مریم نواز شریف کے سیاسی محرکات


ہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ مریم نواز شریف انتہائی قلیل مدت میں کانٹے دار تاروں کو عبور کرتے ہوئے پاکستان میں ایک مقبول سیاسی لیڈر کے طور پر ابھری ہیں۔ جب 2013 کے عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ نون نے چاروں صوبوں میں اکثریت حاصل کی تو میاں محمد نواز شریف تیسری دفعہ ملک کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے اور وزیراعظم بننے کے بعد میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز شریف نے ملکی معاملات میں اپنے باپ کے ساتھ ہاتھ بٹانے کا فیصلہ کیا۔

بظاہر مریم نواز شریف اپنی والدہ کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد سے بہت متاثر تھیں کیونکہ 1999 ء میں جب میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹایا گیا اور شریف خاندان کے 12 افراد کو پابند سلاسل کیا گیا تو اس وقت کلثوم نواز ہی تھیں جو مسلم لیگ نون کو فرنٹ لائن پر لیڈ کر رہی تھیں اور ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے جبر کا بہادری کے ساتھ مقابلہ کر رہی تھی۔ کلثوم نواز کا بھی ملکی سیاست میں کافی عمل دخل رہا ہے لیکن یہ علیحدہ بات ہے کہ نواز شریف کے وزیراعظم بننے کے بعد وہ گھریلو خاتون بن کر گھر کی ذمہ داریاں ادا کرنے کو اہم سمجھتی تھیں۔

سیاست سے پہلے مریم نواز شریف رفاہی خدمات سر انجام دے رہی تھی اور شریف ٹرسٹ کے ذریعے مختلف بیماریوں کا شکار ہونے والے افراد کا شریف میڈیکل کمپلیکس میں مفت علاج کرواتی تھی اور مالی طور پر بھی بغیر تشہیر کیے متاثرہ غریب خاندانوں کی امداد کرتی تھیں۔

مریم نواز شریف نے عملی طور پر 2012 ء میں اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا اور اس سیاسی سفر میں ان کے گرد بہت سی مشکلات نے گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی۔ جب میاں نواز شریف 2013 کے عام انتخابات جیتنے کے بعد وزارت عظمیٰ کی سیٹ پر بیٹھے تو انہوں نے وزیراعظم یوتھ لون پروگرام کے لیے مریم نواز شریف کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ 22 نومبر 2013 کو وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے مریم نواز شریف کو وزیراعظم یوتھ لون پروگرام کی چیئرپرسن تعینات کیا اور مریم نواز شریف نے عہدے کو بخوشی قبول کرتے ہوئے وزیراعظم یوتھ لون پروگرام کے ڈھانچے کو مضبوط بنانا شروع کیا۔

جب وزیراعظم یوتھ لون پروگرام کے ثمرات ملک کے نوجوانوں تک پہنچنا شروع ہوئے تو اس وقت اپوزیشن جماعتوں نے میاں نواز شریف کے اوپر ”موروثی سیاست“ کا الزام لگایا اور مریم نواز شریف کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی گئی جس میں عدالت سے مریم نواز شریف کو وزیراعظم یوتھ لون پروگرام کے عہدے سے علیحدہ کرنے کی استدعا کی گئی لیکن ابھی اس درخواست کا فیصلہ آنا باقی تھا کہ مریم نواز شریف نے ایک سال بعد 13 نومبر 2014 ء کو وزیراعظم یوتھ لون پروگرام سے استعفیٰ دے دیا اور وزیراعظم کو بھجوائے گئے اپنے استعفے میں لکھا کہ میں نے اپنی تقرری کے دوران وزیراعظم یوتھ لون پروگرام کے ڈھانچے کو بہتر بنانے میں دن رات کام کیا اور مجھے امید ہے کہ اگلے پانچ سال یہ اسی طرح کام کرتا رہے گا لہٰذا وزیراعظم اس عہدے کے لئے کسی دوسرے شخص کا انتخاب کر لیں۔

اس کے بعد مریم نواز شریف نے بغیر کسی سرکاری وسائل کے استعمال کیے اپنی خدمات حکومت کے لیے وقف کر دیں اور اس کے زبردست نتائج اس وقت عوام کے سامنے آنا شروع ہوئے جب یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلباء کو وزیراعظم یوتھ لون پروگرام کے تحت ”لیپ ٹاپس“ دیے گئے اور غریبوں کو علاج معالجے کے لیے ”وزیراعظم ہیلتھ کارڈ“ دیے گئے۔ اس کے علاوہ دارالحکومت اسلام آباد میں موجودہ تمام سرکاری تعلیمی اداروں کو ”سرکاری بسیں“ فراہم کی گئی جو طلبہ کو گھروں سے اسکول تک پہنچانے کے لیے استعمال ہوتی تھیں اور اس منصوبے کے تحت اسلام آباد کے طلبہ کو بہت زیادہ سفری سہولیات میسر ہو گئیں۔

پاکستان ترقی کی جانب گامزن تھا کہ 6 اکتوبر 2016 کو ڈان نیوز کے سینئر صحافی سرل المیڈا نے قومی سلامتی کے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کو اپنی ایک سٹوری کی صورت میں ”ڈان نیوز پیپرز“ میں شائع کیا جس کے بعد ملکی سیاسی صورتحال یکسر مختلف ہو گئی اور اس ”ڈان لیکس“ میں بھی مریم نواز شریف کو نامزد کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ملکی ایجنسیاں مریم نواز شریف کے خلاف شواہد پیش کرنے میں ناکام نظر آئیں اور یوں حکومت مخالف جماعتوں کی سازش دم توڑ گئی۔

اس واقعے کے بعد اگلے مہینے نومبر 2016 ء میں پوری دنیا میں ”پاناما پیپرز“ نے ہنگامہ برپا کر دیا۔ اس پیپرز میں وزیراعظم میاں نواز شریف کے خاندان کے افراد کے نام بھی شامل تھے جن کے بارے میں انکشافات کیے گئے کہ میاں نواز شریف کے بیٹوں کی لندن میں جائیدادیں سامنے آئی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اپوزیشن کی مردہ رگوں میں ایک نئی روح آ گئی اور وزیراعظم میاں نواز شریف کے خاندان کے خلاف احتساب کا نعرہ لگایا۔

شروع شروع میں اپوزیشن نے میاں نواز شریف کو مستعفی ہونے کا کہا لیکن میاں نواز شریف نے اپوزیشن کے اس مطالبے کو ماننے سے انکار کر دیا اور عدالتی کمیشن بنانے کی تجویز دی۔ اس وقت کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے عدالتی کمیشن بنانے سے معذرت کر لی لیکن جب تحریک انصاف نے ملک میں ہل چل مچانا شروع کر دی اور سڑکیں بلاک کر کے عوام کو اذیت دینا شروع کی تو اس وقت سپریم کورٹ کے جج جسٹس آصف سعید کھوسہ نے عمران خان کو فون کر کے پاناما لیکس کے خلاف پٹیشن سپریم کورٹ میں دائر کرنے کا کہا اور یہ بات میں پوری ذمہ داری کے ساتھ اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ عمران خان نے خود ٹی وی ٹاک شو میں اس بات کا اعتراف کیا تھا۔

اس کے بعد جیسے ہی تحریک انصاف پاناما لیکس کے خلاف درخواست سپریم کورٹ لے کر گئی تو عدالت نے رجسٹرار سپریم کورٹ کے تمام اعتراضات کو ختم کر کے درخواست کو قابل سماعت قرار دے دیا۔ جسٹس انور ظہیر جمالی کی مدت ملازمت کا عرصہ بہت کم رہ گیا تھا جس کی وجہ سے اس کیس پر سماعت نہ ہونے کے برابر ہوئی۔ لیکن جیسے ہی نیا سال 2017 ء شروع ہوا تو نئے چیف جسٹس ثاقب نثار نے حلف اٹھانے کے بعد جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ کے قیام کا اعلان کیا۔

اس عدالتی بینچ نے روزانہ کی بنیاد پر سماعت شروع کی اور کیس کو آگے بڑھایا۔ شریف خاندان کے اثاثوں کی چھان بین کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی جس کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے 28 جولائی 2017 ء کو ایک منتخب وزیراعظم کو نا اہل کر دیا اور شریف خاندان کے خلاف نیب کو کرپشن کیسز کے تین ریفرنس دائر کرنے کا حکم صادر کیا اور احتساب عدالت کی کارروائی کی نگرانی کے لیے سپریم کورٹ کے جج اعجاز الاحسن کو بطور نگران جج نامزد کیا۔ بظاہر یہ ایک سازش تھی جس میں وہ سرکاری اہلکار شامل تھے جو شریف خاندان کی سیاست کو ختم کرنا چاہتے تھے لیکن ان کو اس بات کا بالکل بھی علم نہیں تھا کہ تین سالوں کے بعد دوسروں کے لیے کھودے گئے گڑھے میں ہم خود ہی گرنے والے ہیں۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نیب نے 8 ستمبر 2017 ء کو احتساب عدالت میں العزیزیہ سٹیل مل، فلیگ شپ انویسٹمنٹ اور ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے خلاف ریفرنسز دائر کیے اور ان ریفرنسز کے خلاف احتساب عدالت میں باقاعدہ سماعت 19 ستمبر کو جج محمد بشیر کی عدالت میں شروع ہوئی۔ میاں نواز شریف نے 26 ستمبر 2017 ء سے احتساب عدالت میں پیش ہونا شروع کیا جبکہ مریم نواز شریف نے 9 اکتوبر 2017 ء سے احتساب عدالت میں پیش ہونا شروع کیا اور یوں میاں نواز شریف نے اپنی بیٹی مریم نواز شریف کے ساتھ ایک سو سے زائد عدالتی پیشیاں بھگتیں۔ ملکی تاریخ کا یہ پہلا کیس تھا جس میں احتساب عدالت نے عدالتی کارروائیوں کی منازل بڑی تیزی کے ساتھ طے کرنے کا ریکارڈ قائم کیا کیونکہ ان سارے کیسز کے پیچھے سازشی عناصر کے خفیہ ہاتھ شامل تھے۔

اس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے 21 جولائی 2018 ء کو راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کی منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ میں جانتا ہوں کہ ملک کی خفیہ ایجنسی کیسے اپنی مرضی کے بینچ بنوا کر عدالتوں سے فیصلے لیتی ہے اور سپریم کورٹ میں اپنی اپیل میں اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید نے بطور ڈی جی سی آئی ایس آئی دو مرتبہ مجھ سے میرے گھر پر ملاقات کی۔ اس دوران انہوں نے یقین دہانی چاہی کہ نواز شریف کی 25 جولائی 2018 کے الیکشن سے پہلے ضمانت نہ ہو سکے۔

جسٹس صدیقی کے مطابق پہلی ملاقات 26 جون 2018 کو ہوئی جب کہ دوسری ملاقات 19 جولائی 2018 کو ہوئی۔ جنرل فیض حمید انہیں اسلام آباد انتظامیہ کی نمبر پلیٹ والی گاڑی میں ملنے آتے رہے۔ میجر جنرل فیض حمید نے 29 جون 2018 کی ملاقات میں پہلے جسٹس صدیقی سے اپنے ماتحت بریگیڈیئر عرفان رامے کے رویے کی معافی مانگی۔ اور کہا کہ کوئی راستہ بتائیں، یہ آئی ایس آئی کے وقار کا معاملہ ہے۔ اس پر شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ آپ کو عدالت کے حکم پر عمل کرنا ہو گا، بطور جج میں قانون سے باہر نہیں جا سکتا۔ ہائی کورٹ کا حکم سپریم کورٹ ہی تبدیل کر سکتی ہے یا ختم کر سکتی ہے۔

جسٹس شوکت کے مطابق یہ باتیں کرنے سے پہلے فیض حمید نے کمرے میں موجود لوگوں کو باہر جانے کا کہا۔ جب لوگ کمرے سے نکل گئے تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ اگر احتساب عدالت سابق وزیر اعظم نواز شریف اور دیگر کو سزا دے تو ہائی کورٹ میں اپیل کا کیا طریقہ کار ہوتا ہے۔ شوکت صدیقی اپنے بیان میں کہتے ہیں کہ یہ بات میرے لیے حیرت کا باعث تھی کہ جنرل فیض ملزمان کی سزاؤں کے بارے میں اتنے یقین سے کیسے کہہ رہے ہیں، لیکن میں نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور کوئی تاثر نہ دیا۔

میں نے ان سے کہا کہ آپ عدالتی طریقہ کار سے پوری طرح آگاہ ہیں اور اس سے بھی کہ ٹرائل کا کیا نتیجہ نکلے گا، تو پھر آپ مجھ سے یہ سب کیوں پوچھ رہے ہیں۔ جواب میں فیض حمید نے مجھ سے سیدھا سوال کیا کہ اگر فیصلے کے خلاف اپیلیں آپ کے سامنے لگیں تو آپ کا کیا رویہ یا موقف ہو گا؟ میں نے کہا کہ میں جج کے حلف کے عین مطابق مقدمے کا فیصلہ میرٹ پر کروں گا کیونکہ مجھے اللہ کو جواب دینا ہے۔ اس پر جنرل فیض نے رد عمل میں جو تبصرہ کیا وہ میرے لیے انتہائی مایوس کن اور ایک بڑے دھچکے کا باعث تھا۔ فیض نے کہا اس طرح تو ہماری دو سال کی محنت ضائع ہو جائے گی۔

اس کے بعد ہی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے جولائی 2018 میں ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو 10 برس قید کی سزا سنائی۔ اسی ریفرنس میں ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 8 سال جبکہ ان کے داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ یہ سزا احتساب عدالت سے اس وقت سنائی گئی جب میاں نواز شریف اور ان کی فیملی کلثوم نواز شریف کی تیمارداری کر رہی تھی لیکن پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ میاں نواز شریف اپنی بیٹی مریم نواز شریف کا ہاتھ پکڑ کر پاکستان آئے اور عدالت کی طرف سے دی گئی غیر آئینی سزاؤں کو کاٹنے کے لیے جیل چلے گئے۔

بعد ازاں میاں نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا جہاں 19 ستمبر 2018 کو ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کی جانب سے سزا دینے کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دے دیا۔ جس کے بعد 22 اکتوبر 2018 کو نیب نے نواز شریف کی رہائی سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایون فیلڈ ریفرنس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائر صفدر کی سزا معطلی کے خلاف نیب کی اپیل خارج کردی تھیں۔

اس کے بعد نواز شریف کو احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے 24 دسمبر 2018 کو ایک دوسرے مقدمے العزیزیہ ریفرنس میں بھی سزا سنا دی اور نواز شریف کو احاطہ عدالت سے اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا۔

مریم نواز شریف اور مسلم لیگ نون کی قیادت نے تہہ دل سے تہیہ کر لیا کہ اب ہم مزید ظلم و ستم برداشت نہیں کریں گے اور عدلیہ کی طرف سے دیے گئے غیر قانونی فیصلوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ چنانچہ مریم نواز شریف اور شہباز شریف نے 6 جولائی 2019 ء کو پارٹی سیکرٹریٹ ماڈل ٹاؤن میں ایک پریس کانفرنس کی جس میں جج ارشد ملک کی وہ ویڈیو منظر عام پر لائی گئی جس میں وہ ایک شخص کے سامنے نواز شریف کو دی گئی جعلی سزاؤں کا بھانڈا پھوڑ رہے ہیں اور اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ نواز شریف کو سزا دباؤ کی وجہ سے سنائی گئی، نواز شریف کے خلاف کرپشن کا کوئی الزام ثابت نہیں ہوا اور شریف خاندان کے خلاف بننے والی جے آئی ٹی نے کسی قسم کی کوئی تحقیقات نہیں کیں۔

اس ویڈیو کے ساتھ ہی ہر طرف ہلچل مچ گئی اور اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جج ارشد ملک کی ویڈیو نے ہمارے سر شرم سے جھکا دیے ہیں۔ مختصراً، جج ارشد ملک کو غیر قانونی سزائیں دینے کے اعتراف کے بعد ان کو جج کی سیٹ سے برطرف کر دیا گیا اور وہ کورونا وائرس کا شکار ہو کر اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

مریم نواز شریف کو ان تمام واقعات نے بہت مضبوط بنا دیا ہے اور ان واقعات کو زبردست طریقے سے کنٹرول کرنے پر وہ ملک کی کامیاب ترین سیاستدان بن گئی ہیں اور پاکستانی عوام مریم نواز شریف کو ان کی اسی بہادری کی وجہ سے اچھے الفاظ میں یاد کرتی ہے کیونکہ اسی مریم نواز شریف نے مصائب کو برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں سول بالادستی اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے کو بلند کیا اور یہی نعرہ آج پاکستان میں سب سے زیادہ سننے کو ملتا ہے اور اسی نعرے نے مریم نواز شریف کو کامیاب لیڈر بنا دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments