پمپ ملک غلام نبی انڈھڑ، منور علی، محمد شریف، نظیر احمد، امیر بخش انڈھڑ، فاروق احمد، ظہیر انڈھڑ، عبدالرزاق انڈھڑ اور ایک ساتھی دودا ملک شامل ہیں۔ جبکہ ایک نوجوان زخمی ہوا جسے ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ پنجاب پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ملزمان قاتلوں نے پہلے پیٹرول پمپ پر حملہ کیا تو وہاں موجود مقتولین نے انہیں منت سماجت کی ہاتھ جوڑے کہ نہ مارا جائے۔

سی سی ٹی وی فوٹیجز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح وہ انہیں گولیوں سے چھلنی کر رہے ہیں۔ 4 افراد کو پمپ پر قتل کرنے کے بعد کچھ فاصلے پر بیج ماہی چوک پر سیڈ کی آفس تھی اور دکان تھی وہاں پہنچ کر مزید 5 افراد کو قتل کیا گیا۔ ایک شخص نے پولیس چوکی پر اطلاع دی کہ ہمارے لوگ مارے جا رہے ہیں کچھ کریں! ماہی چوک پولیس چوکی والوں نے کہا ہم کچھ نہیں کر سکتے آپ ون فائیو 15 پر اطلاع دیں۔ ڈاکو پانچ روز تک اسی علاقے میں گنے کی فصل میں چھپے رہے، مجال ہے جو پنجاب پولیس ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی کرے۔

یہ سب کچھ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کے صوبے میں ہوا۔ عثمان بزدار کا تعلق بھی اسی پٹی تونسہ شریف جنوبی پنجاب سے ہے۔ لیکن پنجاب پولیس نے نہ تو ڈاکوؤں کو پکڑا نہ روکا نہ ان کے خلاف کارروائی کی گئی۔ آئی جی پنجاب نے نوٹس لے کر فارمیلٹی پوری کرنے کے لئے ڈی ایس پی صادق آباد اور تھانہ سبزل کوٹ اور چوکی انچارج ماہی چوک کو معطل کرتے ہوئے تفتیش کے لئے ایڈیشنل آئی جی بہاولپور کو دیتے ہوئے رپورٹ مانگ لی۔

ایک ڈاکو کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں وہ کہ رہا ہے کہ ہم نے بندے مارے ہیں۔ مقتولین کے اپر الزام لگا رہا ہے کہ انہوں نے پولیس سے مل کر ہمارے پانچ ڈاکوؤں کو مروایا تھا۔ ڈی پی او رحیم یارخان کا بھی وہہی موقف ہے کہ آپس کی دشمنی میں بندے مارے گئے ہیں۔

کیا آپس کی دشمنی میں بندے مارنا کوئی گناہ نہیں ہے ؟ کیا قاتلوں کو گرفتار کرنا پولیس کا کام نہیں ہے؟ کیا ایک سال قبل اسی گینگ نے مقتولین سے پمپ پر پانچ لاکھ بھتہ وصول نہیں کیا تھا؟

سندھ اور پنجاب میں بڑا ظلم یہ ہے کہ آپ بھلے بے گناہ ہوں، لیکن اگر آپ کا قبیلہ کمیونٹی ایک ہی ہے تو آپ کو کسی کے پلانڈ بدلے میں مارا جائے گا اور قانون حرکت میں نہیں آئے گا۔ ہر طرف اندھیر ہی اندھیر اور چوپٹ راج قائم ہے۔

دنیا پتا نہیں کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے، ہم وہیں کے وہیں فرسودہ رسومات، دور جاہلیت میں زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں۔

سندھ کی طرح جنوبی پنجاب میں بھی یکسانیت ہے۔ جہاں ڈاکوؤں، جاگیرداروں اور بھتا خوروں کی الگ ریاست قائم ہے۔ نہ پولیس ہاتھ ڈالتی ہے نہ ریاست ان کو قانون کی گرفت میں لاتی ہے۔ کوئی بھی لفظ نہیں بولتا۔ ڈاکو اس وقت جنوبی پنجاب سے سندھ کے علاقے اوباوڑو میں منتقل ہو چکے ہیں۔ گھوٹکی ضلع میں کچے کے ڈاکوؤں نے انہیں پناہ دے رکھی ہے۔ اس سے پہلے اتر سندھ کے علاقے کشمور میں ڈاکوؤں جیئند جاگیرانی گینگ نے چاچڑ کمیونٹی کے 10 افراد کو قتل کیا تھا۔

کشمور اور رحیم یار خان اضلاع سندھ پنجاب سرحد سے ملتے ہیں۔ سندھو دریا جہاں سے گزرتا ہے وہاں کے دونوں اطراف کو کچا کہا جاتا ہے جو ڈاکوؤں کے لئے جنت کی مثل ہیں۔ کچے کے علاقوں میں ہر طرف گھنے جنگلات، جھاڑیاں اور پانی ہی پانی نظر آتا ہے۔ کچے کی زمین جرائم پیشہ لوگوں کے رہنے کے لئے بہترین ٹھکانا ہے۔ ان کے لئے علاقوں میں چھپنا آسان ہو جاتا ہے۔ اغوا برائے تاوان کے لئے لوگوں کو اغوا کر کے قید کرتے ہیں۔ پولیس کے لئے کچے کے علاقے میں کارروائی کرنا مشکل اس وقت ہوتا ہے جب پانی زیادہ ہو اور انا جانا مشکل ہوتا ہے سوائے کشتیوں کے۔

جنوبی پنجاب میں سندھو دریاء سے لگنے والے اضلاع جن میں پنجاب کا ضلع ڈیرہ غازی خان، راجن پور اور رحیم یار خان شامل ہیں جبکہ سندھ کے علاقوں میں جیکب آباد ضلع، کشمور کندہ کوٹ۔ گھوٹکی۔ شکارپور، لاڑکانہ، خیرپور اور سکھر ضلع شامل ہے۔ جنوبی پنجاب اور سندھ کے کچے کے علاقوں میں کرمنلز ڈاکوؤں کی اکثریت رہتی ہے۔ جانو اندھڑ گینگ کی طرف سے ماہی چوک پر فائرنگ کر کے 9 افراد کی شہادت کے بعد علاقے کی فضا سوگوار اور خوف ہراس پھیلا ہوا ہے۔

ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن نہ ہونے اور ڈاکوؤں کی جانب سے مزید لوگوں کو قتل کرنے کی دھمکیوں کی وجہ سے ماہی چوک اور کوٹ سبزل گرد نواح کے لوگ خوف برقرار ہے،

لوگ خوف و ہراس کی وجہ سے اپنے گھروں تک محصور ہیں، اور وہاں کا کاروبار مکمل طور پر ٹھپ ہے۔ پیپلز پارٹی کے منتخب رکن پنجاب اسمبلی سردار ممتاز علی چانگ کو مقتولین کی ہمدردی کی وجہ سے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں جبکہ لواحقین کو بھی کہا گیا ہے کہ وہ کیس کی پیروی نہ کریں ورنہ ان کا بھی قتل کیا جائے گا۔ ایم پی اے ممتاز چانگ کا کہنا ہے کہ اس کے پیچھے کچھ سیاسی مخالف بھی ہیں جو لوگوں کو بھڑکا رہے ہیں اور مجھے دھمکیاں دلوا رہے ہیں۔

ماہی چوک اس وقت مقتل گاہ بن چکا ہے۔ پولیس نے ڈاکوؤں کے انڈھڑ گینگ کے سرغنہ جانو انڈھڑ سمیت 15 ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ابھی تک ایک بھی ملزم کو گرفتار کرنا پنجاب پولیس کے لئے چیلنج ہے۔ لواحقین نے وزیراعظم پاکستان، آرمی چیف، چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب آئی جی پنجاب سے اپیل کی ہے کہ ڈاکوؤں کے خلاف پولیس کچھ نہیں کر سکتی۔ رینجرز اور پاک فوج کا مشترکہ آپریشن کیا جائے۔ تاکہ امن امان کی صورتحال بحال ہو سکے او ڈاکوں کا خاتمہ ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments