جی ہاں، زندہ ہے، بھٹو زندہ ہے!


مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اگرچہ روز اول سے ہماری سیاست میں ’’زبان و بیان‘‘ کا بہت غلط استعمال ہوتا رہا ہے، مگر ’’اللہ کو جان دینی ہے‘‘ والی تحریک انصاف میں زبان درازی کی بہت ’’ادنیٰ‘‘ قسم کی مثالیں پیش کی گئیں، ہمارے ان دوستوں نے کسی کی ماں بہن، بیٹی کے لئے وہ زبان استعمال نہیں کی جو ہمارے کلچر میں غیروں کی مائوں بہنوں اور بیٹیوں کے احترام کے ضمن میں استعمال کی جاتی ہے، انہوں نے زندوں کے علاوہ ان شخصیات کو بھی نہیں چھوڑا جو قوم کے ایک وسیع طبقے کے دلوں میں بستے ہیں، اس کی ایک مثال ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی بھی ہے،جن کا عدالتی قتل ہوا، چنانچہ ان کی پارٹی نے احتسابی طور پر ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ کا سلوگن اپنے کارکنوں کو دیا، مگر انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس سلوگن کی آڑ میں مرحوم کی تذلیل وسیع پیمانے پر کی گئی۔ مثلاً یہ کہ اگر بھٹو زندہ ہے تو ابھی تک اس کی ویکسی نیشن کیوں نہیں کی گئی وغیرہ وغیرہ۔ اب ان پڑھے لکھے لوگوں کو کون سمجھائے کہ بھائی ہمارے ہاں :

دشمن مرے تے خوشی نہ کریئے

سجناں وی مر جاناں

والا شعر روز مرہ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے مگر اسلام آباد کے ڈی چوک میں سکھائی گئی زبان کے زیر اثر کسی مرحوم کو بھی کیسے بخشا جاسکتا تھا!

یہاں میں وضاحت کر دوں کہ میں پی پی پی اور اس کےلیڈر بھٹو کی پالیسیوں سے نہ صرف یہ کہ کبھی متفق نہیں رہا بلکہ ان کے دور حکومت میں ان کا شدید مخالف رہا ہوں۔ اس مخالفت کی وجہ وہی فاشزم تھا جس کی بنیاد پر میں موجودہ حکومت کا بھی نکتہ چیں ہوں۔ اس دور میں سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں اور کارکنوں پر شدید ظلم کیا گیا، اور تو اور اپنی پارٹی کے بنیادی رہنما جے اے رحیم کو بھی کسی اختلاف پر ٹھڈے مارے گئے۔ اس کے علاوہ ان کی طرف سے صنعتوں کو قومیانے کی پالیسی نے ایوب خان کے دور کے واحد اچھے کام یعنی صنعتوں کے قیام کا انجر پنجر ہلا کر رکھ دیا ، چنانچہ پی پی پی کے پورے دور میں، میں نے ڈٹ کر حکومت کی مخالفت کی، جس پر ان کی ایک طرح کی دہشت گرد تنظیم ایف ایس ایف کے سربراہ مسعود محمود کی طرف سے مجھے ایک دھمکی ان الفاظ کی صورت میں پہنچائی گئی کہ ’’تم ابھی نوجوان ہو اور زندگی خوبصورت ہے‘‘ جس کا جواب میں نے انتہائی غیر پارلیمانی زبان میں دیا، وہ تو سترہ دن بعد ان کی حکومت چلی گئی ورنہ میں آج یہ کالم نہ لکھ پاتا کہ لحد میں تو لکھنے پڑھنے کا ’’ماحول‘‘ نہیں ہوتا، وہاں تو صرف فرشتوں کے سوالوں کا جواب دینا ہوتا ہے! تاہم واضح رہے یہی مسعود محمود، بھٹو کے خلاف سلطانی گواہ بنا اور انہیں تختہ دار پر پہنچا کر خود امریکہ چلا گیا۔ شاید اب تک وہ مر کھپ گیا ہو۔ لیکن اگر وہ زندہ ہے تو یقین جانیں وہ زندہ نہیں ہے، زندہ بھٹو ہے جسے اس نے پھانسی کے تختے تک پہنچایا تھا۔

بھٹو کیوں زندہ ہے؟ اس لئے کہ اس نے اگرچہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں اپنا حصہ ڈالا، وہ فاشسٹ بھی تھا، اس نے نیشنلائزیشن سے پاکستان کی ابھرتی ہوئی صنعتی طاقت کو کمزور کیا، مگر اس کے نامۂ اعمال میں بہت سی نیکیاں بھی ہیں، اس نے کمزور پاکستان کو دشمنوں کی نظر بد سے بچانے کے لئے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی اور نواز شریف نے دھماکے کرکے انڈیا کی بولتی بند کردی، اور یوں آج پاکستان عالم اسلام کی واحد ایٹمی پاور ہے، اس نے جاگیرداری کو ختم کرنے کی تھوڑی بہت کوشش بھی کی، اس نے پاکستان میں روس کے تعاون سے پہلی اسٹیل مل بھی بنائی، تاہم اس کا ایک بہت بڑا کارنامہ پاکستان میں عالم اسلام کے رہنمائوں کو اکٹھا کرکے ایک تو عالم اسلام کی طاقت کا مظاہرہ تھا اور دوسرے انہیں یورپ کی ہمہ جہت برتری کے مقابلے میں عالم اسلام کے تیل کے چشموں کو بطور ہتھیار استعمال کرنا بھی تھا، مگر اس کے پلانر بھٹو اور دوسرے انقلابی رہنمائوں شاہ فیصل، قذافی اور صدام حسین کو باری باری ’’نشان عبرت‘‘ بنا دیا گیا۔ اس کے علاوہ بھٹو نے اپنی زبردست خارجہ پالیسی سے، انڈیا نے دوران جنگ جن پاکستانی علاقوں پر قبضہ کیا تھا، وہ قبضہ واپس چھڑوایا بلکہ ہزاروں فوجی اور سویلین قیدی بھارت کی قیدسے رہا بھی کرائے جو ڈھاکہ میں جنرل نیازی کے ہتھیار ڈالنے کے بعدبھارت اپنے ساتھ لے گیا تھا۔

سو اگرجنرل نیازی کو اس کے مرنے کے بعد پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر پورے اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا اور دوسری طرف ذوالفقار علی بھٹو کو ان کی بے گناہی کی سزا پھانسی کی صورت میں دی گئی اور ان کی نماز جنازہ میں چند اہلِ خانہ کے سوا کسی کوشرکت کی اجازت نہ تھی، مگر اس کے باوجود نیازی جب مرا تو وہ واقعی مر گیا، مگر بھٹو نے اپنا سر نہ جھکایا اور پوری شان سے مقتل کی طرف گیا تو میں کیسے نہ کہوں کہ بھٹو زندہ ہے، جی ہاں زندہ ہے،بھٹو زندہ ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments