کیا ہمارے معاشرے کی مائیں لالچی ہیں



علیشبہ کو اپنے ابا کے وجود سے بہت چڑ تھی۔ اس کی وجہ ابا کا عجیب و غریب رویہ تھا۔ پاکستانی معاشرے میں پیدا ہونے اور پلنے بڑھنے کے باوجود علیشبہ ابھی تک رشتوں کی منافقت سے نہ تو سمجھوتا کر پائی تھی اور نہ ہی غیر فطری انداز کو قبول کر پائی تھی۔

اسے ابا کا اپنی سگی اولاد سے غصے سے بات کرنا ہر وقت بڑبڑانا غیر فطری لگتا تھا۔ اور اپنی بیوی سے رویے کا تو پوچھو مت۔ ابا اپنی بیوی کو کسی نوکر سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ نوکر بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں اور مالک کے زیادہ اکڑ دکھانے پر نوکری کو لات مار دیتے ہیں۔ لیکن اماں ایسا نہیں کرتی تھیں۔

اسی لئے علیشبہ کو اپنی اماں سے ابا سے بھی کہیں زیادہ چڑ محسوس ہوتی تھی۔ وہ سوچتی تھی جیون ساتھی ہونا تو پیار کا رشتہ ہے تو اس میں مالک اور نوکر جیسا تضاد کیوں ہے؟ ابا مالک اور اماں نوکر کیوں ہیں؟ ابا ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سارا دن گھر پر پلنگ توڑتے ہیں جبکہ اماں جن کو کبھی ریٹائرمنٹ نصیب نہیں ہوئی وہ بیماری کے عالم میں بھی آرام نہیں کر سکتیں۔ ذرا جو لیٹیں گی تو ابا غصے سے آوازیں دینا شروع کر دیں گے۔

علیشبہ سوچتی تھی آخر اماں کی ایسی کیا مجبوری ہے جو وہ ابا کے ساتھ رہتی ہیں؟ آخر وہ رشتہ جس کی بنیاد محبت سے خالی ہو ایسے رشتے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ کیا اس سے بہتر نہیں ہے کہ انسان اکیلے ہی با عزت زندگی گزار لے؟ جب وہ اپنی ماں کے ماضی اور ان کی شادی کے فیصلے پر غور کرتی تھی تو اسے اپنے باپ سے زیادہ ماں پر غصہ آتا تھا۔

بقول اماں کے ان کی شادی گریجویشن ہونے کے فوراً بعد بڑوں نے طے کردی تھی۔ اس زمانے میں لڑکا لڑکی شادی سے پہلے بات چیت تو نہیں کرتے تھے لیکن منگنی اور شادی کے درمیان ابا کی اپنے ہونے والے سسرالیوں سے تو تو میں میں کے قصے آج بھی علیشبہ کا سارا ننھیال سناتا تھا۔ ایسے میں اسے حیرت ہوتی تھی کہ اماں نے ایسے بدتمیز شخص سے شادی کی تو کیوں کی؟ کی انھیں اپنے ماں باپ اور بھائی بہنوں کی عزت کی بھی کوئی پرواہ نہیں تھی؟

اسی حیرت میں ایک دن اس نے اماں کو ابا سے طلاق لینے کا مشورہ بھی دے ڈالا جس پر پہلے تو اماں نے خوب ہی صلواتیں سنائیں اور نئے زمانے کو کوسا جس نے آج کل کی لڑکیوں کو ”ناپسندیدہ عمل“ اتنی ڈھٹائی سے کرنے کی ہمت دے دی ہے۔ لیکن جب علیشبہ بھی اڑ گئی تو اماں کے منہ سے نکل گیا ”ارے تو کیا باپ کے گھر بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہوجاتی؟ ماں باپ مر جاتے ہیں تو لڑکی کو سہارا دینے والا کون ہوتا ہے؟ یہ جملہ سن کر علیشبہ کو احساس ہو گیا کہ اس کی ماں ایک انتہائی سطحی سوچ رکھنے والی عورت ہے جو محض سہارے اور مالی تحفظ کی خاطر اس کے ابا جیسے شخص کے ساتھ سے بھی راضی ہے۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ اماں ابا دونوں کی خواہش ہے کہ علیشبہ بھی شادی کر کے گھر بسا لے۔ علیشبہ کو شادی پر تو کوئی اعتراض نہیں لیکن تاحال اسے کوئی ایسا شخص نہیں ملا ہے جسے وہ ذہنی آمادگی کے ساتھ عمر بھر کے لئے قبول کر لے۔

اسے لگتا ہے مرد اور عورت برابر ہیں تو اسے کم سے کم مالی تحفظ کے لئے کسی مرد کی ضرورت نہیں۔ وہ اپنے مقدس جذبوں کو روپے پیسے کی ہوس اور دو وقت کی روٹی کے عیوض بیچنا گوارا نہیں کر سکتی۔ اور سب سے بڑی بات علیشبہ کو لگتا ہے عورتیں اس قسم کی نام نہاد شادی کر کے سب سے زیادہ دھوکہ اور نا انصافی اپنی ہونے والی اولادوں کے ساتھ کرتی ہیں۔ وہ انھیں ایسا باپ دیتی ہیں جسے اولاد رکھنے کا کوئی حق نہیں ہوتا کیونکہ جس بچے کے سامنے باپ اس کی ماں کو مار پیٹے، برا بھلا کہے یا نوکروں جیسا سلوک روا رکھے نہ تو وہ اچھا انسان ہو سکتا ہے نہ ہی اچھا باپ۔

اس لیے علیشبہ اپنے لئے کسی بھی ایرے غیرے کو ساتھی چن کر اپنے آنے والے بچوں کو کسی امتحان میں نہیں ڈالنا چاہتی بھلے اس کے لئے اسے تنہا زندگی ہی کیوں نہ گزارنی پڑے لیکن وہ کسی صورت ایک لالچی اور خودغرض ماں نہیں بنے گی۔

ہمارے خیال میں تو علیشبہ کے جذبات خلوص اور ایمانداری کی انتہا ہر ہیں اور ہم دعاگو ہیں کہ اسے بھی اس کی طرح مخلص اور اچھا جیون ساتھی ملے۔ کیا آپ علیشبہ کی سوچ سے متفق ہیں؟ اور اگر نہیں تو آپ کے پاس اسے قائل کرنے کی کیا دلیل ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments