ہمیں شاکرؔ شجاع آبادی کے مرنے کا شدت سے انتظار ہے


برادرم فیصل ناز نے بردوش واٹس ایپ ایک ایسی ویڈیو ہمیں بھیجی جسے دیکھ کر ہمارا من حیث القوم اپنی اجتماعی بے حسی اور نالائقی پر رونے اور سر پیٹنے کو جی چاہا۔ ویڈیو کلپ میں سرائیکی وسیب کے مہاندرے شاعر اور سرائیکی شاعری کو نئے عہد اور آہنگ سے روشناس کرانے والے سائیں شاکر شجاع آبادی کسمپرسی اور خستہ حالی کی حالت میں موٹر سائیکل پر سوار ہیں۔
ویڈیو میں شاکر شجاع آبادی کی حالت دیکھ کر یہ خیال بھی آیا کہ جس بانجھ بنجر معاشرے میں سید سبط حسن، علی عباس جلالپوری، شوکت صدیقی، سعادت حسن منٹو، ساغر صدیقی، حبیب جالب، ڈاکٹر اجمل نیازی، شہاب دہلوی، استاد حسین بخش ڈھڈی، جاذب انصاری، پٹھانے خان، ساغر نقوی، ڈاکٹر اختر تاتاری، خاک اوچوی، جانباز جتوئی اور منظر اوچوی جیسے فلسفی، شاعر اور آرٹسٹ کسمپرسی، خستہ حالی اور “قحط دوا” کے ہاتھوں خاموشی سے موت کے گھاٹیوں میں اتر جائیں اور تاج محمد راجپوت، ہمراز سیال اوچوی، موسیٰ سعید اور استاد سخاوت حسین خان جیسے نابغہ روزگار گم نامی کے صحرا میں گم ہو کر جیتے جی مر جائیں، وہاں شاکر شجاع آبادی کا بھلا کون پرسان حال ہو گا اور کیوں ہو گا؟ رہ گئی ریاست تو اسے کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی دل داری اور سنگین مقدمات میں ملوث ملزمان کی خاطر داری سے فرصت ملے تو وہ ان کتابی “کیڑے مکوڑوں” کا سوچے۔
شاکرؔ شجاع آبادی ایک شخص کا نام نہیں بلکہ ایک عہد کا نام ہے۔ ان کی شاعری نے ایک عہد کو متاثر کیا ہے۔ ان کے مداحوں کی تعداد اب ہزاروں سے بڑھ کر لاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔ شاکرؔ شجاع آبادی نوجوان نسل کا پسندیدہ اور مقبول شاعر ہیں۔ وہ جب شعر پڑھ رہے ہوتے ہیں تو ہزاروں کے مجمعے پر خامشی اور ہو کا عالم طاری ہوتا ہے۔ سامعین ان کے کلام کو گوش جاں سے سنتے ہیں اور چشم قلب سے قرات کرتے ہیں۔
شاکرؔ شجاع آبادی نے 1986ء میں باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا۔ وہ 1989ء تک ایک گم نام شاعر رہے۔ 15 مارچ 1989ء کو انہوں نے پہلی مرتبہ سرائیکی ادبی مجلس بہاول پور کے مشاعرے میں شرکت کی۔ پہلی مرتبہ مشاعرے میں حسین بخش حسنیؔ نے سٹیج پر شور مچا دیا تھا کہ ایک شاعر ابھی رہتے ہیں ان کو بھی سنا جائے۔ اس وقت شاکرؔ شجاع آبادی کو اپنا کلام سنانے کے لیے دو منٹ کے لیے اجازت ملی۔ تاہم انہوں نے جب اپنا کلام شروع کیا تو یہ دو منٹ 35 منٹ پر محیط ہو گئے۔
اوچ شریف کے ممتاز صحافی اور ادیب، بانی “نوائے اوچ” رسول بخش نسیم اپنی غیر مطبوعہ خود نوشت سوانح حیات “پردے میں رہنے دو” میں لکھتے ہیں کہ سرائیکی ادبی مجلس کے زیر اہتمام بہاول پور میں منعقد ہونے والے اس مشاعرے کی صدارت اوچ شریف سے تعلق رکھنے والے صدارتی ایوارڈ یافتہ سرائیکی شاعر جانباز جتوئی کر رہے تھے۔ انہوں نے شاکرؔ شجاع آبادی کے بعد اپنا کلام نہیں سنایا اور سٹیج پر سے کچھ یوں کہہ کر لوٹ آئے کہ “میں چالیس سال سے سننے کی کوشش کر رہا تھا لیکن سننے کا موقع نہیں ملا مگر آج سنا ہے۔”
شاکرؔ شجاع آبادی جنوبی پنجاب میں خواجہ غلام فرید کے بعد دوسرے ایسے شاعر ہیں جن کے اشعار بلا تفریق امیر غریب، عوام اور سیاست دانوں کو بھی یاد ہیں۔ ممتاز صحافی سہیل وڑائچ نے جیو نیوز کے پروگرام “ایک دن جیو کے ساتھ” کے لیے شاکرؔ شجاع آبادی کا انٹرویو کیا اور پورا دن ان کے ساتھ گزارنے کے بعد انہوں نے شاکرؔ شجاع آبادی کے بارے میں کچھ یوں کہا:
“ہمیں کب فرصت ملے گی کہ ہم بڑے شہروں سے نکل کر دور رہنے والے، دیہات میں رہنے والے ان نگینوں کی تلاش کریں جو فاصلوں کی دوری اور وسائل میں کمی کی وجہ سے وہ رنگ نہیں دکھا سکے جو ان کا حق ہے۔ آخر ہم بڑے لوگوں کے مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟”
سہیل وڑائچ صاحب کے اس سوال کا جواب نہ کسی کے پاس ہے اور نہ کوئی دے سکتا ہے۔ شاکر شجاع آبادی کی مسلسل علالت اور معاشرے کی فکری غلاظت دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم سب شاکر شجاع آبادی کی موت کے شدت سے منتظر ہوں تاکہ اس کے بعد جوش و جذبے اور تزک و احتشام کے ساتھ ان کا مقبرہ بنا کر ان کو خراج عقیدت پیش کیا جا سکے، “دھوم دھام” سے ان کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کرائے جا سکیں۔ پرانی تصویریں شیئر کر کے سماجی ذرائع ابلاغ پر ہاہاکار مچائی جا سکے۔ بالکل ویسے جیسے ہم نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ کیا۔
شاکر شجاع آبادی کی صحت و تندرستی کی دعا کے ساتھ ان کا یہ زندہ جاوید کلام ہماری مردہ ضمیر اور تیرہ بختی کی نذر۔
میکوں میڈا ڈکھ، میکوں تیڈا ڈکھ
میکوں  ہر  مظلوم  انسان  دا ڈکھ
جتھاں  غم  دی  بھا  پئی بلدی ہے
میکوں   روہی  چولستان   دا  ڈکھ
جتھاں  کوئی انصاف دا ناں کائنی
میکوں   سارے  پاکستان  دا  ڈکھ
جیہڑے  مر  گئے  ہن او مر گئے ہن
میکوں  جیندے  قبرستان  دا ڈکھ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments