سیاسی جماعتوں کی گمشدگی


معروف اخبار نویس مقصود بٹ نے وفاقی دارالحکومت میں امور مملکت کے حوالے سے پائے جانے والے تذبذب کو بیان کرتے ہوئے لکھا کہ بیشتر حکومتی عہدیدار اس کو سیاسی گمشدگی کی فضا میں محسوس کر رہے ہیں۔ ایک سیاسی جماعت دراصل اپنے سیاسی موقف سے ہی پہچانی جاتی ہے۔ سیاسی موقف میں سماجی، تہذیبی، اقتصادی اور کسی حد تک مذہبی موقف بھی شامل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ قومی مستقبل کا واضح ادراک رکھنا بھی ایک سیاسی مستقبل کا حصہ ہوتا ہے یا پھر ہونا چاہیے۔

اس مرحلے پر یہ سوال بھی ابھرتا ہے کہ صرف حکومتی سیاسی جماعت ہی نہیں بلکہ ہماری ساری سیاسی جماعتیں ہی سیاسی گمشدگی کی فضا میں رہ رہی ہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں کسی لمبے لائحہ عمل کو اختیار کرنے کی بجائے ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ جب بھی ملکی یا بین الاقوامی سطح پر کوئی غیر معمولی واقعہ رونما ہوتا ہے تو ہماری بیشتر سیاسی جماعتیں اس پر کوئی واضح موقف اختیار کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔

کیونکہ ان کے پاس مقامی اور بین الاقوامی سیاسیات کی کوئی واضح فراست اور دانش ہی موجود نہیں کہ وہ کسی ملکی یا بین الاقوامی بحران پر کوئی موقف اختیار کر سکیں۔ مثال کے طور پر ہمارے ہمسایہ ملک میں اتنی بڑی اکھاڑ پچھاڑ ہوئی ہے لیکن ابھی تک کسی بڑی سیاسی جماعت نے نہ ہی اپنا مطالعاتی وفد وہاں بھیجا ہے اور نہ ہی ان کا اس بارے کوئی واضح موقف سامنے آیا ہے۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ آج کی ہماری مادیت پرست سوسائٹی میں کوئی سیاسی کارکن محض ڈیسک ورکر بننے کو تیار نہیں۔

اس کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی ممبری پر نظریں رہتی ہیں۔ سب سے پہلے جمہوریت کی بقا کے لئے تعلیم لازم ہے تاکہ ووٹرز مختلف جماعتوں کے منشور پڑھ اور سمجھ سکیں۔ لیکن یہ بھی ہمارا سیاسی المیہ ہے کہ شاید ووٹروں کو کسی بھی جماعت کا منشور دستیاب نہیں۔ پاکستان میں حکومت پر جاگیرداروں کا کنٹرول رہا ہے۔ انہوں نے تعلیم پر بھی اپنا کنٹرول رکھا اور تعلیم کو بڑھنے نہیں دیا۔ ملک کی نصف آبادی لکھنے پڑھنے سے قاصر ہے۔

تعلیم کے سلسلے میں سب سے بڑا گناہ شاید انجانے میں بھٹو سے ہوا تھا۔ ان کے حکم سے تمام غیر سرکاری تعلیمی اداروں کو حکومتی تحویل میں لے لیا گیا۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی بننے والے یہ تعلیمی ادارے مسلم لیگیوں کے قبضے میں تھے۔ ہندوؤں اور سکھوں کے تعلیمی اداروں کی شاندار اور وسیع عمارتوں میں بننے والے یہ مسلم تعلیمی ادارے خالصتاً رفاہی تھے۔ آنوں ٹکوں میں لوگوں کو تعلیم میسر آجاتی تھی۔ بھٹو سے مقامی مسلم لیگیوں کی ان تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کی شکل میں معتبری برداشت نہ ہو سکی۔

ان اداروں کے حکومتی تحویل میں چلے جانے سے ایک خلا پیدا ہو گیا۔ مہنگے پرائیویٹ تعلیمی ادارے مارکیٹ میں آ گئے۔ تعلیم فروشی ایک انڈسٹری بن گئی۔ تعلیم مہنگی ہو کر عام آدمیوں کی پہنچ سے باہر ہو گئی۔ عام آدمی دوسری سمت جانے پر مجبور ہو گیا۔ ادھر ملک میں 86 ہزار دینی مدرسے قائم ہو گئے جہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ مفت روٹی اور رہائشی سہولت بھی ان غریب غربا کی منتظر تھی۔ پھر سیاسی جماعتیں قطعاً غیر جمہوری انداز میں چلائی گئیں۔ پیپلز پارٹی کا منشور جے اے رحیم کی سرکردگی میں بنی کمیٹی نے تیار کیا تھا۔

جب یہ منشور بھٹو کی خدمت میں پیش کیا گیا تو بھٹو کا جماعتی ڈھانچہ کی تشکیل کے بارے میں سوال تھا۔ وہ پوچھنے لگے کہ جماعتی عہدیداروں کا منتخب کرنے کا کیا طریقہ کار ہو گا؟ جے اے رحیم نے جواب دیا کہ سردست یہ تمام عہدیدار نامزد کیے جائیں گے۔ ایک لمبے عرصے تک سیاسی کارکنوں کی تربیت کے بعد ہی ہم ان کی بذریعہ انتخاب تقرری کے قابل ہو سکیں گے۔ نامزدگیوں کے ذریعے جماعتی عہدیداروں کے تقرر میں روپیہ ایک اہم فیکٹر کا کردار ادا کرنے لگا۔

انتخابی ٹکٹوں کی پارٹی فنڈ کے عوض فروخت کوئی لکی چھپی بات نہ رہی۔ کئی برسوں سے تحریک انصاف کے پارٹی فنڈنگ کے معاملات الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہیں۔ ہر طریقہ سے سماعت میں تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں تاکہ فیصلہ نہ ہو سکے۔ اس معاملہ میں تحریک انصاف، مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی ایک پیج پر ہیں۔ کسی کا دامن مالی آلودگی سے صاف نہیں۔ مالی پاکیزگی ہماری سیاسی جماعتوں کی اخلاقی فہرست سے خارج ہو چکی ہے۔

ٹالسٹائی نے اپنے افسانہ ”دو گز زمین“ میں زمین کی ملکیت بارے انسانی لالچ کا مذاق اڑایا ہے۔ انسان کو زندگی بسر کرنے اور مرنے پر تدفین کے لئے تھوڑی سی جگہ چاہیے۔ لیکن وہ تھوڑی سی جگہ پر صبر کرنے کو تیار نہیں۔ ہمارے ساتھ آزادی حاصل کرنے والا انڈیا اپنے ملک میں کب کی جاگیرداری ختم کر چکا ہے۔ ہم ابھی تک اس سلسلے میں کچھ نہیں کر پائے۔ بھٹو پارٹی بھی جاگیرداری ٹھاہ کا نعرہ بھول بیٹھی ہے۔ باقی جماعتوں کا یہ کبھی بھی نعرہ نہیں رہا۔

اب جاگیرداری کا معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ جی ایم سید کے بیٹے اور جانشین سید محمود جلال شاہ جو سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے صدر بھی ہیں، سرے سے اس بات سے انکاری ہیں کہ سندھ میں جاگیرداری کی وجہ سے عوام کی زندگی عذاب میں ہے۔ جاگیرداری کے اس مسئلے پر سپریم کورٹ میں بوڑھے عابد منٹو کی رٹ شاید ان کی موت کی ہی منتظر ہے۔ ہمارا آج کا سب سے اہم سوال یہی ہے کہ زمین کی ملکیت میں ان لوگوں کے حقوق کا تعین کیا جائے جو ملک بھر میں کہیں بھی ایک انچ زمین کی ملکیت نہیں رکھتے۔

ہمارے ملک میں رہائشی مسئلہ ان لوگوں کا نہیں جو اپنے مکان یا فلیٹ کی بینک قرضہ کی قسطیں دے سکتے ہیں۔ مسئلہ ان لوگوں کا ہے جو بینک قسط نہیں ادا کر سکتے۔ یہی پندرہ بیس ہزار روپے ماہوار کمانے والے لوگ جن کا پیٹ اپنی آمدنی سے پہلے ہی نہیں بھرتا۔ ہم ابھی تک یہ بھی طے نہیں کر سکے کہ ریاست ایک فرد کو رہائشی مقاصد کے لئے کتنی زمین استعمال میں لانے کی متحمل ہے۔ اس سے زیادہ سیاسی گمشدگی اور کیا ہو سکتی ہے۔ اک زمانہ تک ہمارے ملک کی وکلا تنظیمیں سیاسی جماعتوں کی آئینی، قانونی اور دیگر امور میں مددگار اور رہنما ثابت ہوتی تھیں۔ آج کے سیاسی گمشدگی کے عہد میں وکلا تنظیموں کی قیادت میں بھی کردار اور قانونی لیاقت کا کوئی کریڈٹ نہیں رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments