باتیں مرزا رسوا کی


مرزا محمد ہادی مرزا المعروف مرزا رسوا 20 نومبر 1858 کو لکھنو کے محلہ کوچہ آفرین خان میں پیدا ہوئے۔ مرزا رسوا کو بہت سے علوم و فنون میں مہارت حاصل تھی جن میں علم کیمیا، علم نجوم، گھڑ سواری، تیراکی، ناول نگاری اور شاعری وغیرہ شامل ہیں، تاہم ان کی وجہ شہرت ان کی ناول نگاری سمجھی جاتی ہے۔ مارچ 1898 میں رائے صاحب منشی گلاب سنگھ اینڈ سنز پریس لکھنو کے تحت پہلی مرتبہ زیور طباعت سے آراستہ ہونے کے بعد مرزا رسوا کے ناول امراو جان ادا نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اس بات کا ثبوت مرزا رسوا کی زندگی میں شائع ہونے والا دوسرا دستیاب ایڈیشن ہے جو 1922 میں ہمدم برقی پریس لکھنو سے شائع ہوا۔ اس ایڈیشن کے سر ورق پر بار سوم، جلد دو ہزار درج ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ 1898 سے لے کر 1922 تک اس ناول کی مقبولیت میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی۔ اس ناول کو فلمایا بھی گیا اور خشونت سنگھ نے 2006 میں اس کا انگریزی ترجمہ بھی کیا۔ اس وقت بھی یہ ناول ہندوستان اور پاکستان کی بہت سی جامعات کے نصاب کا حصہ ہے کیونکہ بہت سے محققین اور ناقدین اسے اردو کا پہلا مکمل ناول قرار دیتے ہیں اور اسے لکھنوی تہذیب کا عکاس بھی مانتے ہیں۔

مرزا رسوا کے اس ناول کے جتنے بھی ایڈیشن مارکیٹ میں موجود ہیں ان میں جگہ جگہ سیاق و سباق کے اعتبار سے خلا محسوس ہوتا ہے۔ غلطی یا کمی کی اس فضا کی اولین تائید تقریباً ہر دستیاب ایڈیشن کے دیباچے میں موجود اس پیراگراف سے ہوتی ہے :

آغا صاحب: لے اب شعر ملاحظہ ہوں

(اس شعر کا رخ نواب صاحب کی طرف تھا، جو جالی کا کرتا، ہلکا بادامی رنگا، اور باریک ململ کا انگرکھا پہنے، بند کھولے ہوئے بیٹھے تھے اور نہایت نفیس پنکھیا ہاتھ میں تھی، اسے جھلتے جاتے تھے)۔

شعر ملاحظہ ہوں کے بعد شعر ندارد ہے جب کہ نیچے لکھی ہوئی عبارت اس شعر کے متعلق معلوم ہوتی ہے جو یہاں درج نہیں۔ تحقیق کے بعد جب امراو جان ادا کا اولین نسخہ دستیاب ہوا تو میرا شک درست نکلا کیونکہ وہاں اس پیراگراف میں یہ شعر درج تھا:

تکلف بر طرف صاحب اگر ایسے ہی نازک ہو
پہن لو نور کے کپڑے، نہ جالی ہو نہ ململ ہو

تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں نے انڈیا اور پاکستان میں دستیاب امراو جان ادا کے تمام تر نسخے دیکھنا شروع کیے۔ زیادہ تر نسخوں میں ایک جیسی اغلاط ہی نظر آئیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہندوستان میں زیادہ تر ایڈیشن مکتبہ جامعہ نئی دہلی لمیٹڈ کی تدوین کے مطابق تھے جب کہ پاکستان میں دستیاب ایڈیشن مجلس ترقی ادب لاہور کی تدوین کے مطابق تھے۔ جب جامعہ مکتبہ دہلی کے نسخے کا بغور مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس تدوین کے لیے انہوں نے جس نسخے کو بنیاد بنایا وہ مرزا رسوا کی وفات کے بعد (1938) میں شائع ہونے والا چوتھا ایڈیشن ہے جبکہ مجلس ترقی ادب لاہور کے مدون کا دعوی تھا کہ انہوں نے مرزا رسوا کی زندگی میں شائع ہونے والے سات ایڈیشنوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تدوین کی تاہم انہوں نے سوائے اولین اشاعت کی تاریخ کے علاوہ کسی قسم کا کوئی تحقیقی حوالہ نہیں دیا کہ کون کون سے سات ایڈیشن انہوں نے ڈھونڈے اور کہاں کہاں اختلاف نسخہ پایا۔ میں نے حتی الامکان کوشش کی کہ زیادہ سے زیادہ ایڈیشن تلاش کر سکوں لیکن مرزا رسوا کی زندگی میں شائع ہونے والے دو ہی ایڈیشن مل سکے چنانچہ میں نے مرزا رسوا کی زندگی میں شائع ہونے والے دونوں ایڈیشنوں کا تقابل مجلس ترقی ادب لاہور اور جامعہ مکتبہ نئی دہلی لمیٹڈ کی تدوین سے کیا اور تمام نسخوں کو اولین نسخے سے حیران کن حد تک مختلف پایا۔ ان چار نسخوں کے تقابل میں لگ بھگ تین ہزار کے قریب حواشی بن گئے۔

مرزا محمد ہادی مرزا نے اپنا قلمی نام مرزا رسوا پہلی بار امراو جان ادا کی اشاعت کے لیے استعمال کیا۔ اس سے قبل ان کا پہلا ناول افشائے راز ان کے اپنے ہی نام سے شائع ہو چکا تھا چنانچہ مرزا رسوا اور امراو جان ادا کو حقیقی کردار پیش کرنے کے لیے انہوں نے امراو جان ادا کی اشاعت کے ایک ماہ بعد ایک مختصر سا ناول بعنوان: جنون انتظار یعنی فسانہ مرزا رسوا، مصنفہ : امراو جان ادا قلمبند کیا جس کے ابتدائی حصے میں یہ وضاحت کی گئی کہ چونکہ مرزا رسوا نے امراو جان ادا ناول لکھ کر امراو جان ادا کی داستان حیات دنیا کے سامنے رکھ دی لہذا امراو جان ادا نے جوابی طور پر جنون انتظار یعنی فسانہ مرزا رسوا میں مرزا رسوا کے ایک عشق کا قصہ بیان کیا ہے۔ امراو جان ادا کی مقبولیت کے سبب جنون انتظار یعنی فسانہ مرزا رسوا کہیں گم ہو گیا اور اس کا کوئی دوسرا ایڈیشن بھی نہیں ملا۔ اکتوبر 2013 میں کروپا شندلیا اور تیمور شاہد نے حیدرآباد میوزیم میں اس ناول کا ایک نسخہ دریافت کیا جس کا عکسی ایڈیشن زبان بکس پبلشرز نے انگریزی ترجمے کے ساتھ شائع کیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہماری اکثر جامعات کے شعبہ اردو کے پروفیسر اس ناول کی قرات تو کجا، نام سے بھی کم کم واقف ہیں۔

یہی حال مرزا رسوا کے شعری کلیات کا ہوا۔ کچھ سرمایہ مرزا رسوا کی وفات کے بعد مرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی کے توسط سے رسالہ زمانہ کانپور میں شائع ہوا جسے ثاقب کانپوری نے کتابی شکل میں اشاعت کے لیے جمع تو کیا لیکن کسی وجہ سے اسے مکمل نہ کر پائے۔ بعد ازاں یہ سرمایہ ابوالخیر کشفی کو ملا جنہوں نے کسی قسم کی پروف ریڈنگ کیے بغیر اسے 1985 میں اردو اکیڈمی سندھ کے ذریعے کتابی شکل دے دی۔ اس بد احتیاطی کا نتیجہ یہ ہے کہ صرف غزلیات میں تیس کے قریب مصرعے بے وزن ہیں۔ مرزا رسوا کے متعلق یہ گمان بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ بے وزن شعر کہتے ہوں گے چنانچہ جب میں نے رسالہ زمانہ کے وہ تمام شمارے ڈھونڈ نکالے جن میں مرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی کے مضامین شائع ہوئے تو تمام غزلیں درست متن کے ساتھ مل گئیں۔ مرزا رسوا کی مرثیہ نگاری کے متعلق مرزا پر پی ایچ ڈی کرنے والے محققین سمیت سبھی کی یہی رائے تھی کہ انہوں نے کبھی مرثیہ نہیں کہا لیکن ضمیر اختر نقوی مرحوم کے توسط سے 110 بند پر مشتمل طویل مرثیہ اور نوحہ و سلام بھی سامنے آ گئے۔ اس صورتحال میں مرزا کا شعری کلیات ترتیب دینے کی خواہش جاگی اور لگ بھاگ دو سال کے طویل عرصے میں 60 غزلیات، 2 نظمیں، 1 مرثیہ، 4 مثنویاں، 2 قصیدے، ایک منظوم ڈرامہ (مرقع لیلی مجنوں) اور بہت سی فردیات جمع ہو گئیں۔

مرزا رسوا نے جامعہ عثمانیہ کے شعبہ تالیف و ترجمے کے رکن کے طور پر دس کتابوں کے ترجمے بھی کیے جن میں ولیم میک ڈوگل ایف آر ایس کی کتاب معاشرتی نفسیات، ایچ ڈبلیو جوزف کی کتاب این انٹروڈکشن ٹو لاجک، آس والڈ کلپے کی کتاب منقاح الفلسفہ، جے ایف اسٹوٹ کی کتاب گراؤنڈ ورک آف سائیکالوجی، ارسطا طالیس کی کتاب نقوماجس اور نائن ابو الفتوح عمر بن محمد السہروردی کی کتاب حکمتہ الاشراق وغیرہ اہم ہیں۔ ان میں سے کچھ کتابیں جامعہ عثمانیہ کے بی اے اور ایم اے کے نصاب کا حصہ بھی رہیں۔

مذہبی حوالے سے مرزا رسوا نے شاہ عبدالعزیز مرحوم کی کتاب ”تحفہ اثنا عشریہ“ کا جواب ’ہدیہ سنیہ‘ کے عنوان کے تحت پچیس جلدوں میں لکھا تاہم یہ کتاب زیور طباعت سے آراستہ نہ ہو سکی۔ اس کتاب کے مجلدات مدرسۃ الواعظین میں موجود ہیں۔

مرزا رسوا نے بچوں کی افہام و تفہیم کے لیے ’مراۃ الاذہان‘ کے عنوان سے کچھ مضامین رسالہ الناظر میں قلمبند کیے جن میں بچوں کو فلسفے اور سائنس کی مبادیات انتہائی سادہ طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ مرزا رسوا نے ربع مجیب کے عنوان سے ایک مختصر رسالے کے کچھ حصے رسالہ الناظر کے لیے لکھے جس میں ربع مجیب (ایک آلہ جو آفتاب اور ستاروں کے طلوع و غروب اور ان کے صحیح اوقات کا اندازہ اور ٹھیک وقت معلوم کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے ) کی ساخت اور استعمال پر بحث کی گئی ہے۔ یہ سلسلہ کسی وجہ سے مکمل شائع نہ ہو سکا اور بعد کے شمارے میں رسالے کی انتظامیہ نے اعلان کیا کہ جو صاحب یہ رسالہ منگوانا چاہیں وہ ڈاک کے ذریعے رابطہ کر سکتے ہیں تاہم جتنا حصہ بھی دستیاب ہو سکا وہ علم نجوم پر مرزا رسوا کی گہری دسترس کا منہ بولتا ثبوت ضرور ہے۔

مرزا رسوا کی نثر بھی بہت مضبوط اور مدلل ہے، رسالہ زمانہ میں مرزا رسوا سے متعلق مرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی کے جو مضامین شائع ہوئے ان میں مرزا رسوا کی نثر کا سرمایہ بھی ہے جسے ڈاکٹر محمد حسن نے دسمبر 1961 میں مرزا رسوا کے تنقیدی مراسلات کے عنوان سے شائع کیا۔ اس کے علاوہ اگر اشراق اور الحکم کی فائلز ڈھونڈ لی جائیں تو خدا جانے اور کیسے کیسے علمی و تحقیقی پرت کھل جائیں۔ لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ابھی تک اکثریت کو مرزا رسوا کی درست تاریخ پیدائش کا ہی علم نہیں۔ پاکستان اور ہندوستان میں رسوا سے متعلق جتنے بھی تحقیقی مقالے اور کتابیں دستیاب ہیں ان میں سوائے پنجاب یونیورسٹی چندی گڑھ سے ہونے والے ایک مقالے کے، کسی بھی مقالے یا کتاب میں درست تاریخ پیدائش نہیں ملتی۔ تحقیق بھی صرف ان کی ناول نگاری/ ناول کی کردار نگاری پر فوکس کرتی ہے۔ حالانکہ مرزا رسوا کی زندگی کے ہر پہلو پر الگ الگ تھیسس کیا جا سکتا ہے۔ معاصرین میں مرزا رسوا کے شعری مقام سے لے کر مرزا رسوا کی ترجمہ نگاری تک کئی ایسے باب ہیں جو ابھی تک توجہ کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مرزا رسوا پر نئے سرے سے تحقیق کی جائے تاکہ تاریخ کے یہ تمام دھندلے باب واضح ہو سکیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments