سیاست میں منفی رجحانات کا زہر


پاکستان کی سیاست کو منفی رجحانات نے دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے اقتدار کے ایوانوں سے شروع ہونے والی یہ سیاست گلی کوچوں سے ہر گھر تک پہنچ گئی اور معاشرے کی اکثریت منفی رویوں کی شکار ہو چکی ہے جس کو بھی دیکھو وہ دلیل سے بات کرنے کو اپنی توہین تصور کرتا ہے بلکہ دلیل کی جگہ گولی اور گالی نے لے لی ہے نسلوں سے چلتے ہوئے اس منفی رجحان نے ہمارے حکمرانوں سیاست دانوں اور عوام کا مجموعی تشخص مجروح کر دیا ہے اب صورتحال کچھ اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ ہر طرف بے یقینی افراتفری اور نفسا نفسی کا عالم ہے انسانیت نام کی کوئی چیز ہمارے ہاں میسر نہیں۔

منفی رجحانات کا سلسلہ قیام پاکستان کے بعد جلد ہی شروع ہو گیا تھا تاریخ کی کتابوں میں جو حقائق بیان کیے گئے ہیں ان کے مطابق اقتدار کی کشمکش نے سیاست دانوں کی ظاہری مثبت سوچ کو دھندلا دیا اور کئی چہرے جو قیام پاکستان سے پہلے نمایاں نہ تھے ملک کی تعمیر نو کرنے کے وقت سلطنت خداداد پاکستان کے دو قومی نظریہ کو کھوکھلا کرنے پر لگ گئے اور پھر نفرت کے ایسے بیج بوئے کہ ملک کے وزیر اعظم کو گولی مار کر نفرت کی فصل کی آبیاری کا آغاز کر کے سیاست میں سازش کی بنیاد رکھ دی قوم کو نہ پہلے وزیر اعظم کے قتل کے محرکات معلوم ہو سکے اور نہ اس کے بعد آنے والے حکمرانوں کی محلاتی سازشوں کا علم ہو سکا۔

پہلے وزیر اعظم کے قتل سے سے لے کر موجودہ وزیر اعظم کے خلاف ہونے والی سازشوں کو صرف تاریخ کی کتابوں میں ہی پڑھا جا سکے گا سازش کرنے والوں کے خلاف سازش ہوتی رہے گی کیوں کہ یہ قانون قدرت ہے اس سے انحراف نہیں کیا جا سکتا اور جب تک ہم اسی طرح کے منفی رویے کے شکار رہیں گے یہاں انسانیت کا قتل ہوتا رہے گا اور ہم ان کو شہید کا رتبہ دے کر ہر سال برسی مناتے رہیں گے منفی رجحان سے ہی کسی کو شہید اور کسی کو سیاسی طور پر شہید بنا دیا گیا ایک طبقہ اپنے لیڈر کو شہید کا درجہ دیتا ہے تو دوسرا طبقہ اسے غدار قرار دیتا ہے۔

تاریخ کے سفر میں کچھ اگے چلیں تو فوج نے اقتدار کی سیڑھی پر قدم رکھا اور اقتدار کی خاطر ہی جن کو ہم آج قوم کی ماں قرار دیتے ہیں ان کی عظمت کو ایسے تار تار کیا کہ انسانیت کیا قدرت بھی شرما گئی ہو گی کسی ماں کا یہ حال بھی حکمران طبقے کی منفی سوچ اور اقتدار کے نشے میں دھت ہونے کے باعث ہوا اور قوم کی ماں کو حکمرانوں نے موت کی طرف دھکیل دیا اور آج قوم ہر سال مادر ملت کی برسی منا کر اپنا فرض پورا کر رہی ہے لیکن قدرت کا اپنا نظام ہے یہ کیسے ہو سکتا ہے روئے زمین پر ماں کے ساتھ ظلم و نا انصافی ہو اور قدرت ظلم کرنے والوں کو نشان عبرت نہ بنائے ہم دنیاوی طور پر جس کو مرضی غدار اور محب وطن قرار دیں قدرت اسی دنیا میں ہی ہر کسی کا ظاہر باطن سامنے لے اتی ہے اس کی وجہ بہت سادہ سی ہے کہ قدرت کے تمام احکام مثبت ہوتے ہیں جہاں سے مثبت سوچ جنم لیتی ہے اور اس دنیا مین بسنے والے ہر انسان جب قدرت کے فیصلوں کے برخلاف چلتا ہے تو اس کا توازن قائم نہیں رہتا اور وہ مثبت سے منفی کے خانے میں داخل ہو جاتا پھر اس کے لیے ممکن نہیں رہتا کہ وہ منفی سوچ کے ساتھ مثبت کام کر سکے۔

پاکستان کی تاریخ کا دل گرفتہ دل سوز کر دینے والا دور شروع ہوتا ہے جب ملک دولخت ہوتا ہے یہ سیاسی شکست تھی یا فوجی اس کا فیصلہ آج تک نہیں ہو سکا اس سانحے نے ایک گھر کی تقسیم کر دی جس کی بنیاد کو ہمارے آبا و اجداد نے اپنے خون سے تیار کیا تھا جہاں ماؤں بہنوں نے اپنی عزتوں کی قربانی دے کر اسی دیواریں کھڑی کی تھیں اور اسی سبب بعد میں آنے والی نسلوں کو قربانیوں کی چھت میسر ہوئی لیکن پھر ملک کے وسائل کو لوٹنے والوں نے منفی رجحان کے تحت پہلے اس کی بنیادوں کو ہلایا اور پھر اپنے اقتدار کو وسعت دینے کے لیے مشرقی اور مغربی حصے داروں نے گھر کے اندر علیحدگی کی ایک دیوار تعمیر کر دی یہ وہ وقت تھا جب منفی سوچ میں زہر کی امیزش کی گئی اور نفرت نے اس دیوار کو اتنا اونچا اور مضبوط کر دیا کہ اسے تقسیم ہوتی قوم کے لیے گرانا ناممکن بن گیا۔

اس سانحے کے بعد آنے والے حکمران نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کی بنیاد تو رکھ دی لیکن جس روٹی کپڑا اور مکان کے منشور پر عوام نے ان کو حکومت کرنے کا حق دیا تھا وہ شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا وہ اقتدار ملتے ہی مخالفین پر چڑھ دوڑے اور کئی سیاسی رہنماؤں کو جیل میں ڈالا جیل بھی بادشاہی قلعہ لاہور کے دلائی ٹارچر کیمپ مچھ اور کراچی سنٹرل جیل میں صحافیوں سیاست دانوں طالب علم رہنماؤں اور حکومت کے دیگر مخالفین کو اذیت ناک ٹارچر کیا گیا یہ وقت کے حکمران کا منفی رجحان ہی تھا جس کو مخالفت کسی طور پر پسند نہیں تھی۔

پھر پاکستان کی تاریخ میں فوجی حکمران کا دور دوبارہ سے شروع ہوا اور پاکستان قومی اتحاد کی تحریک نظام مصطفے کو اپنے لیے استعمال کرتے ہوئے ملک میں اسلامی نظام کو نافذ کرنے کا اعلان کیا اور اپنے حامی سیاست دانوں کی مجلس شوری قائم کر دی اور جس حکمران کا تختہ الٹا اسے اپنے منفی رجحان کی بھینٹ چڑھا دیا سیاست میں انتقام کی ریت ڈالنے والا خود اس کا شکار ہو گیا اس کے بعد آنے والے حکمرانوں نے انتقام کی سیاست کو فروغ دیا جو آج تک جاری ہے اور حکمرانوں کے اس منفی رجحان نے عوام کو بھی اس میں ملوث کر لیا ہے قوم میں عدم برداشت ختم ہوتا جا رہا ہے اپ جہاں کہیں بھی ہوں منفی رجحان کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہ زہر ہماری رگوں میں سرایت کر چکا ہے ہمارے حکمرانوں کے فیصلے منفی رجحانات کے باعث دنیا میں ہمارے لیے شرمندگی کا باعث بن رہے ہیں اور اس کا ثبوت ہمارا گرے لسٹ میں رہنا ہے اگر ہمارے حکمرانوں نے بروقت مثبت فیصلے کیے ہوتے تو آج دنیا میں ہمارا مقام ذمہ دار ریاست کے طور پر دیکھا جاتا اب بھی ملکی سطح پر منفی رجحان کو چھوڑ کر تلخیاں ختم کی جا سکتی ہیں اس کے لیے عوام کو شریک کر کے قومی جرگہ تشکیل دینا چاہیے جو ریاست اور عوام کے درمیان فاصلے کم کر کے معاشرے کی مثبت تصویر کو صاف شفاف بنا دy.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments