گیارہ سو بٹا گیارہ سو


میٹرک، گیارہویں اور بارہویں جماعتوں کے بورڈ رزلٹس کا سیزن شروع ہوتے ہی نمبروں کی ایسے لائن لگی ہے کہ اپنی دماغی صحت پر شک سا ہونے لگا ہے۔ یکساں قومی نظام کے نام پر رچائے گئے ڈرامے کا ڈھونگ ہی کیا کم تھا کہ اب گیارہ سو میں گیارہ سو لینے والے نیوٹنز اور آئن سٹائنز پر مشتمل ایسی نایاب قوم تیار ہونا شروع ہو گئی ہے۔ جو 2030 تک ٹیکنالوجی اور ترقی کی دوڑ میں یقیناً چین اور جاپان کو بھی مات دے دی گی۔ ہمیں تو معلوم ہی نہ تھا کہ اقبال کے شاہین اپنی ذہانت، فطانت اور آئی کیو سے اقبال کو بھی ورطہ حیرت میں ڈال دیں گے۔

اگر محاوروں کی فیکٹری بند نہیں ہوئی تو ”گیارہ سو بٹا گیارہ سو“ کو بھی ہمارے شاندار تعلیمی کارنامے کی ’یادگار‘ کے طور پر روزمرہ کی اصطلاح میں شامل کر دینا چاہیے، ہمارے وقتوں میں تو صرف حساب کے مضمون میں ہی فل مارکس ممکن تھے۔ انگریزی، اردو، اسلامیات اور معاشرتی علوم میں ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے بعد بھی کبھی پورے نمبر لینے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ اب یا تو ہم اتنے ذہین نہ تھے یا ہمارے اساتذہ نمبر دینے میں اتنے دیالو نہیں رہے۔

یا پھر آج کے طالبعلم ہی ایسی مافوق الفطرت ذہانت کے مالک ہیں جس کا اندازہ لگانے میں ہم سے کوتاہی ہوئی ہے۔ کووڈ کے باعث امتحانات میں لازمی مضامین نہیں شامل کیے گئے، یعنی صرف ’حسابی‘ پرچے لیے گئے، جس کی بدولت ایسا ’بے باک‘ حساب و کتاب کر ڈالا گیا کہ ایک آدھ نہیں بلکہ تھوک کے حساب سے طلباء نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ ان خوش آئند نتائج کے بعد یقیناً دنیا بھر سے طالبعلم اب پاکستان کا رخ کریں گے جس سے زر مبادلہ کے ذخائر میں خاطر خواہ اضافے کا امکان ہے۔

اس بات سے انکار نہیں کہ بچوں نے خوب محنت کی ہوگی اور نوجوانوں میں ٹیلنٹ کی بھی کوئی کمی نہیں۔ اس کے علاوہ کچھ مڈل کلاس اور غریب گھرانوں کے بچے آج کل کے موبائل زمانے میں بھی انٹر میں پورا ’زور‘ لگا دیتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے تعلیمی نظام میں انٹر میں اچھے نمبروں سے پاس ہونے کو ہی مستقبل میں کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ یہ اور بات ہے بارہویں کا قلعہ فتح کرنے کے بعد ان بچوں کو ”آٹے دال“ کا صحیح بھاؤ معلوم ہوتا ہے۔

اگرچہ پرائیویٹ یونیورسٹیوں، مزید شعبوں کے آنے اور داخلہ ٹیسٹوں کی بدولت بارہویں کا زندگی پر ’دار و مدار‘ کم ہوا ہے، لیکن ابھی بھی ’نتائج‘ کی اہمیت برقرار ہے۔ ایک طرف تو پرائیویٹ یونیورسیٹیوں کی فیسیں اب مڈل کلاس طبقے کی پہنچ سے بھی باہر ہو چکی ہے۔ اس کے باوجود والدین اپنا پیٹ کاٹ کر ان تعلیمی فیکٹریوں کا خرچہ اٹھا رہے ہیں، دوسرا انجینئرز اور خاص کر ڈاکٹر جو نام اور دام کما رہے ہیں، اس کے لیے انٹر کے نتائج آج بھی بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔

اس کے علاوہ طالبعلموں کا نقل اور رٹے سے بھرپور امتحانی نظام میں پیپروں کے رزلٹ دیکھ کر ہی پتہ لگ جاتا ہے کہ آگے چل کر وہ کتنے بڑے ’طوطے‘ ثابت ہوں گے۔ بد قسمتی سے آزادی کے وقت سے ہی ہمارا تعلیمی نظام بیساکھیوں کے سہارے بغیر کسی منزل کی نشاندہی کے رواں دواں ہے۔ سمجھ کے بجائے جو جتنا جم کے رٹا لگائے گا، اتنا ہی اس کے مارکس آنے اور ’کامیاب‘ ہونے کا چانسز زیادہ ہیں۔ نتیجتاً ایسے تعلیمی نظام سے برآمد ہونے والوں میں تخلیقی صلاحیت اور جدت کا فقدان ہے جو کہ ترقی میں پیچھے رہنے کا باعث ہے، مگر بورڈ رزلٹ دیکھیں تو یہاں نئے سے نئے ریکارڈ بن رہے ہیں۔

ممتحنوں کا بس نہیں چلا ورنہ وہ گیارہ سو میں سے بارہ سو نمبر دے دیتے۔ یہ الگ بات کے انٹری ٹیسٹ میں ان نونہاروں کو منہ کی کھانی پڑ رہی ہے۔ اور اوسط درجے کے نمبر لینے والے طلبا و طالبات شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہو چکے ہیں۔ زمینی حقائق کا جائزہ لیں تو عالمی وبا کرونا کے حملے نے کئی جانیں نگلیں، معیشت تباہ کی۔ لائف سٹائل تبدیل کیا۔ اور تو اور تعلیم بھی آن لائن ہو گئی۔ ویسے تو کورونا وائرس پھیلنے سے پہلے بھی تعلیم ہمارے حکمرانوں کی ترجیح کبھی بھی نہ تھی۔

اوپر سے کرونا کے عفریت نے اس خستہ حال تعلیمی ڈھانچے کی بنیادوں کو مزید دیمک زدہ کر دیا ہے۔ اسکول، کالجز اور یونیورسیٹیز کی لگاتار بندشوں اور محکمہ تعلیم کی احمقانہ پالیسیوں نے اس لولے لنگڑے تعلیمی سلسلے کو مکمل اپاہج بنا چھوڑا ہے۔ اور اب کرونا کے مہلک وار سہنے کے بعد یہ کیا شکل اختیار کرے گا یہ ہمارے تعلیمی ماہرین اور پالیسی ساز اداروں کے لیے یقیناً ایک لمحہ فکریہ ہے۔ لیکن ہمارا تعلیمی و تربیتی ماحول مجھے پریشان کر رہا ہے۔

ہمارے ہاں بیماری کا علاج تو کیا جاتا ہے لیکن بیماری کو ختم کرنے کے لیے ریسرچ، تحقیق یا حکمت عملی نہیں اپنائی جاتی۔ اگر اب بھی ہمارے تعلیمی ماہرین، اور حکومت نے رویہ تبدیل نہ کیا اور ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہے اور دنیا کی ریسرچ پر رہے تو ہمارا تعلیم نظام جو پہلے ہی تنزلی کا شکار ہے مزید دگرگوں ہو جائے گا۔ کیونکہ تبدیلی سرکار سے تو کچھ بھی بعید نہیں۔ شفقت محمود نے بھولے سے بھی اگر ایک بار پرائم منسٹر کے کان میں کہہ ڈالا ”خان صاحب چھ ماہ سکول بند رہنے سے آگر اتنا اچھا زرلٹ آ سکتا ہے تو پورا سال بند رہنے ہر سوچیں کتنا اچھا رزلٹ آئے گا“ اور سونے پر سہاگہ خان صاحب نے اس کا نوٹس لے لیا تب کیا ہو گا۔ آگے آپ خود سمجھدار ہیں۔ کیونکہ کارکردگی تبدیلی سرکار کی بھی گیارہ سو بٹا گیارہ سو ہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments