مفت مشوروں کی پٹاری


دروازے پر گھنٹی بجی. مدد گار چھٹی پر تھی. اس لئے وہ کچن سے مرکزی دروازے کی طرف بھاگی. اور کاؤنٹر پر پڑا اس کا ناشتہ وہیں دھرا ہے. اوون کی بتی تک جل رہی ہے جس کو وہ جلدی میں بند نہیں کر سکی. لونگ اور کچن دونوں بظاہر سمٹے لیکن اگر باریک نظر سے دیکھیں تو ابھی تفصیلی صفائی باقی ہے. گھر کے افراد کوصبح دم رخصت کرنے کے بعد, خود وہ بھی ایک میٹنگ کرنےگئی تھی. جہاں سے ابھی واپسی ہوئی تھی. اس لئے باقاعدہ ناشتے کم دوپہر کے کھانے کی باری بھی اب آئی تھی کہ دستک ہو گئی.
گیٹ کھلا اور سامنے ہمسائے سے آنٹی تھیں جن سے سیر کے دوران ملاقات ہوتی رہتی ہے اور کبھی کبھار آپس کا آنا جانا بھی ہے. محلے داری کے تقاضے اچھے سے پورے ہوتے ہیں. خیر! آنٹی کو لئے وہ اندر آگئی. لونگ روم میں بیٹھنے سے پہلے وہ سرسری لیکن گہری نظروں سے سب طرف کا جائزہ لے چکی تھیں. بیٹھتے ساتھ کہتی ہیں کہ آپ اس دفعہ کچھ ہیلتھی لگ رہی ہیں اور میں جو ابھی صحیح طرح سے بیٹھی بھی نہ تھی, یوں انھیں دیکھنے لگی.. جی! میرے جواب سے پہلے ہی وہ دوبارہ مخاطب ہوئیں کہ آپ جو بیماری میں دوائی استعمال کرتی رہی ہیں, شائد اس کا اثر ہو. اور میں بے چارگی اور حیرانی سے انھیں دیکھتے ہوئے کہتی ہوں کہ کونسی دوائی؟
بعد اس کے, وہ جس مقصد سے آئیں تھیں, وہ بیان کرنے لگیں. کہ اچانک کہتی ہیں, کچھ وقت نکالیں آپ لوگ اور اس بارے میں سوچیں. میں, کس بارے میں؟ بولیں ایک بچہ تو اور ہونا چاہیے. آپ دونوں تو بڑے بے فکرے ہیں. بالکل ہی اپنے پروفیشن میں لگے ہوئے ہیں. آپ کا تو چھوٹے والابچہ بھی اتنا بڑا ہو گیا ہے اور میرا دل چاہا کہ کہیں جا کے سر ماروں. آج صبح بھی ایک ایسی ہی پیشی بھگتی تھی. جن خاتون ساتھی کو پک اینڈ ڈراپ دیا تھا, وہ بھی ایسی ہی باتیں کر رہی تھیں. بلکہ ایسےایسے ذاتی سوال پوچھ رہی تھیں جو اس کے گمان تک میں نہ تھے.
 الحمد للہ! وہ صاحب اولاد تھی, معاشرے کا منہ بند کرنے کو مولا نے اسے پہلے ہی نرینہ بچوں سے نواز رکھا تھا. اور وہ دونوں میاں, بیوی تو ویسے بھی ہر حال میں خوش رہنے والے تھے. درویش صفت, سادہ مزاج اور زمانے کی دوڑ میں اپنا چلن رکھنے والے تھے. اسے اپنے بچوں کا ہونا اور صحت مند وجود ہی شکر میں مبتلا رکھتا ہے. ایک, دو, کم, زیادہ, لڑکی یا لڑکا, وہ ان خرافات میں کبھی نہیں پڑی. لیکن ہر ملنے والوں کو ان سوالوں میں بہت دلچسپی ہے. ہر جاننے, نہ جاننے والا جوابات کی کرید میں ہے. جب بھی ملیں, ایسی ٹوہ ہمیشہ لگی ہوتی ہے.
بڑی عجیب لگتی ہیں ایسی باتیں, جن سے آپ کا کوئی تعلق نہ ہو, لیکن آپ ان کی فکر میں مبتلا رہیں. وہ گمان اور سوچیں, جو کسی ہنستے بستے ذہن میں کہیں دور تک نہ ہوں لیکن آپ وہ برے خیال اورناشکری سوچیں ان خوش دماغوں میں ڈالیں. سامنے دکھائی دیتی وہ تلخ حقیقتیں, جو کوئی روح, ہر وقت اپنے زندہ جسموں میں اٹھائے, جینے کے اسباب کرے لیکن (آپ مطلقہ ہو یا بیوہ؟, آپ کی نواسی ہر وقت ادھر ہی رہتی ہے, کیا اس کے امی اور ابو نہیں؟ آپ کے بچے نہیں, شادی کو کتنے سال ہو گئے؟ اوہو! آپ کی بس بیٹیاں ہی ہیں, بیٹے کے لئے کوشش نہیں کی؟, آپ کا رنگ اتنا کالا کیوں ہو رہا ہے؟ وغیرہ, وغیرہ) جیسے سوال کر کے کسی کے کھرنڈ بنتے زخموں کو نوچ ڈالیں.
پلیز! ا س بات کو سمجھیں کہ آپ جتنے بھی دانا ہوں, کسی کے خیرخواہ ہوں, کسی کے ہمدرد ہوں. ذاتی اور پبلک گفتگو کے آداب میں فرق سیکھیں. ان معاملات کے درمیان موجود باریک لائن کا خیال خود بھی رکھیں اور اپنی آگے آنے والی نسلوں کو بھی سمجھائیں. ایسے بنیں کہ کسی کو بھی آپ سے ملنے میں دشواری نہ ہو. زخموں کو ناسور بنانے کی بجائے پھاہا رکھنے والے بنئے. مفت مشوروں کی پٹاری بسا اوقات, آپ کو نا پسندیدہ بنا دیتی ہے اور بہت دفعہ آپ کے وجود کو سوشل گیدرنگز کے لئے ان چاہا بھی.

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments