مشکل کیوں نہ ہو


نہیں جناب یہ تو بہت مشکل ہے۔ اب کون اتنا جوکھم اٹھائے۔ کوئی آسان کام بتائیں۔ نہیں سر۔ اتنی پابندی والا کام مجھ سے نہیں ہو گا۔ اس کام میں تو بہت وقت لگے گا کوئی شارٹ کٹ بتائیں۔ نہیں۔ کہاں۔ یہ تو بہت صبر آزما کام ہے۔ نہیں اس کام میں تو بہت محنت ہے۔ اچھا اب شہر سے باہر بھی جانا / رہنا پڑے گا؟ نہ۔ یہ مجھ سے نہیں ہو گا۔ نہیں سر۔ اس کام میں تو بہت سے لوگوں کو ڈیل کرنا پڑے گا، کون اتنا کر سکتا ہے؟

یہ نمونے کے طور پر لئے گئے وہ جوابات ہیں جو ہمیں اپنے معاشرے میں کسی بے روزگار فرد کو کوئی کام تجویز کرنے یا کسی ناکامیاب شخص کو کا میا بی کی جانب مائل کرنے کے بعد عام طور پر سننے کو ملتے ہیں۔

اس وقت بڑی کوفت ہوتی ہے کہ جب نوجوان اپنی بیروزگاری اور ناکامیابی کا دکھڑا سنا کے ملک، حکومت، معاشرے، والدین حتیٰ کہ اپنے بہن بھائیوں کو کوسنا شروع کر دیتے ہیں اور جب ان کے حالات کے موافق کوئی کام، کوئی راستہ تجویز کر دیں۔ تو اوپر مذکور جوابات سننے کو ملتے ہیں۔

ہر وہ فرد جو اس ڈگر پر سوچتا ہے کہ کامیابی بس یوں ہی ملے، اعلیٰ مقام و مرتبہ بنا کچھ کیے ہی حاصل ہو، ناموری ہاتھ پیر ہلائے بغیر ہی ان کی ہو جائے۔ ہر وہ شخص جو مشکل کا سامنا کرنے، پابندی کرنے، جوکھم اٹھانے، وقت دینے، صبر کرنے، محنت کرنے، سفر کرنے، گھر چھوڑنے، لوگوں اور حالات کا سامنا کرنے سے جی کتراتا ہو اور آسانی، شارٹ کٹ اور مفت کی تلاش میں ہو ان سے گزارش ہے کہ جناب والا ایسا نہیں ہے۔ ازراہ کرم آپ اپنی اصلاح کیجئے۔

کیونکہ جو کوئی بھی ایسے سمجھتا ہے کہ دن رات اور خون پسینہ ایک کیے بغیر، مسلسل محنت شاقہ کے بغیر، ٹوٹ جانے، اکیلے ہو جانے، رشتے کھو دینے، دھوکے کھا لینے، نقصانات اٹھائے بغیر بڑی کامیابی حاصل ہو، بڑا مقام، بڑا مرتبہ ملے، بڑی دولت ملے، نامور ہو جائیں۔ سب کچھ حاصل ہو جائے تو یہ خام خیالی ہے۔ خام خیالی کیا۔ خلل ذہن ہے۔

یاد رکھیں کامیابی کوئی گری پڑی چیز نہیں ہے جسے کوئی بھی نا اہل اچک لے، کامیابی کوئی کچرا نہیں جسے کوئی بھی ہیروئنچی چن لے، کامیابی کوئی پکا ہوا پھل نہیں جو کسی بھی کاہل کی جولی میں گرے پڑے، کامیابی معذور ہرن نہیں جسے کوئی کتا ہی شکار کر لے، کامیابی کوئی مردہ جانور نہیں جسے حرام خور گدھ نوچ لیں۔ نہیں۔ ہرگز نہیں۔ کامیابی، عزت، عظمت، اعلیٰ مقام، بلند مرتبہ، اونچی شان، بڑا نام یہ نا اہلوں کے لئے نہیں ہیں، یہ کاہلوں کے لئے نہیں ہیں، یہ حرام خوروں کے لئے نہیں ہیں۔

عزت و عظمت، بلند مقام و مرتبہ اور کامیابی۔ دن اور رات کو ایک کرنے والوں، خون اور پسینے کو ایک کرنے والوں، میدانوں کے سینے چیرنے کی ہمت رکھنے والوں، ناقابل تسخیر پہاڑوں کا غرور توڑنے کا عزم رکھنے والوں، سمندروں کی اتھاہ گہرائیوں میں قدم جمانے کا حوصلہ رکھنے والوں، دریاؤں کے سامنے ڈٹ جانے والوں، تنہا سیاہ ٹھٹھرتی راتوں میں خوف کا مقابلہ کرنے والوں، بار بار گر کر پھر اٹھ جانے اور بھڑ جانے والوں، لہو لہان ہو کر بھی منزل کی جانب چلتے رہنے والوں، وجود ٹوٹ جانے کے باوجود حوصلہ برقرار رکھنے والوں، کسی بھی صورت ہار نہ ماننے والوں، کے قدموں میں ڈھیر ہوتی ہے۔

نہیں۔ یہ نااہلوں کے لئے نہیں ہے، یہ کاہلوں کے لئے نہیں ہے، یہ حرام خوروں کے لئے نہیں ہے۔ ہرگز نہیں

ذرا سوچئے۔ کامیابی آسان کیوں ہو؟ کوئی بھی بڑی منزل بنا جوکھم کے کیونکر حاصل ہو؟ کوئی اعلیٰ مقام بغیر محنت کیے کیوں میسر ہو جائے؟ کوئی بلند مرتبہ جہد مسلسل کے بغیر کیوں ملے؟ اگر ایسا ہو کہ ہر نا اہل کو بنا کچھ کیے پلیٹ میں کامیابی ملنا شروع ہو، ہر کاہل کو ہلے بغیر اعلیٰ مقام ملے، حرام خوروں کو گدھوں کو بھی ہرن ہی کھانے کو ملے۔ اگر ایسا ہو کہ ایک شخص ایک ہزار میٹر کی دوڑ کے لئے مسلسل ایک ہزار دن خود کو ہلکان کر کر کے تیاری کرے اور ایک دوسرا شخص جو ایک دن بھی تیاری نہ کرے اور دونوں ایک ساتھ ریس ٹریک پر آ جائیں تیاری کرنے والا اشارہ ملتے ہی دوڑ پڑے جبکہ تیاری نہ کرنے والا ایک قدم بھی نہ اٹھائے اور یوں ہی انگڑائیاں لیتا کھڑا رہے، بس ادھر ادھر گھومتا گھماتا رہے، بے فضول تماشائیوں کو دیکھ کر ہاتھ ہلاتا رہے۔ جب اصل اتھلیٹ چند منٹ میں ایک ہزار میٹر کا فاصلہ طے کر کے پھولی ہوئی سانسوں، جلتے پھیپھڑوں اور شل ہوئے ہوئے اعصاب کے ساتھ آئے تو دونوں ساتھ کھڑے ہوں اور نتیجے کا اعلان دونوں کو ہی وکٹری اسٹینڈ پر کھڑا کر دے۔

اگر ایسا ہو تو کامیابی تو پھر کامیابی نہیں رہی نہ۔ امتیاز تو پھر امتیاز نا رہا نہ۔ نہیں۔ ایسا نہیں ہو گا کہ کیونکہ یہ دنیا کی ریت نہیں، یہ زمانے کا چلن نہیں کیونکہ، سیاہ۔ سفید نہیں۔ سفید۔ سیاہ نہیں، خوشبو۔ بدبو نہیں۔ بد بو۔ خوشبو نہیں۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہو گا کہ اہل اور نا اہل ایک برابر ہوجائیں۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہو گا کہ شیر اور گدھ دونوں ہی ہرن کھائیں۔ شیر اپنی بھوک مٹانے کے لئے گھات لگائے گا، دوڑے گا، ہلکان ہو گا اور شکار کر کے ہرن کا تازہ گوشت کھائے گا جبکہ گدھ چونکہ شکار نہیں کر رہا، ہلکان نہیں ہو رہا اس لئے وہ مرے ہوئے چوہے کھائے گا۔ اور یوں شیر بادشاہ اور گدھ مردار خور کہلائے گا۔ ایک ہزار دن تک مسلسل مقابلے کی تیاری کرنے والا اور ایک کاہل دونوں ایک ساتھ وکٹری اسٹینڈ پر کھڑے نہیں ہوں گے، وکٹری اسٹینڈ صرف جیتنے والے کے قدم چومے گا ہر نااہل اور کاہل کے نہیں۔

یاد رکھیں کامیابی کا حسن یہی ہے کہ یہ مشکل ہے، اس کی خوبی یہی ہے کہ اسے حاصل کرنا آسان نہیں، اس کا طرہ امتیاز ہی یہی ہے کہ یہ صرف مسلسل محنت کی بھٹی میں جل کر کندن ہوئے لوگوں کا سہرا بنتی ہے، کامیابی کی اصل یہی ہے کہ یہ اصل لوگوں کو ملتی ہے، کامیابی کا خاصہ یہ ہے کہ یہ بہترین کو ملتی ہے، محنت کرنے والے کو ، ہمت کو جواں رکھنے والے کو ، مشقت اٹھانے والے کو ، ہر طرح کے باد مخالف کو اپنے سینے، اپنے اعصاب، اپنی روح اور اپنے احساس پر حوصلے کے ساتھ جھیلتے ہوئے استقامت سے آگے بڑھنے والے کو ملتی ہے۔

یہ۔ یہ کامیابی اس کو ملتی ہے جو اپنی پوری قوت کو اپنی تمام طاقت کو اپنے پورے آپ کو بروئے کار لا کر اپنی بہترین صورت میں ظہور پذیر ہوا ہو، اور ہاں یہی وہ نقطہ ہے جہان سکہ بجتا ہے جہاں کھرے اور کھوٹے کی پہچان ہوتی ہے، یہی مشکلات کا سامنا کرنا طے کرتا ہے کہ کس نے کروڑوں دلوں کی دھڑکن نیلسن منڈیلا بن کر محسن قوم بننا ہے اور کس نے گمنامی میں کھو جانا ہے، یہی مسلسل محنت کی بھٹی میں جلنا ہی طے کرتا ہے کہ کس نے محمد علی کلے بن کر امر ہونا ہے اور کس نے بس آرزو ہی کرتے رہ جانا ہے، یہی اپنے ٹوٹتے حوصلے کو سنبھالنا، یہی ہر قدم پر رکاوٹوں میں اٹکنا، گرنا، اٹھنا، دوبارہ گرنا، خود کو اور اپنے خوابوں کو بکھرنے سے بچانا، پھر اٹھنا، سنبھلنا اور آگے بڑھنا استقامت کے ساتھ بڑھتے چلے جانا ہی طے کرتا ہے کہ کس نے تاریخ کا رہبر بن کر خان عبدالغفار خان بننا ہے اور کس نے پیوند خاک ہونا ہے، یہی پر تو طے ہوتا ہے کہ کس نے بل گیٹس، وارن بفٹ، ایلون مسک اور جیف بیزوس جیسے امیر ترین بننا ہے اور کس نے اپنی بنیادی ضروریات کے لئے رونا ہے۔

کامیابی اگر آسان ہو جائے اگر یوں ہی ریوڑیوں کی طرح ملنا شروع ہو جائے تو ہر کاہل رونالڈو بن جائے، ہر نا اہل آئین سٹائن بن جائے، ہرن کتوں کی خوراک بننا شروع ہوجائیں۔ نہیں۔ کامیابی کی آسانی کی خواہش مت کیجئے بلکہ آپ خود کو مضبوط بنائیں، مشکل کا سامنا کرنے سے نہ گھبرائیں، جوکھم اٹھانے سے مت بھاگیں، آسانی کی طلب چھوڑ دیجئے، پابندی کیجئے، وقت لگائیں، شارٹ کٹ مت مانگیں، صبرو استقامت کا دامن تھامے رکھیئے، سفر کرنا، اکیلے رہنا، طرح طرح کے لوگوں سے ڈیل کرنا سیکھئے گوارا کیجئے۔

کامیابی کے راستے میں آنے والی مشکلات سے مت گھبرائیے یاد رکھیں کامیابی کے راستے میں آنے والی مشکلات کامیابی کا حسن ہیں اس کی خوبی ہے کیونکہ یہ مشکلات ہی انسان کو اس کے بہترین وجود میں ظہور بخشتی ہیں، کامیابی کا معیار کم ہونے کی خواہش نہ کریں بلکہ اپنا قد کامیابی کے لیول تک لے جائیں، کامیابی کی آسانی کی خواہش کی بجائے اپنے علم و ہنر اپنی استعداد کو اس مقام تک لے جائیں جہاں آپ اپنی بہترین صورت میں سامنے آئیں اور کامیابی خود آپ کا استقبال کرے۔

پراچین میں جب بانس کے درخت کے بیج کو بویا جاتا ہے تو یقیناً جیسے ہر جگہ ہر بوئے ہوئے بیج کو پانی و دیگر سہولیات فراہم کی جاتی ہیں اسی طرح اس بانس کے بیج کا بھی ویسا ہی خیال رکھا جاتا ہے۔ جس طرح کسی بھی جگہ کوئی بھی بیج بوئے جانے کے بعد چند دن، چند ہفتے حتیٰ کہ چند مہینے میں پھوٹ پڑتا ہے اور اپنی ہیئت کے مطابق کچھ عرصہ میں پودا بن کر یا درخت بن جاتا ہے مگر پراچین کے بانس کا یہ بیج دن، ہفتے، مہینے حتیٰ کہ سال گزر جانے کے باوجود نہیں پھوٹتا مسلسل آبیاری جاری ہونے زمین نرم کیے جانے ہر طرح سے پرورش کیے جانے کے باوجود یہ بنا پھوٹے اپنی بوائی کے دوسرے سال میں داخل ہوجاتا ہے اور ایک سال پورا ہونے پر بھی سطح زمین پر اس کے کوئی آثار نہیں ہوتے دوسرے سال بھی اس کی پرورش کی جاتی ہے سال مکمل ہوجاتا ہے مگر یہ بیج ابھر نہیں پاتا تیسرا سال شروع ہوجاتا ہے پرورش جاری ہے سال مکمل ہوجاتا ہے مگر اس سال بھی سطح زمین ویسی ہی سونی دکھائی دے رہی ہوتی ہے جیسے یہ بوائی سے پہلے تھی چوتھا سال شروع ہوجاتا ہے پورا سال آبیاری جاری ہے اتنی ہی محنت ہو رہی ہے جتنی کہ ایک بیج کو درکار ہے مگر چوتھا سال مکمل ہو جانے پر بھی نہ سطح زمین میں کوئی حرکت ہوتی ہے نہ ہی سبزے کے کوئی آثار دکھائی دیتے ہیں چار سال قبل بوئے گئے بانس کے اس بیج کا زمین کے اندر پانچواں سال شروع ہوجاتا ہے پرورش جاری ہے سال آدھا گزر جاتا ہے کوئی آثار نہیں سال کے تین حصے گزر جاتے ہیں کوئی آثار نہیں حتیٰ کہ سال اختتام پذیر ہونے لگتا ہے اور اس اختتام پر پانچ سال کے طویل عرصہ تک زمین کے اندھیروں میں دفن رہنے والا بیج بل آخر زمین کا سینہ چیر کر نکل آتا ہے اور جب یہ زمین کے اندھیروں سے نکل آتا ہے تو آسمان کی جانب اس کی اٹھان دیکھنے لائق ہوتی ہے پانچ سال تک زمین کے اندھیروں سے نکلنے کی جدوجہد کر نے والا بیج، سورج کی تمازت سہنے اور بلندیاں پانے کی تیاری کرنے والا بیج جب پھوٹ پڑتا ہے تو صرف پانچ ہفتے میں نوے فٹ تک کا قد حاصل کر لیتا ہے اور دنیا کے قدآور ترین درختوں میں سے ایک شمار ہونے لگتا ہے۔

بانس کے بیج سے پھوٹنے والی کونپل صرف پانچ ہفتے میں آسمان کو چھونے لگی، کیا یہ پانچ ہفتے کی بات تھی؟ یقیناً نہیں یہ محض پانچ ہفتے کی بات نہیں تھی یہ ان پانچ سالوں کی بات ہے جو اس بیج نے زمین کے اندھیر سینے میں گزارے، یہ بیج زمین سے تو باہر نہیں نکلا مگر زمین کے اندر رہ کر باہر نکلنے کی تیاری کرتا رہا اپنی جڑیں زمین کے سینے میں اتارتا رہا، اپنی عظیم انچائی کے لئے بنیاد بناتا رہا۔ اس بیج نے پانچ سال زمین کے اندھیرے میں گزارے تب ہی اس کی جڑیں اتنی گہری گئیں، جڑوں کی گہرائی ہی کی بدولت وہ اتنی بلندی پا سکا ہے اور اسے برقرار رکھنے کی قوت مجتمع کر پایا ہے۔

اسی طرح انسانی زندگی اور کامیابی ہے، آپ نے مشکل ترین حالات میں رہ کر اپنی منزل پر پہنچنے کے لئے کام کرتے رہنا ہے، اپنی کامیابی کو بنیاد فراہم کرنی ہے، اپنی اونچی اٹھان کے لئے اپنی جڑوں کو گہرا تر کرنا ہے۔ آسانی کی خواہش مت کیجئے۔ آسان نہیں ہو گا۔ کامیابی حاصل کرنا آسان نہیں اور اسے آسان ہونا بھی نہیں چاہیے تاکہ اسے صرف وہ حاصل کر سکیں جو اس کے اہل ہوں، جن میں ہمت ہو، حوصلہ ہو، جن میں جوش ہو، جنون ہو، جو سر پھرے ہوں، جدوجہد کرنے والے ہوں، جو اہل کردار ہوں۔ جی ہاں، یہی دنیا کی ریت ہے، زمانے کا چلن ہے، قانون فطرت ہے اس سے خود کو ہم آہنگ کر لو اور ڈالو ستاروں پر کمندیں اور مسخر کر لو کائنات کو ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments