جام صاحب کی رخصتی اور نئی امیدیں؟


جام صاحب رخصت ہو گئے، جہاں رہیں خوش رہیں، کیونکہ اس کے جانے سے سب خوش ہیں اور اس کی موجودگی میں کوئی خوش نہ تھا، نہ اپوزیشن نہ اتحادی نہ اپنی پارٹی کے لوگ، یہ حقیقت ہے بلوچستان سمیت پورے ملک میں انتظامی سسٹم ڈیلیور کرنے میں ناکام ہے اس لیے ناکامی کا ذمہ دار کسی ایک شخص کو قرار نہیں دیا جاسکتا ہے، مگر حکومت چلانے میں ذاتی رویوں کا عمل دخل رہتا ہے، جام کمال اپنے والد جام یوسف کے برعکس بنا کر چلنے والے نہ تھے، وہ عقل کل اور ارسطوئے زماں تھے، سیاسی رواداری، پارلیمانی اخلاقیات اور علاقائی روایات انہیں چھو کر بھی نہیں گزرے تھے، جام صاحب کے تین سال میں بلوچستان کا ہر طبقہ احتجاج پر تھا، کیا ڈاکٹر کیا اسٹوڈنٹس کیا لیبر کیا ٹیچر، حتی کے ان کی کابینہ کے ممبر اور اتحادی احتجاج پر رہے، سردار یار محمد رند نے احتجاجاً وزارت چھوڑ دی، صالح محمد بھوتانی نے احتجاج کیا تو ان سے وزارت لے لی گئی، ان کے قریبی دوستوں کو شکایت تھی کہ وہ کسی سے نہیں ملتے ہیں۔ بولتے اچھا تھے یعنی ”علاج غم نہیں کرتے فقط تقریر کرتے ہیں“ کے مصداق تھے بلکہ ایک قدم اور۔ باعث غم بھی تھے۔

اپوزیشن نے جام کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں باپ کے ناراض اراکین کا ساتھ دیا اس پر سوالیہ نشان لگا کہ باپ کے آپسی تنازعے میں اپوزیشن نے باپ کے ایک ناراض دھڑے کو کیوں اپنا کندھا پیش کیا، مگر حقیقت میں دیکھا جائے تو اپوزیشن نے اپنے پتے بہت خوبصورت انداز میں کھیلے، جام صاحب نے ان تین سالوں میں اپوزیشن کو جس طرح دیوار سے لگائے رکھا ماضی میں شاید ہی اس کی مثال ملے، اپوزیشن ممبران کے حلقوں میں بجائے ایم پی اے ایز کو ترقیاتی فنڈز ریلیز کرنے وہ غیر منتخب لوگوں کو فنڈز جاری کرتے رہے، جن کا بہت بڑا حصہ کرپشن اور سیاسی رشوت کی نذر ہوجاتا، اور منتخب ایم پی ایز اپنے ووٹرز سے منہ چھپاتے پھرتے، ان کے لیے حلقوں میں جانا دوبھر ہو گیا تھا، اس پر اپوزیشن نے اسمبلی فلور پر بارہا احتجاج کیا مگر نتیجہ وہی چکی کے دو پاٹ ہی رہتے، گزشتہ بجٹ میں اپوزیشن کی تجاویز تو اپنی جگہ، انہیں بجٹ کی تیاری کا علم ہی نہ ہونے دیا گیا، اور جام صاحب نے فرمایا تھا کہ ہمیں خود بجٹ ابھی ملا ہے، بجٹ کہاں سے آیا یہ جام صاحب ہی جانتے ہوں گے، یا ان کے ”فرشتے“ ۔

بجٹ میں کلی نظرانداز کرنے پر جب اپوزیشن نے سخت ردعمل دیا تو بجائے یہ کہ سیاسی روایات، علاقائی مزاج اور پارلیمانی اقدار کو مدنظر رکھ کر اپوزیشن سے نتیجہ خیز مذاکرات کیے جاتے، ان پر بکتر بند گاڑی چڑھا دی گئی اور بے عزت کیا گیا، بعد ازاں ان کی ایف آئی آر کاٹی گئی، معزز اراکین نے دو ہفتے تھانے میں گزارے، یہی عمل جام صاحب کی حکومت کے خاتمے کا ٹرننگ پوائنٹ بن گیا اور اپوزیشن نے اندرونی تنازعے سے فائدہ اٹھا کر انہیں گھر بھیجنے کا فیصلے کا ساتھ دیا۔ دیوار کی سرگوشیاں ہیں کہ جام صاحب کی رخصتی دو ”طاقتوں“ کی باہمی رسہ کشی کا نتیجہ ہے۔

بلوچستان میں ماضی کی حکومتیں کچھ آزاد ہوا کرتی تھیں، اپنے طور پر فیصلے بھی لے لیتی تھیں، مگر حالیہ برسوں میں مکمل کنٹرولڈ حکومتیں بنائی جاتی ہیں، وزراء اور مشیران کی فہرستیں اسٹیبلشمنٹ کی راہداریوں سے گزر کر وزیراعلی کے ٹیبل پر پہنچتی ہیں، بلوچستان سے متعلق جو بھی پالیسیاں ہوں یا اور دیگر فیصلے، نہ وہ جام کر سکتا تھا نہ ہی قدوس بزنجو کے بس کی بات ہے، تبدیلی کا فرق یہ ہے کہ قدوس بزنجو کے رویے سے اپوزیشن نالاں نہیں ہو گا اور وہ اپنے ساتھیوں و اتحادیوں کو بہتر انداز میں ساتھ رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس کی کرسی کا فاصلہ اتنا دور نہیں ہو گا کہ کوئی ان تک پہنچ نہ سکے، میل جول رکھے گا، رابطوں کو فروغ دے گا، لوگوں کو سنے گا، مسائل پر مذاکرات کرے گا باقی اللہ اللہ خیر صلہ۔

نئے وزیر اعلی کی آمد نوید انقلاب نہیں ہے تاہم اس کی پہلی تقریر انقلابی تھی، اس نے اپنے پہلے خطاب میں آئی جی کو مخاطب کرتے ہوئے غیر ضروری چیک پوسٹ ختم کرنے کا حکم دیا، حالانکہ بلوچستان کو پولیس چیک پوسٹوں سے اتنے مسائل نہیں ہیں جتنے ایف سی چیک پوسٹوں سے ہیں، جہاں روزانہ لوگ اپنی تذلیل برداشت کرلیتے ہیں، جو اب ناقابل برداشت ہو چکا ہے۔

وزیر اعلی نے اپنی نامزدگی سے قبل سرحدی کاروبار پر لگی قدغنیں دور کرنے کا عندیہ دیا ہے، یہ ایک درست اقدام ہے، بلوچستان کے ہزاروں خاندان سرحدی کاروبار سے دو وقت کی روٹی حاصل کرتے ہیں لیکن اس پر مسلسل بندشیں اور رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں، جس سے ہزاروں چولہے بجھ گئے ہیں، مکران بارڈر جہاں ایران سے تجارتی سرگرمیوں سے گزر بسر چلتا رہتا ہے اب بند ہو چکا ہے، اپنے وعدے کے مطابق نئے وزیر اعلی اگر سرحدی تجارت پر حائل رکاوٹیں ہٹا دیں تو یہ اس کی بڑی کامیابی سمجھی جائے گی (منشیات کا کاروبار بلا روک ٹوک جاری ہے۔)

ایف سی کو پولیس کے اختیارات دیے گئے ہیں جن کا نتیجہ عام لوگ بھگت رہے ہیں، اس پر ہر طرف سے آوازیں اٹھنا شروع چکی ہیں، لوگوں کو بلاوجہ تنگ کرنا معمول بن گیا ہے، اگر نئے وزیر اعلی ایف سی سے پولیس اختیارات واپس لے کر ان کے غیر ضروری چیک پوسٹس بالخصوص شہری حدود میں قائم پوسٹ کو ہٹانے کا حکم صادر فرمانے کی جرآت کرے تو اسے اچھے لفظوں میں یاد کیا جائے گا۔

ملازمین بے شمار مسائل کا شکار ہیں، میڈیکل اسٹوڈنٹس اور ٹیچرز کے درجنوں تحفظات ہیں، انتظامی ڈھانچہ رک گیا ہے، تعلیم، صحت، پانی، بجلی اور سڑکوں پر کام کرنے اور زنگ آلود ڈھانچے کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے، نئے وزیر اعلی کتنا کر پائیں گے وہ وقت پر چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ خود مڈل کلاس پس منظر رکھتے ہیں، ان کا اپنا علاقہ بلوچستان کا پسماندہ ترین ضلع ہے، اس کے لیے ہر طرف کرنے کے بہت سارے کام ہیں۔ اپوزیشن بھی انہیں بلاوجہ تنگ نہیں کرے گی، اتحادی بھی ان کی بلائیں لینے پر آمادہ ہیں، دیکھتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں کہ وہ کیا کچھ کر پائیں گے، بڑی امیدیں نہیں ہیں، بس یہی آس ہے کہ حالات اب مکمل ”جام“ نہیں کچھ متحرک ضرور ہوں گے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments