گوتم بدھ، آئن اسٹائن اور قرآن


گوتم بدھ ایک دن باغ میں اپنے شاگردوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور سوال و جواب کا سلسلہ شروع تھا۔ ایک شخص آیا اور گوتم سے سوال کیا کہ ”کیا خدا کا وجود ہے؟“ ۔ گوتم کو اپنے وجدان سے معلوم ہو گیا کہ یہ آدمی مذہبی ہے اور رام کا ماننے والا ہے۔ گوتم نے جواب دیا ”نہیں، خدا کا کوئی وجود نہیں ہے“ ۔ دوسرے دن بھی یہی سوال و جواب کا دور تھا کہ ایک دوسرا آدمی آیا اور گوتم سے سوال کیا کہ ”کیا خدا کا کوئی وجود ہے؟“ ۔ گوتم کو پتا چل گیا کہ یہ کسی مذہب کو نہیں مانتا اور خدا کا انکاری ہے۔ گوتم نے جواب دیا ”ہاں خدا موجود ہے“ ۔ وہ شخص یہ جواب سن کر وہاں سے چلا گیا۔

گوتم کے شاگرد دونوں دن مختلف جواب سن کر تذبذب کا شکار ہو گئے اور گوتم بدھ سے پوچھا کہ ایک ہی سوال کے دو مختلف جواب کیوں؟ گوتم بدھ نے جواب دیا کہ اگر میں خدا پر ایمان رکھنے والے کو یہ کہہ دیتا کہ ہاں خدا ہے تو اس کی جستجو ختم ہو جاتی اور وہ اپنی حقیقت اور اپنے وجود کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا۔ اسی طرح وہ شخص جو خدا پر ایمان نہیں رکھتا تھا، میرا جواب سن کر اب وہ کائنات کو سمجھنے کی کوشش کرے گا۔ وہ اس دنیا کے اسرار تلاش کرے گا اور یہی جستجو اس کو زندہ رکھے گی۔

اب آپ قرآن کو اٹھا لیں۔ آپ کو ہر تیسری چوتھی آیت ائفلا تعقلون ( تم لوگ عقل سے کام کیوں نہیں لیتے ) ، ائفلا تتفکرون (تم لوگ سوچتے کیوں نہیں ہو) اور وفی انفسکم افلا تبشرون (کیا تم اپنے آپ کو دیکھتے نہیں ہو) پر ختم ہوتی ہے۔ قرآن میں ہے کہ کیا ان زمین اور آسمانوں میں تمہارے لئے نشانیاں نہیں ہیں۔ لیکن میری اس بات سے آپ یہ مت سمجھ لیجیے گا کہ ہر سائنسی ایجاد کی نشاندہی قرآن نے بہت پہلے ہی کر دی تھی۔ نیوٹن، آئن اسٹائن، گیلیلیو، میکس پلنک، ایڈیسن اور دیگر سائنسدانوں نے بائبل، قرآن، انجیل یا زبور پڑھ کر کبھی کوئی فارمولا یا کوئی سائنسی ایجاد نہیں کی۔ قرآن یا مذہب تو صرف انسان کو اس جذبے کی طرف لے کر جاتا ہے جہاں سچائی کی تلاش کرنا مقصود ہو۔ جہاں کائنات کی تخلیق اور اس کے اسرار سے پردہ اٹھانا ہو۔

آئن اسٹائن نے اسی بات کو اس طرح کہا تھا کہ ”سائنس، مذہب کے بغیر لنگڑی ہے اور مذہب، سائنس کے بغیر اندھا“

( Science without religion is lame and religion without science is blind)

آئن اسٹائن کی اس بات سے لوگ یہ تاثر لے لیتے ہیں کہ وہ خدا پر ایمان رکھتا تھا۔ ایسا نہیں تھا اور اگر تھا بھی تو آئن اسٹائن کا خدا، کائنات کی ایک پیچیدہ تنظیم تھی۔ وہ اس بات پر ایمان رکھتا تھا کہ اس کائنات کے پیچھے ایک توانائی اور طاقت ہے۔ اس کا خیال تھا کہ اس کائنات کو سمجھا جا سکتا ہے اور اس نے اپنی زندگی کو ان ہی اصولوں کو جاننے کے لئے وقف کر دیا۔

آئن اسٹائن جانتا تھا کہ سحر، خوف، ایمان اور امید مذہب کے عناصر ہیں۔ معجزاتی واقعات کا سحر ہمیں متاثر کرتا ہے اور تخلیقی انداز میں سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ جب اس نے کہا ”مذہب کے بغیر سائنس لنگڑی ہے“ ، وہ خوف، اسرار، امید اور مافوق الفطرت واقعات پر سائنس دانوں کو توجہ دلا رہا تھا جو نئے خیالات کو جنم دیتی ہے۔ در حقیقت وہ یہ بتا رہا تھا کہ سائنس داں ہر طرح کے تخلیقی خیالات اور کائنات کے کام کرنے کے بارے میں حیرت انگیز خیالات رکھتے ہیں۔ ان کے اور مذہب کے درمیان فرق صرف یہ ہے کہ سائنسدان پھر ان شواہد کو تلاش کرتے ہیں۔ وہ کسی بھی طرح یہ نہیں کہہ رہا کسی بھی سائنسی تحقیق اور ایجاد کے لئے مذہبی عقائد رکھنا ضروری ہے۔ وہ سائنس دانوں کو وہی سحر، جنون اور جذبہ رکھنے کا پیغام دے رہا تھا جو مذہبی لوگوں کا خاصہ ہے۔

اگر ہم گوتم بدھ، آئن اسٹائن اور قرآن کی اوپر لکھی ہوئی باتوں کو آپس میں جوڑنے کی کوشش کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ سب ایک ہی بات کر رہے ہیں۔ لیکن ہم نے قرآن کو دم کر کے پھونکنے، کاروبار میں اضافے کے وظیفے، رخصتی کے وقت لڑکی کی حفاظت اور اسی طرح کے کئی ناقابل فہم امور کے لئے رکھا ہوا ہے۔

غالب نے کہا تھا کہ

اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments