تیڈا شاکر شہر منافق اے


بندے ڈیکھ کے روندن زندگی کون
میکوں زندگی ڈیکھ تے رو پئی اے
بلاشبہ شاکر شجاع آبادی صاحب ذندگی ہی نہیں قدرت بھی رو رہی ہوگی ،آپ کو اس حال میں دیکھ کر۔ یہاں روز ہی کسمپرسی کی کوئی داستان سامنے آرہی ہے اس ملک میں ، پتہ نہیں کتنا گناہ گار ہیں ہم لوگ۔ سرائیکی کےشہرہ آفاق شاعر شاکر شجاع آبادی کی سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو دیکھی تو آنکھوں میں آنسو آگئے۔ یقین ہی نہیں آیا کہ ظلم کے خلاف ایک توانا آواز اس حالت میں ہے۔
موٹرسائیکل کے پیچھے بندھے شاکر شجاع آبادی جن کو موٹرسائیکل سوار نے گھر کی کسی خاتون کے دوپٹے سے باندھ کر اپنے پیٹ سے باندھا ہوا تھا۔ تاکہ وہ کہیں گر نہ جائیں۔
کس بے بسی کے عالم میں وہ شخص اور اس کو لے جانے والا بے بس انسان تھا کہ کوئی تیسرا بے حس شخص نہ ملا کہ جو پیچھے بیٹھ جاتا تاکہ باندھنا نہ پڑتا۔ میلے کچیلے کپڑوں میں ہڈیوں کا مرکب اس انسان کی حالت چیخ چیخ کر ہماری بے حسی ، منافقت پر گریہ کررہی تھی۔ شاکر شجاع آبادی نے ہمارے اوپر ہی لکھا ہےکہ
تیڈا شاکر شہر منافق اے
نہ ولسوں ول تیڈی وستی وچ
وڈیرا جاتی اور سرمایہ دارانہ نظام کے سخت مخالف شاکر شجاع آبادی کو نہ صرف پاکستان میں پڑھا جاتا ہے بلکہ دنیا بھر میں جہاں جہاں بھی سرائیکی ،پڑھنے سمجھنے والے لوگ ہیں وہ اس عظیم انسان کی شاعری کے دلدادہ ہیں۔ موسیقی کے کئی بڑے بڑے نام جو آج شہرت کی بلندیوں پر ہیں ان میں سے کئی شاکر شجاع آبادی کی شاعری کے ذریعے ہی مشہور ہوئے ہیں۔
شاکر شجاع آبادی کی شاعری میں وہ کرب وہ درد ہے کہ سننے والے، پڑھنے والےاسے اپنی بپتا سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں سوشل میڈیا کا ایک فائدہ ہوا کہ میرے جیسے کئی بے حسوں ، لاپرواہوں کو اپنے محسنوں ، تخلیقی دماغوں کے حالات زندگی کسی وائرل ویڈیو کی صورت میں پتہ چل جاتے ہیں۔
مرحوم عمر شریف تو کراچی کے تھے۔ تبھی ان پر ٹرانسمیشنز بھی ہوئیں سندھ حکومت نے فنڈز بھی جاری کئے۔ مگر ہائے اجڑے ہوئے سرائیکی وسیب کی آواز یہ اجڑا ہوا شاعر بھلا کہاں کسی ٹرانسمیشن کا بکنے والا کانٹینٹ بن سکتا ہے؟
سرائیکی وسیب سے بنائے جانے والے وزیراعلی صاحب کی ٹیم نے ویڈیو دیکھ کر وزیراعلی کےنام پر نوٹس کی پریس ریلیز تو جاری کردی۔ وزیراعلی صاحب کے نام پر ڈی سی او یا اے سی صاحب جاکر دورہ کرآئیں گے۔ دکھاںے کو چیک بھی دے دیا جائے گا ،شائد علاج کےلئے کسی سرکاری ہسپتال بھی مںتقل کردیا جائے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ چیک کیش ہونے میں پتہ نہیں کتنا ٹائم اور ذلالت ہوگی،اس سرکاری ہسپتال میں لواحقین کو کس روئیے کا سامنا کرنا پڑتا۔ مگر دنیا اور اس حکونت نے پھر اس شخص کواگلی وائرل ویڈیو تک بھول جانا۔
ہم پاکستانیوں کے حافظے کمزور اور ضمیر مردہ ہیں۔ جنوبی پنجاب کے شہر شجاع آباد میں پیدا ہونے والے شاکر شجاع آبادی 1994سے فالج ہونے کی وجہ سے ایک بازو اور بولنے میں دشواری کا سامن کررہے ہیں۔
شاکر شجاع آبادی کو علاج کے لئے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے دو لاکھ روپے دئیے تھے جو انہوں نے اپنے علاقے میں سکول کی تعمیر کےلئے عطیہ کردئیےتھے۔ خود انتہائی غربت میں زندگی گزارنے والے اس انسان کی اس کاوش سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سرائیکی وسیب کیا پاکستان اور دنیا بھر میں معاشرتی،طبقاتی اور مالی تفریق کےخلاف اور غریبوں کے لئےکتنا دردرکھتےہیں۔ ان کا ایک شعر آپ کی نذر کرتا چلوں کہ
بکھ دےپھٹ کوں سیونڑ ڈیوو
سکھ داپانی پیونڑ ڈیوو
اساں وی ہیں مخلوق خدا دی
ظالم لوگو ،جیونڑ ڈیوو
پاکستانی سیاست اور اداروں کی صورتحال پر بھی ان کی شاعری بے مثال حد تک موجودہ حالات کی بہترین عکاس ہے
سیاست اے بڈھےمکاراں دےہتھ وچ
اےمکتب ادارےگنواراں دے ہتھ وچ
خدا اس ملک کوں سلامت ای رکھے
اےشیشےداگھر اے لوہاراں دے ہتھ وچ
پسماندہ ترین گاؤں راجہ رام کے شاکر شجاع آبادی نے 1986 سے شاعری کا آغاز کرکے بس اتنا ہی کمایا کہ ہاتھ میں سوزش سے ہونے والے درد کے لئے اپنے علاقے سے میلوں دور موٹرسائیکل کے پیچھے لٹکی ہوئی حالت میں ہسپتال تک پہنچے۔ یہ تو چلو کسی نے دیکھ کر ویڈیو بناڈالی ورنہ تو پتہ نہیں کتنے سالوں سے یہ شخص کسی اور کے آسرے پر گھسٹ گھسٹ کرزندگی گزار رہا ہے۔
بے شک شاکر شجاع آبادی نے صیح ہی کہا کہ یہ ملک دراصل زندہ قبرستان ہے جس میں ہم مردے ہیں اور جس کا دکھ اس آدھے مفلوج کو بے چین کئے رکھتا ہے
میکوں مینڈا ڈکھ ، میکوں تینڈا ڈکھ ، میکوں ہر مظلوم انسان دا ڈکھ
جتھاں غم دی بھا پئی بلدی ہے میکوں روہی چولستان دا ڈکھ
جتھاں کوئی انصاف دا ناں کوئی نئیں میکوں سارے پاکستان دا ڈکھ
جیہڑے مر گئے ہن او مر گئے ہن میکوں جیندے قبرستان دا ڈکھ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments