لاڈو کی گڑیا


جون کی سخت گرمی اپنے جوبن پہ تھی۔ سورج کی سنہری کرنیں پھول جسے چہروں کو سیاہ کر رہی تھیں۔ محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی جوالا مکھی پھٹ گئی ہو اور ہر شے کو اپنی لپیٹ لے رہی ہو۔ سڑکے کے کنارے درختوں کی لمبی قطار کسی فرشتے کا پر معلوم ہوتی تھی جس نے اپنے پر کے نیچے سینکڑوں جانداروں کو گرمی کی شدت سے بچا رکھا ہو۔ اس قطار میں برگد کے درخت کے نیچے سکول کی دیوار کے ساتھ ایک بارہ تیرہ برس کا ننھا آدھ کھلا پھول اپنی چھوٹی سی دنیا سجائے بیٹھا تھا۔

جو اس کی روزی کا ساماں بھی تھی اور اس کی امیدوں کا کل جہاں بھی۔ یتیمی کا سایہ بھی عجب ہے جس پہ چھاتا ہے اس کے لاڈ پیار، نخرے، خواہشیں اور شوق کھا جاتا ہے۔ کھلے چہرے وقت سے پہلے سنجیدگی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔ بستہ اٹھانے والے نازک کندھے ذمہ داریوں کا بار اٹھاتے جوانی کی دہلیز پہ چڑھ جاتے ہیں۔ آج سکول کی دیوار کے ساتھ برسوں سے لگے درخت کی چھاوٴں میں اپنی دکان سجائے بیٹھنے والا سمجھ رہا تھا کہ شاید درخت اسے سورج کی کڑی دھوپ کے ساتھ ساتھ زندگی کی کڑی اور تلخ آزمائشوں کی دھوپ بچا لے گا۔

ساری پریشانیوں کو بھلائے آج وہ خلاف معمول خوش دکھائی دے رہا تھا ہاتھ تیزی سے ساماں جوڑنے میں مصروف تھے۔ اپنا ٹھیلا سکول کی دیوار کے ساتھ سجانے کے بعد اس کے دل میں موہوم سی امید نے جنم لیا کہ شاید آج زیادہ فروخت ہوگی اور زیادہ پیسے لیے وہ گھر جائے گا۔ یہی امید اس کی فرحت کا ساماں کیے ہوئی تھی۔ باپ کی وفات کو ابھی چند دن گزرے تھے کہ اسے سکول کا بستہ اتار کر ذمہ داریوں کی گٹھڑی اٹھانا پڑی۔ باپ بھلے مزدور ہو پر اولاد کے لیے بادشاہ ہوتا ہے۔

بچے کی ہر خواہش پوری کرنے کے چکروں میں دن رات ایک کر دیتا ہے۔ وفات سے چند دن قبل لاڈو نے باپ سے گانا گانے والی گڑیا کی فرمائش کی تھی جس کو پورا کرنے کے لیے اس کے باپ نے چند دن لگاتار کام کیا اور وہ ایک شام کام سے واپسی پہ گڑیا ساتھ لانے کے قابل ہو گیا تھا آج کے دور میں پیٹ کا دوزخ بھرنے کے ساتھ ساتھ خواہشوں کی تکمیل بھی ایک مشکل امر ہے گویا پٹاری میں بند سانپ ہو جو ذرا سی کوتاہی پہ ڈس لے۔ گزشتہ روز سہیلیوں کے ساتھ کھیلتے کھیلتے لاڈو کی گڑیا ٹوٹ گئی جس پہ اس نے خوب واویلا کیا اور کچھ بھی کھانے سے انکار کر دیا اور صاف اعلان کر دیا کہ جب تک اس کی نئی گڑیا نہیں آئے گی وہ کسی سے بات نہیں کرے گی۔ ماں نے بہتیرا سمجھایا پر بچپن دور ہی ایسا ہے جب بچہ ہر چیز سے بے نیاز اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیاں پوری کرنا چاہتا ہے۔

”اگر ابا زندہ ہوتے تو میری آنکھ کا پہلا آنسو گرنے سے پہلے گڑیا لا دیتے۔ بھیا نے تو کہا تھا کہ اب بھیا بھی وہی ہیں اور ابا بھی تو لا کیوں نہیں دیتے نئی گڑیا“

لاڈو نے روتے روتے ہاتھ چہرے سے اٹھائے بنا بھیا کو ان کے الفاظ یاد دلائے
ارے پگلی! بھیا تیرے ابا جتنا بڑا تھوڑی ہے وہ تو خود چھوٹا ہے ابھی۔ ماں نے سمجھانے کی کوشش کی۔
پر مجھ سے تو بڑے ہیں نا بھیا۔ چند برس ہی سہی۔

بھیا کم عمر ضرور تھا پر سوچ و فکر کے گرداب میں پھنسا وہ بزرگوں کا بزرگ معلوم ہوتا تھا۔ ہم عمر لڑکوں میں بچہ اور بڑوں میں بڑا۔ خاموشی سے اٹھ کے چارپائی پہ ڈھے گیا۔ سوچوں کی ڈوریاں جوڑ کر ایک مضبوط رسہ بناتا رہا جو اس کو پریشانیوں کے گہرے کنویں سے نکالنے میں مدد کرے گا۔ یہ سوچتے سوچتے کہ کس طرح لاڈو کی گڑیا آئے گی وہ سکون کی وادی میں اتر میں گیا۔

آج سڑک کے اس پار کھڑے ہونے کی بجائے اس نے سکول کی دیوار کے ساتھ ٹھیلا لگایا تاکہ سکول کے بچے آسانی سے چیز لے سکیں اور اس کی زیادہ کمائی ہو۔ دل ہی دل میں خوش وہ کسی اور جہاں کا باسی لگ رہا تھا۔ ہم عمر لڑکوں کو سکول کے لباس میں دیکھ کر اس کو بھی اپنے پرانے دن یاد رہے تھے۔ مگر ماضی کی یادوں پہ حال کی فکر اور مستقبل کی فکر حاوی تھی۔

لاڈو کتنی خوش ہوگی گڑیا دیکھ کر وہ اندازہ کر سکتا تھا۔ بہن کی خوشی سے زیادہ اسے کچھ عزیز نا تھا اور تب جب بہن اسے اپنا باپ سمجھ رہی تھی۔ بچے آتے گئے وہ بیچتا رہا۔ ایک دو جگہ اور ٹھیلہ لے کر گیا۔ خوب محنت کی اور شام کے وقت اس کے پاس پہلے دنوں کی نسبت کچھ زیادہ رقم تھی۔ پھر یہی اس کا معمول بن گیا روز پہلے سکول پھر دوسری جگہ وہ لاڈو کی خوشیاں ڈھونڈتا پھرتا۔ چند ہفتوں کی ان تھک محنت کے بعد اس کے پاس اتنے پیسے ہو گئے کہ وہ اپنی گڑیا کے لیے گڑیا خرید سکے۔

بازار میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر کھلونوں کی دکان پہ پڑی۔ خوشی سے جھومتا ہوا وہ دکان میں داخل ہوا اور اپنا مدعا دکان دار کے سامنے پیش کیا۔ دکان دار نے اس کے کپڑوں کی حالت دیکھ کے تیوری چڑھائی اور تلخ لہجے میں ہاتھ اٹھا کر جواب دیا۔ بچے یہ تمھارے خریدنے کی چیز نہیں ہے۔ مگر جب اس نے چہرے پہ فاتحانہ مسکراہٹ سجائے رقم کا وٴنٹر پہ رکھی تو دکان دار نے ایک نظر گڑیا پہ ڈالی اور اس کے چہرے پہ۔

خیر دکان دار نے حلیے سے کیا لینا دینا اس کے لیے تو سب گاہک برابر ہیں جو اسے منہ مانگے دام دے دیں۔ رقم ادا کر کے وہ گڑیا اٹھائے دکان سے باہر نکلا تو اسے محسوس ہوا گویا اس نے سارا جہاں خرید لیا ہے۔ ایسا جہاں جدھر کوئی غم نہیں۔ لاڈو کی خوشی کا احساس اسے مسحور کیے ہوئے تھا۔ تیزی سے سڑک پار کرنے کے چکروں میں وہ ایک تیز رفتار موٹر سائیکل سے ٹکرایا اور اس کی لاڈو کی خوشی ہاتھ سے چھوٹ کر اچھلی اور دور جا گری۔ گرا تو وہ بھی تھا پر گڑیا کا خیال بجلی بن کے کوندا اور وہ زخموں کی پرواہ کیے بنا جھٹ پٹ اٹھ کھڑا ہوا۔ مگر اس کی خوشیاں سڑک کے بیچ ٹکڑے ٹکڑے بکھری پڑی تھیں یہ دیکھتے ہی ایک بار پھر گرا اور بے ہوش ہو گیا۔

بہاور فرید
Latest posts by بہاور فرید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments