خواتین کے حقوق اور معاشرتی رویہ


آج سے چودہ سو سال پہلے ہمارے نبی اکرم ﷺ پر وحی کی صورت میں قرآن پاک کا نزول ہوا۔ جو تمام بنی نوع انسانیت کے لئے مشعل راہ بھی ہے اور ہدایت کا سرچشمہ بھی۔ اہل ایمان جو متقی ہیں۔ وہ اس پاک کلام سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ اور فلاح بھی پاتے ہیں۔ کیوں کہ قرآن پاک ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اس پاک کلام میں ہدایت پانے والوں کے لئے کھلی نشانیاں ہیں۔ اس کے باوجود اگر ہم زندگی گزارنے کے آداب نہیں جانتے۔ تو اس کا ایک ہی مطلب ہو سکتا ہے۔ یعنی ہم اسلامی تعلیمات اور احکامات سے بے بہرہ ہیں۔ زندگی کا بیشتر حصہ ہم نے بھول بھلیوں میں گزار دیا ہے۔ ہمارے اندر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ماند پڑ چکی ہے۔ ہم بطور مسلمان سیدھے راستے سے بھٹک چکے ہیں۔ اگر اپنی عاقبت سنوارنی تو ہمیں قرآن پاک اور احادیث سے روشنی حاصل کرنی چاہیے۔

آج ہماری بہنیں اور بیٹیاں لبرل ازم، بنیاد پرستی اور انتہاپسندی کے دائرے کے اردگرد گھوم پھر کر اپنے لئے زندگی گزارنے کے راستے تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔ وہ ان چکروں میں پڑی ہوئی ہیں کہ کس طرح کا لباس زیب تن کرنا ہے۔ اگر جین یا چست لباس پہنوں گی۔ تو گھر کے مرد اعتراض کریں گے۔ اگر نہ پہنا تو دوستوں کی محفل میں ناک کیسے اونچی ہوگی۔ باہر نکلنے اور دیر سے گھر واپسی پر سوال و جواب کا سلسلہ کیوں شروع ہوجاتا ہے۔ شادی کے معاملے پر گھر والے اپنی رائے ٹھونسنے پر کیوں مصر ہیں۔ اپنی مرضی کیوں نہیں کرنے دی جاتی۔ مردوں کے ساتھ دوستی پر گھر والے اعتراض کیوں کرتے ہیں۔ دوسرے شہر جا کر ملازمت کیوں نہیں کرنے دی جاتی۔ مخلوط تعلیم حاصل کرنا گالی کیوں سمجھا جاتا ہے۔

صنف نازک کا ایک حصہ جو اقلیت میں ہے۔ محض اپنی نادانی اور احساس کمتری کی وجہ سے گوناگوں مسائل کا شکار ہے۔ بجائے اس کے احکامات خداوندی پر عمل کر کے اپنی زندگی پرسکون بنائی جائے۔ آج کی عورت کم عقلی کی وجہ سے اپنے آپ کو تماشا بنانے پر تلی ہوئی ہے۔

ایک لکھاری عورت کی سوچ کے مطابق مختصر لباس پہننے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی لڑکی اپنے جسم کی نمائش کر رہی ہے۔ بلکہ ایسا کر کے وہ تازہ ہوا اور سورج کی روشنی کا لطف اٹھانے کی آرزو مند بھی تو ہو سکتی ہے۔

اگر کوئی خاتون اس طرح کی خواہش رکھتی ہے تو گھر کی چاردیواری کے اندر رہ کر ایسا کرے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی مسلمان مشرقی عورت کاسٹیوم پہن کر کسی کلب کے پول میں نہانے اور سورج کی تپش حاصل کرنے سے تو رہی۔ یہ چونچلے مغربی معاشرے میں ہی اچھے لگتے ہیں۔ ہمارا دین ایسی خرافات کی قطعی طور پر اجازت نہیں دیتا۔

صنف نازک کو یہ بات ذہن نشین کرنی ہوگی۔ کہ ہمارے پیارے دین نے نہ صرف خواتین بلکہ مرد حضرات کے لئے بھی زندگی بسر کرنے کے ضابطے مقرر کر دیے ہیں۔ خواتین نے پردہ کرنا ہے۔ اور مردوں نے ہر حال میں اپنی نگاہوں کی حفاظت کرنی ہے۔ اس میں کسی قسم کا اگر مگر، لبرل ازم، انتہا پسندی، بنیاد پرستی، دقیانوسیت یا جاہلیت کا سوال نہیں پیدا ہوتا۔ اور نہ ہی اس سے عورتوں کی آزادی اور حقوق پامال ہوتے ہیں۔ دین اسلام میں اگر عورت کے پردے میں ملبوس ہونے کے احکامات موجود ہیں۔

تو کسی مرد و زن کو اس بات کا کوئی حق نہیں ہے۔ کہ وہ اس پر نکتہ چینی کرے یا ناک بھوں چڑھائے۔ قرآن پاک، حدیث اور فقہ کی کتابوں کی موجودگی کے باوجود بھی خواتین اگر اپنے حقوق کے لئے پریشان ہیں۔ تو یہ قابل افسوس بات ہے۔ تمام مسائل کا حل دین اسلام نے بڑی صراحت کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے۔ کہ ہم اپنے دین سے کس طرح راہنمائی حاصل کر کے اپنی زندگی پرسکون بنا سکتے ہیں۔

اسلامی احکامات کے مطابق عورت کو گھر کی چار دیواری کے اندر رہ کر امور خانہ داری سر انجام دینے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ گھر سے باہر نکلنے کے آداب بتا دیے گئے ہیں۔ کہ اگر باہر جانے کی ضرورت پیش آئے تو بناؤ سنگھار کر کے یا ایسے انداز سے جس سے عورت کا بناؤ سنگھار ظاہر ہو، باہر نہیں نکلنا چاہیے۔ اس کے علاوہ ایسے لباس میں بھی جس سے ان کا سر، چہرہ، بازو اور چھاتی وغیرہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کریں، پہننے سے گریز کرنا چاہیے۔ یعنی اپنی زینت کو لوگوں پر ظاہر کرنے سے اجتناب برتنے کے احکامات واضح طور پر بیان کر دیے گئے ہیں۔

اگر ایک نوجوان لڑکی مختصر کپڑے پہنتی ہے یا ایسا لباس زیب تن کرتی ہے۔ جس کی وجہ سے اس کے پوشیدہ اعضاء نمایاں ہوتے ہوں۔ تو اس صورت میں مردوں کے اندر منفی جذبات نمودار ہونے کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔ جو برائی کے وجود میں آنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ لہذا قرآن اور حدیث میں خواتین کو سختی کے ساتھ ستر پوشی کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں کسی طبقے کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں ہے۔ کیوں کہ اگر کوئی والد یا بھائی اپنی بیٹی یا بہن کو باپردہ رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ تو وہ بنیاد پرست نہیں ہوتا۔ دراصل وہ احکامات خداوندی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا کرتا ہے۔ اس لئے صنف نازک کو کسی قسم کا اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ کیوں کہ شریعت کے مطابق زندگی گزارنے سے ہی معاشرے میں امن و سکون برقرار رہتا ہے۔ اور بے پردگی سے فساد اور برائیاں جنم لیتی ہیں۔

ایک خاتون اپنے مضمون میں لکھتی ہیں کہ عالمی برادری کو گھروں میں قید عورتوں کی دادرسی کے لئے قدم اٹھانا چاہیے۔ کیوں کہ بنیاد پرست گھرانوں نے آزادی کی متلاشی خواتین کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ وہ انہیں اپنی مرضی کی زندگی جینے نہیں دیتے۔ بقول ان کے ایک آزاد سوچ کی مالک عورت ایک بنیاد پرست گھرانے میں بڑی تکلیف دہ زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہے۔ ایسی عورت نہ احتجاج کر سکتی ہے اور نہ ہی قانونی مدد طلب کر سکتی ہے۔

میں ان کی یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ بنیاد پرستی کے وہ کیا معنی اخذ کرتی ہیں۔ وہ خاندان جس کے تمام افراد اسلامی اصولوں کے مطابق اپنے حقوق و فرائض کی انجام دئی میں مصروف ہوں۔ ان کو بنیاد پرست کہنا درست نہیں ہے۔

کہا جاتا ہے کہ سوسائٹی میں چند طبقات ایسے ہیں جو صنف نازک کو اپنے اپنے انداز میں ڈیل کرتے ہیں۔ کوئی ان کو سخت پردے میں رہنے پر مجبور کرتا ہے۔ نہ اسے خوشبو چھڑکنے کی اجازت ہوتی ہے اور نہ کھل کر ہنسنے مسکرانے کی۔ اور نہ ہی اسے تعلیم اور ملازمت کی اجازت ہوتی ہے۔ ایک طبقہ ایک خاص حد تک عورت کو تعلیم اور پھر ملازمت پر جانے کی مشروط اجازت دیتا ہے۔ جب کہ لبرل طبقے سے تعلق رکھنے والے اپنی بہن اور بیٹی کے راستے میں حائل نہیں ہوتے۔ اپنی مرضی کا لباس زیب تن کرنا ہو یا کسی مرد کے ساتھ دوستی قائم کرنی ہو۔ اسے مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے۔ رات کو دیر کے ساتھ گھر لوٹنے پر اس سے کوئی پوچھ گچھ بھی نہیں ہوتی۔

غرض کہ معاشرے کے مختلف طبقات اپنی اپنی سوچ کے مطابق عورتوں کو آگے بڑھنے کی اجازت دیتے ہیں۔ بجائے اس کے صنف نازک پر بے جا پابندیاں لگائی جائیں یا کھلی چھوٹ دی جائے۔ اس معاملے پر دین اسلام سے راہنمائی لی جائے تو بہتر رہے گا۔

یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ چند خواتین کو چھوڑ کر صنف نازک کا ایک بڑا حصہ اپنے اپنے گھروں میں پرسکون زندگی گزار رہا ہے۔ وہ نہ اپنے آپ کو یرغمال سمجھتی ہیں۔ اور نہ ہی اپنے اندر کسی قسم کی گھٹن محسوس کرتی ہیں۔ کیوں کہ وہ اچھی طرح جانتی ہیں۔ کہ اللہ کا دین عورت پر جبر بالکل نہیں کرتا۔ اور نہ ہی ان کی آزادی کے راستے میں حائل ہوتا ہے۔

اگر کسی اور وجہ سے عورت کو کسی مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ یا اس کو جائیداد میں حصہ نہیں دیا جا رہا ۔ تو وہ دستیاب قوانین کے تحت اپنے حقوق کے لئے مناسب فورم پر رجوع کر سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments