داڑھی اور ٹوپی کے دشمن


مختلف ادوار میں مختلف مذہبی،قومی،سیاسی اور علاقائی گروہوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا،ایسی  عداوت اور مخالفت کو پروان چڑھانے کے لیے ہمیشہ کسی چیز،کسی بیانیے اور کسی چھوٹی موٹی نقص کا ضرور سہارا لیا گیا تا کہ عوام الناس حقیقت سے آگاہ نہ ہوں۔

داڑھی اور ٹوپی والے سے کیا مراد ہے؟ داڑھی اور ٹوپی والے سے مراد ہر وہ مسلمان  ہے جو االلہ اور رسول سے محبت رکھتا ہو اور دوسرے مسلمانوں کے لیے بھی درد دل رکھتا ہو۔ داڑھی اور ٹوپی والے ایک نظریے اور سوچ کا نام ہے۔ اس میں حق گو علماء و طلباء سرفہرست ہیں اس کے علاوہ ایسی شخصیات میڈیا و ٹیلیوزن،سیاست،فلاحی اداروں اور سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں پائے جاتے ہیں انہیں دین داروں سے ہمدردری ہوتی ہے جب یہ مثالیں دیتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی سے دیتے ہیں ۔ مخالفین کی سازشوں کے بعد آج بھی نوجوانوں کے دلوں کے دھڑکن ہوتے ہیں۔ آخر میں یہ بھی واضح رہے داڑھی اور ٹوپی والوں کی فہرست میں بےشمار ایسی شخصیات بھی ہیں جن کے چہرے پر داڑھی اور سروں پر ٹوپی نہیں بھی ہوتی۔
اس پرفتن دور میں جہاں مسلمانوں کو آپس میں لڑایا جا رہا ہے اور مسلمانوں میں انتشار اور نفاق کی ہوا بھری جا رہی ہے،ان سازشوں کے سب سے خطرناک کردار داڑھی اور ٹوپی کے دشمنوں کا ہے۔
داڑھی اور ٹوپی کے دشمن کون ہیں ؟ ان کو تلاش کرنا اور پہچاننا بہت ہی آسان ہے۔ ایسے لوگوں کی چند مخصوص نشانیاں یہ ہیں،سب سے اول درجہ کی نشانی یہ ہے کہ یہ مسجد کے موذن یا پیش امام کی غلطی کو پکڑ کر اسے عام کرنے کی کوشش کریں گے اور تمام مساجد و مدارس ،علماء و مفتیان کے خلاف بکواسات کریں گے۔ ان کی دوسری پہچان یہ ہے ان کی زبان حافظین قرآن کو ان پڑھ اور جاہل کہنے کو خوف نہیں کھاتی ،ان کی تیسری اور اہم نشانی یہ ہے کہ ان کو مساجد اور مدارس کے بجائے طویل بین الاقوامی رسائی ہوگی۔ان کا بنیادی مقصد دو قومی نظریہ یعنی نظریہ پاکستان کو ختم کرنا ہوتا ہے۔
داڑھی اور ٹوپی سے دشمنی کی آخر وجہ کیا ہے؟ داڑھی اور ٹوپی سے دشمنی کی وجہ دین سے لاتعلقی اور دین دشمنی ہے کیوں کہ داڑھی اور ٹوپی کو رواں زمان میں دین داروں کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ شاید اس کے پیچھے سب سے بڑی وجوہات دو ہی ہیں مالی اور سیاسی۔ ہمارے ملک میں بھی ایسی ایجنسیاں اور شخصیات پائی جاتی ہیں جو ان کی مالی معاونت اور پشت پناہی کرتی ہیں ان کی مثال رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ بین الاقوامی این جی اوز ہیں۔یہ اپنے اس منفی مقاصد کے لیے سب سے زیادہ سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہیں۔یہ کبھی شہری حقوق،کبھی اقلیتی حقوق ،کبھی خواتین کے حقوق  ،کبھی جانوروں کے حقوق کے نام پر اپنے ہم خیال لوگوں کے ساتھ سڑکوں پر آتے ہیں۔ یہ سرکار پر دباو ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس وقت بھی ریاست اور تحریک لبیک پاکستان رجسٹرڈ کے مابین ہونے والی مختصر سی کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ،تحریک لبیک پاکستان رجسٹرڈ پر یک طرفہ تنقید کے صف باندے جارہے ہیں حقیقت تو یہ ہے تحریک لبیک جتنا قصور وار سرکار خود بھی ہے کیوں کہ ریاست نے ان سے ایک تحریری معاہدہ کیا تھا لبیک والے تو صرف اس معاہدے پر عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کرتے دکھائی دیتے ہیں،سوال تو یہ بنتا ہے کہ ریاست کے نمائندگان نے ایسا معاہدہ پھر کیا ہی کیوں جس پر عمل درآمد نہایت مشکل ہے ۔عدل کا تقاضہ یہ ہے کہ لبیک والوں کو صبر کی تلقین اور ریاست سے وعدے کی تکمیل پر زور دیا جائے پر یہاں تو داڑھی اور ٹوپی والوں سے دشمنی اتاری جا رہی ہے۔
داڑھی اور ٹوپی دشمنوں کا تدارک اس لیے ضروری ہے کہ یہ دین اسلام اور مسلمانوں کے خیرخواہ نہیں یہ خود تو گمراہ ہیں اس کے ساتھ ساتھ کئی معصوم شہری ان کے نظریات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان کی حقیقت سے لوگوں کو آگاہ کرنا چاہیے اور جب یہ کوئی تحریک چلائیں تو باشعور نوجوان فوری رد عمل دیں اور ان سے بیزاری اور برات کا اظہار کریں۔جب سوشل میڈیا پر یہ کسی داڑھی اور ٹوپی والے کے خلاف بیان دیں تو اس کے رد عمل میں نوجوان دو مثبت بیانات عام کردیں۔ ان کے تدارک کے لیے دین دار اور پاکیزہ اسلامی سوچ رکھنے والی شخصیات کو زیادہ سے زیادہ سپورٹ کیا جائے اور سوشل میڈیا پر اسلام کا اصل چہرہ عام کرنا چاہیے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments