سات عادات اور دوسری پر اثر کتابیں


پچھلی تحریر میں میں نے ان دس کتابوں کے نام لکھے تھے جو میں نے اپنے دوست مبین کو پڑھنے کے لیے تجویز کی تھیں۔ آج میں بتاؤں گا کہ میں نے ان کتابوں کا انتخاب کیسے کیا۔

The 7 Habits of Highly Effective People by Stephen R. Covey

اس کتاب کو منتخب کرنے میں میرا کوئی کمال نہیں۔ یہ تو بس اس دن میری ٹیبل پر موجود تھی جب مبین نے مجھ سے پڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اس کی جگہ کوئی اور کتاب بھی ہو سکتی تھی۔ مثلاً جینے کی اہمیت، ”“ میٹھے بول کا جادو ”یا“ اپنی زندگی سے لطف اٹھائیے ”وغیرہ۔ مگر واقعہ یہ کہ اس دن میری ٹیبل پر“ پر اثر لوگوں کی سات عادات ”ہی موجود تھی۔

اور اس کتاب کا کمال یہ تھا کہ اسے دیکھ کر ہی مبین کے دل میں مطالعہ کے جذبے نے انگڑائی لی۔ فرض کیا کہ یہ کتاب وہاں نہ ہوتی یا کوئی دوسری کتاب پڑی ہوتی تو ہو سکتا ہے کہ مبین کا دھیان ہی اس طرف نہ جاتا۔ سو یہ کتاب ایک ایسا cue ثابت ہوئی جس سے آگے کا کھیل خود بخود ترتیب پاتا چلا گیا۔

Animal Farm by George Orwell

میں نے سوچا کہ مبین کی پہلے کتابیں پڑھنے کی عادت نہیں رہی۔ سو اسے فکشن کی کوئی اچھی کتاب تجویز کی جائے۔ ایک ناول، جو زیادہ طویل نہ ہو، مگر مربوط پلاٹ اور گہرائی کا حامل ہو۔ جسے پڑھ کر مبین کو معلوم ہو کہ سب کتابیں اچھی ہوتی ہیں لیکن کچھ کتابیں زیادہ اچھی ہوتی ہیں۔

”All animals are equal but some are more equal than others.“

ایک فارم کے جانور حضرت انسان کے حق حاکمیت کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے اپنی آزاد حکومت قائم کر لیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک یوٹوپیا میں پہنچ گئے ہیں۔ بیشتر معصوم جانور مثالیت پسندی کے نشے میں مخمور رہتے ہیں۔ جبکہ چند چالاک جانوروں کے بیچ اقتدار کی جنگ شروع ہو جاتی ہے۔

The Clash of Civilizations by Samuel P. Huntington

مبین کچھ جیو پولیٹکس، انٹرنیشنل ریلیشن اور تہذیبوں کے میل ملاپ کے بارے میں بھی جانے۔ اس کتاب میں مختلف قوموں کی فالٹ لائنز کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ مصنف نے اپنے تجربے اور مشاہدے کا نچوڑ پیش کر دیا ہے۔ مگر کتاب کا لہجہ تھیوریٹکل اور عالمانہ ہے۔

Thinking Fast and Slow by Daniel Kahneman

مبین کو سوچ کی بوقلمونیوں کا بھی علم ہو۔ مصنف ذہن انسانی کو دو لاجیکل یونٹس میں بانٹتا ہے۔ ایک وہ حصہ ہے جو وسیع انسانی تجربے کی بنیاد پر سرعت سے سوچتا ہے۔ اسے وجدان بھی کہہ سکتے ہیں۔ دوسرا حصہ پیچیدہ تکنیکی مسائل پر سست روی سے غور و فکر کرتا ہے۔

اس کو اس مثال سے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ مبین کے تیز دماغ نے ایک دم پڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اب یہ اس کے سست دماغ پر منحصر ہے کہ وہ یہ گنجلک کام کر پاتا ہے یا نہیں۔

The Age of Faith by Will Durant

یہ بھی ضروری تھا کہ مبین نوع انسان کی تاریخ کے بارے میں پڑھے۔ مگر میں نے اپنا فوکس بالعموم مذہب اور بالخصوص اسلام کی تاریخ پر رکھا۔ میں نے مبین کے لیے نگارشات کی چھپی ہوئی ”اسلامی تہذیب کی داستان“ کا انتخاب کیا۔

میں چاہتا تھا کہ مبین عقیدے کے ساتھ ساتھ اس کی تاریخ کو بھی سمجھے۔ وہ اس کو وقت کے حقیقی فاصلے سے جانچے۔ اس طرح شاید وہ ہماری مسلکی چپقلشوں کا سبب دریافت کر پائے۔ عقیدہ کوئی ایسی چیز نہیں جو اس اذان کے ساتھ نازل ہوا تھا جو پیدائش کے وقت اس کے کان میں دی گئی تھی۔

یہ الوہیت کے پہاڑوں سے نکلا تھا اور ماضی کے دریا اور اس کی کی شاخوں میں بہتا ہوا حال کے سمندر میں آ گرتا ہے۔ سو اس کے بہاؤ کے سفر کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔

Men Are from Mars, Women Are from Venus by John Gray

وہ کچھ مرد اور عورت کی نفسیات کے فرق کو بھی سمجھے۔ یہ خلائی بعد اتنا وسیع ہے کہ استعارہ کی زبان میں گویا مرد اور عورت مختلف سیاروں کی مخلوقات ہیں۔ مگر اب ایک زمین پر، ایک معاشرے میں، ایک گھر میں اور ایک کمرے میں رہنے پر مجبور ہیں۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے اس کتاب میں اچھی رہنمائی کی گئی ہے۔

Education and the Social Order by Bertrand Russell

اس کتاب کو منتخب کرنے کی اس کے علاوہ کوئی وجہ نہیں کہ یہ کتاب میری فیورٹ کتابوں میں سے ایک تھی۔ پاکٹ سائز میں نیلے سرورق کی کتاب ماموں کی لائبریری میں موجود تھی۔ میں نے بھی ایک کاپی خرید کر اپنی کتابوں میں شامل کر لی۔ پھر اتوار کے روز سردیوں کی ایک دوپہر میں جب سارا ہوسٹل یونیورسٹی کی اسائنمنٹ بنانے میں مصروف تھا میں چھت پر یہ کتاب تھامے معاشرے میں تعلیم کی اہمیت اور طریق کار پر غور و فکر کر رہا تھا۔

Getting Things Done by David Allen

مبین ماشاءاللہ اپنا کام کر رہا تھا۔ اسے روز اہم اور مشکل کام سرانجام دینے پڑتے ہوں گے۔ کام کی زیادتی اس کی زندگی میں سٹریس بھی پیدا کرتی ہوگی۔ پھر کون سا کام خود کرنا ہے اور کون سا ٹیم سے کرانا ہے۔ مقابلے کے دوڑ میں کیسے خود کو جدید ٹرینڈز سے اپ ٹو ڈیٹ رکھنا ہے۔ ان سب معاملات پر رہنمائی کے لیے میں نے سیلف ہیلپ کی یہ کلاسک لسٹ میں شامل کی۔

Man ’s Search for Meaning by Viktor E. Frankl

محض اس شائبے کی بنیاد پر کہ مبین وجودیاتی کشمکش کا شکار تو نہیں میں نے یہ کتاب بھی لسٹ میں شامل کر لی۔ مصنف نے نازیوں کی بربریت سہنے کے باوجود زندگی جینے کا اچھوتا ڈھنگ ڈھونڈ نکالا۔ انہوں نے کڑی آزمائش کی حالت کو بھی بامقصد مفہوم پہنانے کا درس دیا۔

The 10 Rules of Happiness Mridula Agarwal

مبین ہرگز ناخوش انسان نہیں۔ بلکہ وہ ایک صحت مند، خوش خوراک اور کھیلوں میں دلچسپی لینے والا انسان ہے۔ مگر ہے تو انسان ہی۔ اور ہر انسان کو خوشی کی اناٹومی کا علم ہونا چاہیے۔ جس کی تبلیغ اس مختصر سی کتاب میں کی گئی ہے۔ میں اپنی تحریر کا اختتام خوشی کے انہی دس اصولوں پر کرتا ہوں۔

خوش رہنا ہمیشہ ممکن ہے۔
خوشی پھیلائیں۔
اپنی رحمتوں کا شمار کریں۔
جو آپ تبدیل کر سکتے ہیں وہ ضرور کریں اور اس کو قبول کر لیں جو آپ تبدیل نہیں کر سکتے۔
فکر نہ کریں، مصروف ہو جائیں۔
چھوٹی باتوں سے پریشان نہ ہوں۔
تنقید سے پریشان نہ ہوں۔
دوسروں کو معاف کرنا سیکھیں۔
مصروف رہنے کا جادو۔
زندگی کی خوبصورتی کو دریافت کریں۔

فرحان خالد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

فرحان خالد

فرحان خالد تعلیمی اعتبار سے انجنیئر ہیں. ایک دہائی سے سافٹ ویئر انڈسٹری سے منسلک ہیں. بچپن سے انہیں مصوری، رائٹنگ اور کتابیں پڑھنے کا شوق ہے. ادب اور آرٹ کے شیدائی ہیں.

farhan-khalid has 35 posts and counting.See all posts by farhan-khalid

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments