اک نایاب حسینہ سے ملاقات


مصنف: ولیم سین سم (برطانیہ)
مترجم : محسن علی خاں (فیصل آباد)

وہ نوجوان اپنے دیہات سے اٹلی کے دارالحکومت روم میں سیر کی غرض سے پہنچا تھا۔ یہ اس کا پہلا سفر تھا۔ نہ تو اس کی عمر اتنی کم تھی اور نہ ہی وہ ایسا سیدھا سادا تھا کہ یہ نہ جانتا ہو کہ اس عظیم الشان اور خوب صورت دارالحکومت کی اہمیت اور کشش کسی بھی دوسری جگہ کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ زندگی کے متعلق پہلے سے ہی اسے یہ علم تھا کہ یہ ایک سراب کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ اکثر انہونی بھی ہو جاتی ہے لیکن اس انجانی خوش قسمتی کا حساب برابر کرنے کے لیے مایوسیاں بھی کہیں نہ کہیں سے آ جایا کرتی ہیں۔ اگرچہ اسے بخوبی علم تھا کہ زندگی کئی بار بھیانک روپ میں بھی سامنے آتی ہے۔ گویا زندگی کی روش میں کوئی بدلاؤ نہیں آیا کرتا اور زندگی کا ایسا روپ اکثر بڑے شہروں میں ہی دیکھنے کو ملتا ہے جہاں بظاہر ہر شخص اپنے کام اور اپنی ہی ذات میں مگن دکھائی دیتا ہے۔

ایسی ہی سوچوں کے جال میں گھرا وہ روم شہر کی بلند ہسپانوی سیڑھیوں پر کھڑا اپنے اردگرد تاحد نگاہ پھیلے ہوئے دلکش نظاروں کو بغور دیکھ رہا تھا۔ سڑک پر بڑھتی ہوئی ٹریفک کا شور اس کی سماعتوں سے ٹکرا رہا تھا۔ اور وہ شہر کی اس سنہری شام میں روشن ہوتے چراغوں کے منظر کے روبرو خاموش کھڑا تھا۔ چمکتی ہوئی گاڑیاں عجب روانی کے ساتھ فواروں کے پاس سے گزر رہی تھیں اور تیز موڑ کاٹتے ہوئے سامنے کانداتی کی روشن سڑک میں داخل ہو رہی تھیں۔ سایوں کو چیرتے ہوئے سرخ و سفید روشنیاں اسے اپنی جانب متوجہ کر رہی تھیں۔ لاریوں کی پیلی کھڑکیاں ان چہروں سے بھری ہوئی تھیں جو شاید کسی نہ کسی منزل کی طرف جا رہے تھے۔ شہر کا ہر شخص شام کے دھندلکوں میں معمول کے کاموں میں مگن نظر آ رہا تھا۔ بس اک وہی تھا جو وہاں اکیلا اور فارغ کھڑا تھا۔

وہ خود کو اس شہر میں اجنبی اور تنہا محسوس کر رہا تھا لیکن کسی بھی قسم کی مہم جوئی تلاش کرنے سے نہیں ملتی بلکہ وہ اور دور ہو جاتی ہے۔ ایسے مزاج کے ساتھ تو کوئی بھی خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا ہے۔ یہ سوچ کر وہ واپس سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ ایک خوب صورت گرجا گھر کے پاس سے گزرتا ہوا پہاڑی راستے سے اپنے ہوٹل کی جانب روانہ ہوا۔ ان تنگ گلیوں میں کھانے کی دکانیں اور شراب خانے لوگوں سے بھرے ہوئے تھے۔ لیکن وتوریو وینیتو کے بڑے فٹ پاتھ پر، بورگیز باغ کے بلند درختوں کے نیچے، مدھم روشنی میں، روم کے اشرافیہ، یورپ کے بہترین کیفے میں بیٹھ کر کھانے سے پہلے شراب کے جام انڈیل رہے ہوں گے۔ شاید وہاں اس سے بھی زیادہ تنہائی ہو، یہ سوچتے ہوئے وہ خاموشی سے قدیم گلی محلوں سے گزرتا ہوا اپنی عارضی قیام گاہ کی طرف چلتا رہا۔

ایسی ہی ایک سڑک پر، پرانے زرد مکانوں کے درمیان، ایک پتلی سی گلی تھی۔ ایک ایسی گلی جو اس شہر میں آگے جا کر اچانک کسی چھپے ہوئے فوارے والے چوراہے پر، باروق طرز تعمیر والے گرجا گھر یا پھر کسی ایسی ویران جگہ میں نکلتی ہو جہاں قیمتی خزانہ دفن ہوتا ہے۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ اکیلا ہے لیکن ایک خاتون پہاڑی ڈھلوان کے راستہ سے اس کی طرف چلی آ رہی تھی۔ اس خاتون کے قریب آنے پر جب مسافر نے بغور دیکھا تو اسے اندازہ ہوا کہ عورت کا لباس بہت نفیس اور عمدہ تھا۔ اس حسین خاتون کے انداز میں مخصوص شاہانہ لاطینی جھلک تھی اور وہ بہت پروقار چال میں آگے کو بڑھ رہی تھی۔ اس نے چہرے پر ایک نقاب گرا رکھا تھا۔ اس کے باوجود یہ اندازہ لگانا کسی طور بھی ناممکن نہ تھا کہ وہ خوب صورت نہ ہوگی۔ اس حسین خاتون کے قرب کے احساس نے نوجوان پر اداسی کی کیفیت طاری کر دی۔

جب وہ حسینہ اس کے بہت قریب سے گزری تو ایک ایسی طلسماتی علامت کی طرح دکھائی دی کہ جس کی مہم جوئی سے اس کی شام خالی رہی تھی۔ نوجوان نے اپنے آپ کو بدقسمت محسوس کیا، جیسے گندی نالی کا کیڑا، چھوٹا سا، ڈوبا ہوا، قابل رحم۔ اس نے اپنے کندھے سکیڑتے اور آنکھیں جھکاتے ہوئے ایک نظر اس حسینہ کو دیکھا تو وہ ایک لمحہ کے لیے حیران ہوا اور تھم سا گیا اور اس کے چہرے کی طرف غور سے دیکھنے لگا، اس کی حیرانی مزید بڑھ گئی۔ یقیناً اسے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی تھی۔ وہ حسین خاتون مسکرا رہی تھی۔ اور وہ بھی شاید ہچکچاتے ہوئے رک گئی۔ اچانک اسے اک خیال گزرا اور ایک لفظ اس کے سامنے ابھرا، فاحشہ؟

لیکن نہیں یہ ویسی مسکراہٹ تو نہیں ہے، اگرچہ اس مسکراہٹ میں پیار کی بھی کوئی رمق نہیں تھی۔
حیران کن طور پر وہ بولی۔

” میں۔ میں جانتی ہوں مجھے آپ سے پوچھنا تو نہیں چاہیے۔ لیکن اس خوب صورت شام میں شاید آپ بھی اکیلے ہیں، جس طرح میں اکیلی ہوں۔“

وہ بہت حسین تھی۔ نوجوان میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اس رعب دار حسن کے روبرو وہ جواب دے سکتا۔ لیکن ایک انجانی سی خوشی کے بل پر وہ مسکرا اٹھا۔ کچھ تامل کے بعد اپنی بات جاری رکھتے ہوئے اس نے کہا:

” میرے خیال میں۔ شاید۔ ہم ایک ساتھ چلتے ہیں، ایک جام۔“

آخر کار نوجوان نے اپنی حالت پر قابو پاتے ہوئے کہا: میرے لیے اس سے زیادہ خوشی کی کیا بات ہو سکتی ہے۔ اور وینیتو یہاں سے چند قدموں کے فاصلے پر ہے۔

وہ پھر مسکرائی: میرا گھر بھی یہاں پاس ہی ہے۔
دونوں خاموشی سے گلی میں چلتے ہوئے واپس اس موڑ پر آئے جہاں سے نوجوان پہلے بھی گزرا تھا۔
اس جانب، خاتون نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے رہنمائی کی۔

اور وہ اس کے بتائے ہوئے راستے کی طرف چلنے لگے۔ وہاں چھوٹے مکانات کے ختم ہونے پر ایک تنگ راہ گزر تھی۔ اس تنگ راہ میں باغ کی دیوار کے پیچھے ایک شاندار محل نما حویلی تھی۔ خاتون کے چہرے پر زردی مائل سی متجسس چمک تھی۔ دلفریب سرمئی آنکھیں، گھنی سیاہ بھنویں اور ملائم چمکدار بال تھے۔ وہاں پہنچ کر اس نے باغ کے گیٹ میں لگے قفل میں چابی گھمائی تو مخملی لباس پہنے ایک خادم نے ان کا استقبال کیا۔ ایک بہت وسیع عالی شان استقبالیہ کمرے میں، جو قیمتی بلور کے فانوسوں سے روشن تھا اور آگے سبز نرم گھاس جو فوارے کے پانی سے تر ہو رہی تھی، وہاں ان کو جھاگ سے بھرے شراب کے جام پیش کیے گے۔ وہ باتیں کرتے رہے۔ یہ ایک گرم رومانوی رات تھی، برف کی ڈلی والی شراب دونوں کے اندر محبت کی جوت جلا رہی تھی۔ لیکن نوجوان کچھ لمحوں بعد کھوجنے والی نگاہوں سے خاتون کو دیکھتا جاتا تھا۔

اپنی اداؤں، دندان اور نگاہوں کے خفیف بدلتے زاویوں سے وہ قربت کی خواہش کو بڑھاوا دے رہی تھی، جو کہ آنے والے وقت کی لذت کے امکان کو ظاہر کر رہے تھے۔ نوجوان نے محسوس کیا کہ اسے اب احتیاط برتنی چاہیے۔ اس نے آنے والے وقت کو بھانپتے ہوئے یہ طے کیا کہ اس کا بہترین سلیقہ یہ ہے کہ خاتون کی مہمان نوازی کا شکریہ ادا کر دیا جائے۔ اس نے جیسے ہی اس بات کا اظہار کیا، ویسے ہی خاتون نے پہلے تو اسے مسکراتے ہوئے روکنا چاہا، پھر اداس نظروں سے اسے دیکھا اور ملتجی انداز میں کہا، کہ وہ اپنے آپ کو کسی الجھن میں نہ ڈالے، وہ جانتی تھی کہ جو کچھ بھی ہو رہا تھا وہ سب بہت عجیب تھا اور نوجوان کو کوئی شک بھی ہو سکتا تھا۔ لیکن سچ تو صرف یہ تھا کہ وہ تنہا تھی، یہ بات اس نے بہت شائستگی سے کہی۔ شاید اس نوجوان میں کوئی ایسی خاص بات تھی یا ہو سکتا ہے شام کے دھندلکے میں گلی میں چلتے ہوئے وہ اس خاتون کو پرکشش دکھائی دیا ہو، وہ بالکل بے اختیار ہو چکی تھی۔

نوجوان اسے ایک اتفاقیہ ملاقات کے طور پر لیتے ہوئے اپنے خواب سے تعبیر کر رہا تھا۔ ایک ایسا خواب جو تمام عمر فریب دے۔ اور اب اس غلط فہمی کا ازالہ کرتے ہوئے اس نے فیصلہ کر لیا تھا۔ اس کی خوشی بے قابو اور دیدنی تھی۔ اس نے خاتون پر مکمل یقین کر لیا تھا۔ اور اسے ہر چیز تکمیل کی جانب بڑھتی ہوئی دکھائی دی۔ میزبان خاتون کی دعوت پر اس نے رات کا کھانا وہیں کھایا۔ خدام لذت بھرے طعام پیش کر رہے تھے، ان میں مچھلی، گوشت، انواع اقسام کے پھل شامل تھے۔ عشائیے کے بعد وہ آنگن میں ہی قدرے ٹھنڈی جگہ پر ایک لمبی نشست پر بیٹھ گئے۔ سرور آور عمدہ شراب پیش کی گئی اور خدام کو واپس بھیج دیا گیا۔ گھر میں ہر طرف گہری خاموشی چھا گئی اور انہوں نے ایک دوسرے کو بانہوں میں بھر لیا۔

کچھ دیر بعد حسینہ نے نوجوان کا ہاتھ تھاما اور وہ خواب گاہ کی طرف چل دیے۔ دونوں کے درمیان ایک گہرا سکوت طاری تھا۔ نوجوان کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ سنگ مرمر سے بنے ہال کمرے سے گزرتے ہوئے اس کے دل کی دھڑکن گونج پیدا کر رہی تھی۔ وہ اس دھڑکن کو محسوس کر رہا تھا جو اس کے ہاتھ سے اس حسین خاتون کے ہاتھ میں منتقل ہو رہی تھی۔ وہ بھی اسے محسوس کر رہی تھی۔ جذبات کی یہ لہر اب گمان سے یقین کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اس بات کا یقین کہ اس مسحور کن رات میں اب کوئی اندیشے والی بات نہ ہو گی۔ اس کے متعلق بات کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ دونوں نے پر شوکت زینے کو طے کیا۔

خواب گاہ میں مختصر ریشمی پوشاک پہنے خاتون کا نیم عریاں بدن پلنگ کے گرد لگے جالی دار پردوں سے دیکھ کر نوجوان اس کی محبت میں ڈوب سا گیا۔ ایسی محبت جو امر رہے گی ہمیشہ رہنے والی کامل محبت ایسی محبت جس میں سرشاری ہو۔ جیسی کہ یہ افسانوی ملاقات ہے۔

مدہوش و ملائمیت بھری آواز سے حسینہ نے اس کی محبت کا جواب دیا۔
ہاں اب کچھ بھی غلط نہ ہو گا، کوئی بھی بات درمیان نہ آئے گی۔

بہت نفاست سے اس حسینہ نے بستر کی چادر کو نیچے کی جانب سرکاتے ہوئے اسے اپنے قریب ہونے کو کہا۔ اس لمحے جب وہ اس کے پہلو میں لیٹ چکا اور اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے چومنے ہی والا تھا تو وہ تھم گیا۔

شاید کچھ درست نہیں تھا۔ کہیں کوئی کمی رہ گئی تھی۔

اس نے غور کیا تو اسے محسوس ہوا کہ غلطی اس کی اپنی ہی تھی۔ پلنگ کے پاس والے لیمپ میں تو مدھم روشنی تھی لیکن وہ اتنا لاپروا ہو گیا تھا کہ اس نے چھت کے درمیان لٹکا ایک بڑا اور روشن فانوس نہیں بجھایا تھا۔ اسے یاد آیا کہ اس فانوس کا سوئچ بٹن دروازے کے پاس ہی ہے۔ ایک لمحہ کے لیے وہ ہچکچایا تو اس کی محبوبہ نے اپنی مخمور پلکیں اٹھائیں اور اسے فانوس کی طرف دیکھتے ہوئے وہ سمجھ گئی۔ اس کی آنکھوں میں ایک چمک تھی اس نے نشیلی آواز میں کہا۔

”میرے محبوب! تم پریشان مت ہو، تم میری آغوش سے دور نہ جاؤ۔“

اس کی محبوبہ نے اپنا ہاتھ بڑھایا، اس کا ہاتھ آگے کی جانب بڑھنا شروع ہوا، اس کا بازو لمبا ہوتا گیا اتنا لمبا کہ بستر کے پردے سے باہر نکل کر، لمبے قالین سے ہوتا ہوا آگے کو بڑھنے لگا۔ اب پورے کمرے میں اس کے بازو کا سایہ پھیل گیا تھا۔ یہاں تک کہ اس دیو نما بازو کی لمبی ترین انگلیاں اب دروازے کے قریب لگے اس سوئچ بورڈ تک پہنچ گئی تھیں۔

اچانک کھٹ کی آواز کے ساتھ اس نے سوئچ آف کیا اور فانوس بجھا دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments