ایک ناکام باپ


یہ کہانی ایک ایسے انسان کی ہے جو اپنی زندگی میں تمام کامیابیوں کے باوجود اپنے آپ کو ایک ناکام انسان سمجھتا تھا۔ اُس نے ایک کامیاب انسان بننے کی تگ و دو میں اپنے تمام انسانی رشتے کمزور کر لیے تھے، اِتنے کمزور جو اُس لمبی سیڑھی کی طرح ہوں جو جتنی اونچی اور لمبی ہو، اُتنی ہی کمزور ہوجاتی ہے، اُس کی سختی اور مضبوطی برقرار نہیں رہتی ۔ وہ بہت زیادہ خم دار ہو جاتی ہے۔

امریکہ کی ایک غریب ریاست” پوٹریکو” کے ایک بچے نے بڑا موسیقار بننے کا خواب دیکھا، وہ اپنے خوابوں کی تکمیل ڈھونڈنے، گاؤں سے شہر آیا، شہر میں آ کر موسیقی سیکھنے کے ساتھ ساتھ اس نے کمپیوٹر پروگرامنگ کی تعلیم بھی حاصل کی، اسے اچھی نوکری ملی اور اس نے اپنی پسند کی لڑکی سے شادی بھی رچا لی۔ پانچ سالہ شادی کے نتیجے میں اُس ہاں ایک بیٹا بھی پیدا ہوا ، لیکن وہ آٹ ازم کی بیماری کا شکار تھا، بیٹے کی بیماری اور گھر کے تلخ ماحول کی وجہ اُس نے زیادہ شراپ پینی شروع کر دی اور اس کی توجہ اپنی ملازمت اور موسیقی سیکھنے سے ہٹ گئی۔

وہ اپنی بیوی اور بچے کو اس کا ذمہ دار سمجھنے لگا اور جلد ہی اُن سے جان چھڑانا چاہتا تھا۔ وہ اپنی گھریلو ذمہ داریوں سے جان چھڑا کر دوبارہ اپنے موسیقار بننے کے خواب کے پیچھے بھاگنے لگا۔ وہ خواب جو اُس نے اپنے بچپن میں دیکھا تھا، وہ خواب جس کی تعبیر پانے کے لیے وہ اپنے ماں باپ کو بھی پیچھے چھوڑ آیا تھا۔ وہ خواب جس کو سن کر اُس کا باپ آبدیدہ ہو گیا تھا، باپ کو معلوم تھا کہ اُس کے بیٹے نے کامیابی کے سفر پر اکیلے جانے کی ٹھا نی ہے، بھلا ماں باپ اپنے بچوں کو کامیابی کے سفر پر جانے سے کب روک سکتے ہیں، انہیں تو بس ایک ہی ڈر رہتا ہے کہ اولاد اُن سے جا کر کہیں انہیں بھو ل نہ جائے۔

یہی ہوا اِس کہانی کے ٹریجک ہیرو کے ساتھ ، وہ خوبصورت نوجوان ، شہر میں آ کر اپنے ماں باپ اور چھوٹے بہن بھائیوں کو بھو ل گیا ، شادی کے بعد تو اُس نے اپنی فیملی سے ملنا جلنا بھی چھوڑ دیا، شاید ا س پر ذمہ داریوں کا بوجھ بڑھ گیا ہو۔ خیر وہ کمپیوٹر پروگرامر آخر کار ایک موسیقار بن گیا ۔ وہ بچپن سے ہی گاتا ، بجاتا آ رہا تھا لیکن غیر رسمی اکٹھ اور خاندان کی کمرہ بندتقریبات میں ، اب اُس نے موسیقی کی محفلوں اور سٹیج پر جاکر ڈرم بجانا شروع کر دیا۔

 ویسے تو وہ ہر قسم کا ڈھو ل بجا لیتا تھا لیکن اُس نے اپنے روایتی ڈرم “کانگا ” سیکھنے کی مہارت پر تو جہ دی، وہ اتنا اچھا اور ماہر کانگا پلیئر بن گیا تھا کہ ڈزنی لینڈ جیسے بڑے ادار ے نے اُس کی خدمات حاصل کیں۔ وہ جلد امریکہ میں کنگ آف کانگاز کے نام سے مشہور ہو گیا۔ امریکہ کے مشہور گلوگاروں کے ساتھ مل کر وہ بین الا قوامی میوزیکل شوز میں شامل ہو چکا تھا۔ ریاست میں منتخب اسمبلی کی طرف اُس کے فن اور مقامی ثقافت کے فروغ کے لیے اُس کی خدمات کو سراہا گیا، اُسے تعریفی اسناددی گئیں۔

دوسری طرف زیادہ شراب نوشی اور گھر سے باہر رہنے کی عادت کی وجہ میاں بیوی کے تعلقات خرا ب ہوچکے تھے، نوبت طلاق تک پہنچ گئی اور میاں بیوی علیحد ہ ہو گئے، عدالت نے بچے کو تا حیات ماں کے زیرِ نگرانی رکھنے اور باپ کو اپنی کمائی کا مخصوص حصہ بچے کی نگہداشت کے لیے مختص کرنے کا حکم دیا ، باپ اپنے بچے کا خرچہ باقاعدگی کے ساتھ بھیجتا رہا لیکن وہ روشنیوں کی دنیا میں ایسا گم ہوا کہ سالوں میں ایک مرتبہ اپنے بچے کو ملنے آتا۔

اس کی بیوی نے اپنے بچے کی خاطر دوسری شادی نہیں کی لیکن معذور بچے کو پالنے کے لیے ریاستی اداروں کی طرف سے اُسے اچھی خاصی رقم مل جاتی اور بچے کا باپ بھی اچھا خاصا خرچہ بھیجتا رہا، یوں اِس بکھرے ہوئے خاندان والوں کی زندگی کا پہیہ گھومتا رہا، باپ نے نیشنل ٹی وی کے شوز میں آنا شروع کردیا، اُس نے اپنا میوزک بینڈ بنا لیا جس کے ذریعے وہ لاطینو اور جیز میوزک کو پروموٹ کرتا تھا۔

 ماں اپنے بچے کے باپ سے اتنی خفا تھی کہ اُس نے کبھی اپنے بیٹے کو اُس کے باپ کی کامیابیوں کے بارے کچھ نہیں بتا یا تھا، بلکہ کسی ٹی وی شو میں کنگ آف کانگاز کی شکل دیکھ کر وہ چینل بدل دیتی تھی کہ کہیں بیٹا، باپ کو ٹی وی پر دیکھ کر کوئی سوال ہی نہ پو چھ لے، بیوی کو غصہ تھا کہ اُس کے شوہر نے ایک معذور بچہ پالنے کے لیے اُسے اکیلا چھوڑ دیا، شاید ایک ماں اپنے بچے کی محرومی کا انتقام لینا چاہتی تھی۔

وہ اپنے بچے کے باپ اور سابقہ شوہر کو ایک کامیاب اور دولت مند موسیقار بنتا دیکھ کر ہر گز پریشان نہ تھی کیونکہ اُسے یقین تھا کہ ایک باپ اُس وقت تک ہیرو نہیں بن سکتا جب تک اُس کے بچے اسے اپنا ہیرو تسلیم نہ کریں، یہی بات ایک دن ، اِس کا میاب موسیقار کو ، میوزک سے شدید نفرت کرنے والی، اُس کی سابقہ بیوی کے پاس لے آتی ہے۔

 باپ اپنی اکلوتی اولاد کے ساتھ رہنا چاہتا تھا لیکن قانوناً ، اُس کے لیے بچے کی ماں کی اجازت درکار تھی۔ اجازت کی کنجی نے جس دل سے کھلنا تھا وہ تو غصے اور انتقام کی آگ بھرا ہوا تھا۔ خیر عدالت نے کچھ شرائط کے ساتھ بیٹے کو اپنے باپ سے ملنے کی اجازت دی لیکن اُس کے لیے کڑی شرائط رکھیں، عدالت کی طے کردہ شرائط کے تحت ، باپ اپنی خوابوں کی سرزمیں فلوریڈا کو چھوڑ کر امریکہ کی اس ریاست میں منتقل ہو گیا جہاں اس کی سابقہ بیوی اور بیٹا رہتے تھے۔ وہ بھی نارتھ ویسٹ امریکہ کے ایک چھوٹے سے قصبے میں ۔

اپنی پرانی غلطیوں کا ازالہ کرنے کے لیے باپ کو بھاری قیمت چکانا پڑی۔اپنی پہلی بیوی تو وہ پہلے ہی چھوڑ چکا تھا۔ اب اس کی دوسری بیوی بھی اس سے ناراض ہو گئی کہ وہ اسے چھوڑ کر کیوں گیا۔ اتنی ناراض کہ بات دوبارہ طلاق تک آن پہنچی ۔ اُس کے بینڈ کے ساتھی بکھر گئے، اس کے تمام کنٹریکٹ کینسل ہوگئے۔ بس اُس کے پاس ایک اپنی کار رہ گئی تھی جس پر وہ اپنے دو کانگاز اور کچھ چھوٹے موٹے آلات ِ موسیقی رکھ کر قصبے کے معروف ریسٹورانوں یا قحبہ خانوں پر جا کر اپنے کانگاز بجانے کے فن کا اظہار کرتا۔

 وہ اپنے ڈرمزکو ایسی ردھم کے ساتھ پیٹتا تھا کہ سننے والوں کی چیخیں نکل جاتی تھیں، مگر وہ چیخیں خوشی کے اظہار کے لیے ہو تی تھیں، وہ خوشگوار آوازیں جو خاص موقعوں پر سنائی دیتی ہیں۔ جلد ہی وہ اس چھوٹے قصبے میں مشہور ہو گیا، وہاں کے نئے فنکار اور گلو کار اُسے اپنا گرو کہتے تھے ،سب جانتے اور مانتے تھے کہ وہ کنگ آف کانگاز ہے، وہ ایک ایسا بادشاہ تھا جس نے اپنی اولاد کی محبت میں، اپنی پوری سلطنت قربان کر دی ۔

اپنے بیٹے سے ملاقاتوں کے دوران وہ اسے والئین چلانا سیکھنے میں مدد بھی کرتا رہا، جلد ہی باپ ، اپنے بیٹے کے بارے میں بڑے بڑے خواب دیکھنے لگا، وہ اُسے دنیا کا ایک بڑا والئینسٹ دیکھنا چاہتا تھا، اُس نے دوبارہ ایک بینڈ بنانے کا سوچا ، وہ چاہتا تھا کہ اُس کا بیٹا بھی ، اُس کے بینڈ کا حصہ بنے اور باپ بیٹا دونوں مل کر دنیا کے بڑے بڑے میوزیکل شوز کریں، بیٹے نے بھی باپ کی ترغیب پر والئین بجانا سیکھنے پر توجہ دی ، لیکن باپ کی ایک غلطی نے ، اُس کے اپنے بیٹے کے ساتھ رہنے کے خواب کو چکنا چور کردیا۔

ہوا یوں اُس نے اپنی اور اپنے بیٹے کی ایک ویڈیو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اَپ لوڈ کر دی، جس میں باپ بیٹا دونوں مل کر جیمنگ کر رہے تھے۔ وہ بھول گیا تھا کہ عدالت نے ایسی کسی اشاعت پر پابندی لگا رکھی ہے جس کے ذریعے عام پبلک میں بچے کے والد کا نام یا ان کی ایک ساتھ کوئی تصویر ظاہر ہو، ،بچے کی ما ں کواور کیا چاہیے تھا، وہ اِسی تاک میں بیٹھی تھی کہ اُس کا سابقہ شریکِ حیات کوئی ایسی غلطی کرے جس سے اُسے بہانہ مل جائے اور وہ باپ بیٹے کے باقاعدہ ملنے پر عدالتی پابندی کی خلاف اپیل کر سکے۔

ماں اپنے تئیں،عدالتی فیصلے کے ذریعے اپنے بیٹے کو ، باپ کے منحوس سائے سے بچانا چاہتی تھی تاکہ وہ وائلین سیکھنے کی بجائے اپنی پڑھائی پر توجہ دینا شروع کرے۔ وہ جانتی تھی کہ اُس کا “ایکس” اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے، اُس نے اپنی تعلیم اور ملازمت کے لیے اپنے ماں باپ ، بہن بھائی اور سب رشتے دار پیچھے چھوڑے، اپنے گئے گزرے اور ادھورے خوابوں کی تکمیل کے لیے اپنی بیوی اور ایک معذور اولاد کو چھوڑا، ایک بیٹے کو باپ کی شفقت سے محروم رکھا اور اب وہ ایک ماں کو اپنے بیٹے سے جدا ہونے کی اجازت نہیں دے سکتی تھی،

ماں کو معلوم تھا کہ بیٹا اپنے باپ سے ملنے کے بعد کتنا خوش ہے ، لیکن وہ اُس کے باپ پر اعتماد نہیں کر سکتی تھی، در اَصل وہ ڈرتی تھی کہ کہیں باپ اپنے بیٹے کو بھی چھوڑ کر نہ چلا جائے، وہ معذور بیٹا جسے مستقل طور کسی کےساتھ کی ضرورت رہتی، اسے خوف لاحق رہتا کہ اس کے بیٹے کا باپ کہیں دوبارہ اپنوں کو چھوڑنے کی وہی حرکت نہ دہرائے  جیسا کہ وہ اپنی کامیابی کے سفر میں کرتا آ رہا تھا، اپنے عزیزواقارب کو پیچھے چھوڑ کر بھو ل جانا ۔ ماں جانتی تھی کہ اُس کے بیٹے کا باپ ایک ذمہ دار شخص نہیں ہے، ماں نے عدالت کے ذریعے باپ بیٹے کے اکٹھے رہنے پر دوبارہ تا حیات پابندی لگوا دی مگر کچھ مزید کڑی شرائط کے ساتھ۔

اب کی بار، باپ بیٹا دونوں مل تو سکتے تھے لیکن کسی کی نگرانی میں اور محدود وقت کے لیے، انہیں آپس کی ملاقات کے دوران کسی قسم کی میوزیکل اکٹیوٹی کرنے کی اجازت بھی نہیں تھی، عدالتی پابندیوں کی وجہ سے باپ کو ایک سال کے لیے قصبے سے دور رہنے کی ہدایت کی گئی اور وہ واپس فلوریڈا آکر ، اپنے دوستوں کے پاس رہنے لگا، اُس کو دوسری بیوی سے بھی طلاق ہو چکی تھی اور طلاق کے چکر میں وہ اپنے گھر سے بھی محروم ہو گیا۔

 مشکل وقت کے اس کے دوست کام آئے ، اُن کے ہاں ، اسے دن کا کھانا اور رات کی چھت میسر تھی، اپنی بچت کے منافع سے وہ اپنی زندگی کی باقی ضروریات پو ری کرتا رہا ۔ دوستوں نے اُسے دوبارہ بینڈ بنانے کا مشورہ دیا اور وہ بھی یہی چاہتا تھا ۔ اُس نے اپنے ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ، ایک نیے بینڈ کی بنیاد رکھی، اس نے اپنا لاطینو جیز شو شروع کر دیا اور دوبارہ اُس کا بینڈ، ایک نئے برینڈ نیم کے ساتھ ، شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگا۔

 وہ خودقدرے بوڑھا ہو چکا تھا لیکن اُس کا فن ابھی تک جوان تھا، جلد اُس نے اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر لیا، مگر اب کی بار وہ اپنی کامیابی سے خوش نہ تھا، وہ جانتا تھا کہ اُس کا بیٹا اُسے اپنا ہیرو نہیں مانتا ، اُس نے اپنے بینڈ میں سب نوجوان آرٹسٹوں کو شامل کیا ، ہر خوش شکل اور لیاقت مند نوجوان آرٹسٹ کے چہرے میں اُسے اپنے بیٹے کا روپ دکھائی دیتا ، لیکن پھر منظر بدلتے ہی ، بیٹے کا اداس چہرہ اُس کی آنکھوں کے سامنے آ جاتا۔

وہ ایسا محسوس کر نے لگا جیسے اُس کا بیٹا ، ایک بلند منزل کی کسی کھڑکی میں بیٹھا ، اپنے والئین کی ٹوٹی ہوئی سٹک کو بار بار اپنےدوسرے ہاتھ پر مار رہا ہے، وہ کھڑکی کے شیشے میں دیکھ کر عجیب و غریب شکلیں بناتا ہے، طرح طرح کی آوازیں نکالتا ہے، وہ کیا دیکھتا ہے کہ اُس کا بیٹادوسروں سے نظر چرانے کا عادی بن گیا ہے ، اب اُسے اپنے آپ سے بھی ڈر لگتا ہے، وہ اپنے اندر خالی پن محسوس کرتا ہے اور تیسر ی منزل سے چھلانگ لگانے کا سوچتا ہے۔

 یہ سب کچھ سوچنا ہی کتنا مشکل ہے، لیکن آٹ ازم کا شکار بچے کچھ ایسے ہی ہوتے ، تنہا تنہا، غیر سماجی رویے کے حامل، انہیں اپنا مافی الضمیر بیا ن کرنے میں مشکل پیش آتی ہے، وہ سیکھنے کے عمل میں بھی دوسروں سے پیچھے رہ جاتے ہیں، یہ سب کچھ برداشت کر نا ایک حساس طبعیت کے مالک باپ کے لیے کسی مسلسل عذاب سے کم نہیں تھا ، لیکن باپ کو اپنے بیٹے کا ہیرو بننا تھا، اُس نے ایک پلان سوچا اور اپنے بیٹے کے نظروں میں ہیرو بننے کی کوشش کی۔

اِس کہانی کا کلائمکس اُس وقت شروع ہو تا ہے جب باپ نے اپنی پہلی البم ریلیز کرنے کی منصو بہ بندی کی اور اُس نے اپنی البم کی تمام کمائی آٹ ازم پرتحقیق کرنے والے ایک میڈیکل پراجیکٹ کے لیے وقف کر دی۔ وہ چا ہتا تھا کہ البم ریلیز ہو نے کی تقریب میں اُس کا بیٹا مہمانِ خصوصی بنے، لیکن اُسے پھر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا، اِسی کا م میں اُس کا اچھا وکیل دوبارہ کا م آیا۔

 عدالت نے ڈاکٹروں اور ماہرین کی رائے مان لی اور بیٹے کو باپ کی کامیابی دیکھنے کا موقع مل گیا، البم ریلیز کرنے کے لیے ، فلوریڈا کے ایک بڑے ہسپتال نے ایک چیرٹی شو کا بندوبست کیا، تقریب کا ہال، تماشیوں سے کچھا کچھ بھر جاتا ہے ،باپ نے اپنے بینڈ کے ساتھ سٹیج پر پر فام کیا، خوب تالیا ں بجیں، آٹ ازم پرتحقیق کے لیےخوب فنڈ اکٹھا ہو ا مگر اِس مرض کا شکار ایک بیٹے کو کسی نے تالیاں بجاتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔

 وہ اُداس تھا کہ آج وہ اپنے باپ کے بینڈ کا حصہ کیوں نہیں، وہ سٹیج پر بیٹھ کر اپنے باپ کے ساتھ پرفارم کرنا چاہتا تھا لیکن عدالتی حکم اس کی راہ میں رکاوٹ تھا ، وہی مریض اور مرض کی پرائیویسی کے قوانین آڑے آئے، بچے کے باپ کی شناخت ظاہر کرنے پر بھی پابندی بر قرار رہی، تقریب میں کچھ لوگوں کو ہی باپ بیٹے کی حقیقت معلوم تھی ، بیٹا اپنے باپ کی سجائی گئی محفل میں مہمان خا ص بن کر آیا تو تھا لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ آج کا مہمانِ خصوصی کس کا بیٹا ہے۔

 اُسے تقریب میں مدعو کرنے کی شرط اُس کے باپ کی تھی جو چیرٹی شو کا انتظام کرنے والوں نے پوری کر دی، باپ بیٹے کا سامنا تو ضرور ہو ا لیکن پسِ پردہ، باپ اور بیٹے کے درمیان اتنا فاصلہ رکھا گیا جتنا ہال میں رکھے پہلی قطار کے صوفوں اور سٹیج پر رکھی کر سیوں کے درمیان ہوتا ہے۔ یہ کہانی اُس وقت ختم ہو جاتی ہے جب بیٹا تقریب کے دوران غصے سے اٹھتا ہے اور باہر چلا جاتا ہے، وہ باہر جا کر اپنی کار کے شیشے پر زور سے مکا مارتا ہے جس اس کا ہاتھ شدید زخمی ہوجاتاہے، ماں بھی اُس کے پیچھے پیچھے باہر آ جاتی ہے اور بچے کے ہاتھ کی حالت دیکھ کر اُسے ہسپتال لے کر چلی جاتی ہے۔ امریکہ کا یہ باپ دنیا کی نظروں میں ایک مرتبہ پھر ہیرو بن چکا تھا لیکن اُس کے بیٹے کی آنکھوں میں ابھی بھی کچھ سوال باقی تھے ۔ 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments