نگار ایوارڈ یافتہ اداکار آصف خان


نامور فلم ایڈیٹر زیڈ اے زلفی آج کل ایور نیو فلم اسٹوڈیو میں منیجر ہیں۔ اس مرتبہ جب ملاقات ہوئی تو ذکر پاکستانی فلمی دنیا کی ایک معروف ہستی، آصف خان صاحب تک جا پہنچا۔ فوراً ان سے بات کی گئی اور اگلے روز سہ پہر تین بجے زلفی صاحب کے دفتر میں ملنے کا طے ہو گیا۔ میں دو بج کے بیس منٹ پر پہنچا تو خان صاحب پہلے سے موجود تھے۔ انہیں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ ماشاء اللہ پابندی وقت تب بھی تھی اور اب بھی ویسی ہی پائی۔ اداکار آصف خان صاحب ہماری فلمی صنعت کے سنہری دور کے نامور ولن اور ہیرو ہیں۔ انہوں نے اردو، پشتو اور پنجابی فلموں میں یکساں مقبولیت حاصل کی۔ ان سے کی گئی دلچسپ بات چیت پیش خدمت ہے :

” میں بڑا مشکور ہوں اور بہت مدت کے بعد پاکستان میں کسی کو انٹرویو دے رہا ہوں۔ نگار کے خالق الیاس رشیدی صاحب بہت نفیس اور اچھے آدمی تھے۔ نگار ایوارڈ جیسا بڑا فلمی ایوارڈ اس زمانے میں کوئی نہیں تھا۔ میں نے بھی تین چار ایوارڈ لئے ہیں۔ آج کل اسٹوڈیوز میں بہت کم آنے کا موقع ملتا ہے۔ آتا ہوں تو بہت افسوس اور دکھ ہوتا ہے۔ وہ یادیں، وہ پرانے ساتھی، وہ دور۔ خاص طور پر ایور نیو اسٹوڈیو کے زمانے۔ زندگی گزر گئی اب عمر بھی اس موڑ پر آ گئی ہے کہ کسی وقت بھی بلاوا آ سکتا ہے۔ 77 سال عمر ہو گئی“ ۔

فلمی دنیا کا شوق:

” بچپن سے ہی مجھے فلموں کا بڑا شوق تھا۔ سنتوش صاحب، صبیحہ صاحبہ اور اسلم پرویز صاحب کی فلمیں بہت شوق سے دیکھتا تھا۔ بھارتی اداکاروں میں راج کپور اور اشوک صاحب میرے پسندیدہ اداکار تھے۔ ان میں سب سے زیادہ یوسف خان (دلیپ کمار ) سے متاثر تھا۔ پاکستان میں محمد علی اور لالہ سدھیر صاحب میرے پسندیدہ اداکار تھے۔ ہم گاؤں میں رہتے تھے اور اسکول پیدل جاتے تھے۔ پھر سو روپے میں ایک سائیکل خرید لی۔ سردیوں میں صبح نو بجے حاضری ہوتی تھی اور تین بجے تک کلاسیں ہوتیں۔

اس زمانے میں سنیما کا تین بجے والا شو میرا من بھاتا شو تھا۔ میں دو بجے کلاس کی کھڑکی سے کود کر فلم دیکھنے کے لئے سنیما کا رخ کرتا۔ خاص طور پر دلیپ صاحب کی فلمیں۔ مجھے گاؤں میں سب لوگ ہیرو کے نام سے جانتے تھے۔ میں نے اسکول میں بہت مار کھائی کہ بڑے بال کیوں رکھے ہوئے ہیں؟ میں بھی کہتا کہ مارو! میں تو ایکٹر ہوں۔ یوں اسکول میں سب ہی مجھے ہیرو کے نام سے بلاتے تھے“ ۔

فلم والوں سے ملاقات:

” اس طرح زندگی کا کارواں رواں دواں تھا۔ ایک دفعہ میں گاؤں میں تھا کہ کسی نے مجھے بتایا کہ فلم والے شوٹنگ پر آئے ہوئے ہیں۔ پوچھا کون؟ بتایا گیا کہ خلیل قیصر، لالہ سدھیر، ساقی، شمیم آراء بیگم اور آغا طالش صاحب وغیرہ۔ میں بھی وہاں خوشی سے بھاگا بھاگا پہنچا۔ یہ جگہ میرے گاؤں کے قریب ہی تھی۔ وہاں شمیم آراء بیگم، ساقی صاحب اور لالہ سدھیر پر گانا فلم بند ہو رہا تھا : ’بن کے میرا پروانہ، آئے گا اکبر خانا، کہہ دوں گی دلبر جاناں۔

وہ پہاڑی علاقہ تھا اور میں پہاڑ پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس زمانے میں پانی کے بہت چشمے ہوتے تھے۔ ہم اسکول کے دور میں وہاں پکنک منانے جاتے تھے۔ افسوس اب ان میں سے زیادہ تر سوکھ چکے۔ آپ یہ دیکھئے کہ اللہ کیسے منزل پر جانے کے لئے بندوں کے واسطے راستے بناتا ہے! گانے کی عکس بندی کے دوران گاؤں کا ایک لڑکا اپنے گھوڑے کو پانی پلوانے چشمے پر آیا۔ اس کی وجہ سے شاٹ روک دیا گیا اور وہاں گاؤں کے لڑکوں اور فلمی یونٹ کے اپرینٹس کیمرہ مین سلیم بٹ جو ابھی نیا ہی تھا، لڑائی ہو گئی۔

ادھر خلیل قیصر مرحوم کھڑے تھے، میڈم شمیم بیٹھی ہوئی تھیں، لالہ سدھیر بھی موجود تھے۔ میں نے دل میں سوچا کہ وقت آ گیا ہے۔ میں بھی ہیرو ہوں اور ان کا بھی فلم سے تعلق ہے۔ چلو اٹھو! میں نیچے گیا۔ گاؤں والے لڑکے پر سختی کی اور ڈانٹا۔ اس دوران گاؤں کے بزرگ آ گئے۔ میں نے کہا کہ یہ پنجاب سے آئے ہوئے فلم والے ہمارے مہمان ہیں۔ پھر لالہ جی تو ہمارے پشاور کے ہیں! “ ۔

” وہاں ساقی صاحب سے میری دوستی ہو گئی۔ وہ پشتو، انگریزی، فرانسیسی سمیت تقریباً اٹھارہ زبانیں بول لیتے تھے۔ بہت قابل اور سب ہی سے پیار محبت کرنے والے آدمی تھے۔ جب تک وہ اور ان کا یونٹ میرے گاؤں کے پاس رہے میں روزانہ ان کے لئے چائے پراٹھے لے کر شوٹنگ دیکھنے جاتا۔ یوں مجھے فلمی صنعت کے لئے ایک راستہ مل گیا جہاں سے میرا داخلہ ہو سکتا تھا“ ۔

” وقت خراماں خراماں گزرتا رہا۔ یہ 1961 یا 1962 کی بات ہو گی میں مری میں ماتھے پر دلیپ کمار جیسے بال رکھے، خوب سوٹ شوٹ پہن کر مال روڈ پر جا رہا تھا کہ پیچھے سے کسی نے بلند آواز میں میرا نام پکارا۔ میں نے بے ساختہ جب پیچھے دیکھا تو ساقی صاحب نظر آئے۔ میں نے کہا دادا تم کہاں؟ ان کے ساتھ بوسکی کی قمیص پہنے ہوئے لحیم شحیم، گھونگریالے بالوں والا ایک خوبصورت لڑکا بھی تھا۔ ساقی صاحب نے بتایا کہ محمد علی ہے جو کراچی کی فلم“ چراغ جلتا رہا۔

”میں کام کر رہا ہے۔ میں خود بھی خوبصورت تھا۔ بال وال اچھے تھے۔ محمد علی کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ اچھا دوست مل گیا۔ میں ان دونوں کو لے کر ’سیمز‘ ہوٹل میں چائے کے لئے لے گیا جو ان دنوں بہت معیاری ہوٹل تھا۔ وہاں گپیں لگیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ لوگ یہاں کیسے آئے؟ جواب ملا کہ ’فلم الیون‘ ، ’سنتوش الیون‘ اور ڈی سی الیون کے مابین کرکٹ میچ ہو رہے ہیں۔ ان ہی دنوں نیر سلطانہ بھابھی کی شادی درپن صاحب سے ہوئی تھی۔

وہاں صبیحہ بھابھی بھی تھیں۔ میں بھی میچ دیکھنے وی وی آئی پی میں بیٹھا رہا۔ اداکار آزاد صاحب کھیل پر رواں تبصرہ کر رہے تھے۔ وہاں محمد علی صاحب نے مجھے بتایا کہ وہ فلم“ شرارت ” ( 1963 ) کی شوٹنگ میں لاہور آ رہے ہیں۔ لہٰذا تم بھی آ جاؤ۔ میں دی گئی تاریخ سے دو تین دن پہلے لاہور آ گیا۔ باری اسٹوڈیو میں پیا نو پر گانا فلم بند ہو رہا تھا۔ محمد علی صاحب نے مجھے اپنے گھر میں رہنے کے لئے ایک کمرہ دیا۔ پھر علی صاحب زیبا بھابھی سے شادی کر کے 4 G ماڈل ٹاؤن میں منتقل ہو گئے۔

بہت بڑے انسان تھے۔ بہت نفیس، خوش اخلاق اور خوش لباس تھے۔ مجھے ایک مرتبہ کہا کہ پشتو فلم شروع ہوئی ہے اس میں کام وام کرو! میں نے کہا کہ پشتو فلم میں کیا کام کریں گے اس میں تو محبت کے مکالمے ہی نہیں ہیں۔ میں تو اردو فلموں کے لیے آیا ہوں۔ مجھے محسوس ہوتا تھا کہ یہاں لوگ سمجھتے ہیں کہ آصف خان پٹھان ہے اس کی تو اردو صحیح نہیں ہو گی۔ بس اس دن سے میں نے اپنی اردو بہتر کرنا شروع کر دی۔ محمد علی اور یوسف صاحب (دلیپ کمار ) کی کاپی کی۔ محنت کے بعد میں نے اپنی اردو اتنی صحیح کر لی کہ فلم کے سیٹ پر پتا نہیں لگتا تھا کہ یہ پٹھان آدمی ہے! “ ۔

پہلی فلم کی پیشکش:

” 1971 یا 1972 کی بات ہو گی، اللہ بخشے میڈم شمیم آراء مجھے ایور نیو اسٹوڈیو میں آتے جاتے فوارے پر کھڑا دیکھتی تھیں۔ ایک دن ان کے ماموں میرے پاس آئے اور کہا کہ آصف خان، میڈم بلا رہی ہیں۔ میں گیا تو میڈم نے کہا کہ میں نے اپنی ذاتی فلم“ سہاگ ”( 1972 ) شروع کی ہے۔ اس میں ’ولن‘ کا کردار آپ کریں۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے مجھے منظور ہے۔ پوچھا کتنے پیسے؟ میں نے کہا کہ پیسوں ویسوں کی بات چھوڑ دو۔ کہنے لگے چلو جو مناسب ہوا وہ دیں گے۔

مجھے تو ساری رات نیند نہیں آئی کہ صبح ’سہاگ‘ کی شوٹنگ ہونے والی ہے۔ ندیم صاحب، ضیاء محی الدین، میڈم شمیم آراء، زمرد بیگم جیسے بڑے آرٹسٹوں کے درمیان ولن کا کردار ادا کرنا ہے۔ شوٹنگ کے وقت تقریباً تمام ہی اسٹوڈیو ہنرمند آ گئے کہ دیکھیں یہ پٹھان کیا کرے گا! میں سیٹ پر پہنچا۔ ہدایتکار فرید احمد صاحب سے ملاقات ہوئی۔ میڈم موجود تھیں۔ ضیاء محی الدین صاحب ایک طرف بیٹھے کوئی کتاب پڑھ رہے تھے۔ ندیم صاحب بڑے اچھے طریقے سے ملے۔ اس سے پہلے ان کی فلم ’درہ خیبر‘ شروع ہو چکی تھی اور میری ان سے دعا سلام ہو گئی تھی۔ بہرحال فلم ’سہاگ‘ کا منظر تھا۔ فرید صاحب نے بتایا کہ لڑکی بیٹھی ہو گی آپ نے پکڑنا ہے اور اس نے جان بچا کر بھاگنا

ہے۔ میں نے میڈم سے کہا کہ اس قسم کے تمام سین مجھے تو کبھی حقیقت سے قریب لگے ہی نہیں! پوچھا وہ کیوں؟ میں نے جواباً کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ مرد کے ہاتھ سے ایک عورت اتنی آسانی سے اپنا ہاتھ چھڑا لے؟ آپ بتائیں کہ میں یہ سین کس طرح سے کروں؟ انہوں نے بے ساختہ کہا کہ آپ یہ منظر بالکل حقیقی کریں۔ میں نے کہا آپ کی اجازت ہے؟ انہوں نے بخوشی اجازت دے دی۔ ہدایتکار نے پوچھا تیار ہو؟ میں نے کہا جی ہاں۔ وہ ایک لمبا ’ون شاٹ‘ تھا۔

یعنی مسلسل شاٹ تھا۔ منظر یہ تھا کہ میں سیڑھیوں سے اتر رہا ہوں۔ نیچے بیڈ پر لڑکی ( شمیم آراء ) بیٹھی ہے۔ میری نظر اس پر پڑتی ہے۔ میں قریب آتا ہوں وہ گھبرا جاتی ہے۔ میں نے اسے ہاتھ سے پکڑا۔ اس نے ہاتھ چھڑانے کی بڑی کوشش کی لیکن بے بس ہو گئی۔ پھر میں نے اسے اٹھا کر آئرن راڈ بیڈ پر دے مارا۔ سیٹ پر موجود لوگوں کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ شاٹ ختم ہوا۔ سب لوگوں نے تالیاں بجا کر حوصلہ افزائی کی۔ ہدایتکار فرید احمد صاحب بھی آ گئے اور خوش

ہوئے۔ اس طرح اردو فلموں میں میری اداکاری کا آغاز ہو گیا۔ اس فلم میں مجھے تین ایوارڈ ملے۔ ”۔


پہلی پشتو فلم:

” اسی طرح فلمساز اور ہدایتکار رحیم گل کی پشتو فلم ’موسیٰ خان گل مکئی‘ ( 1971 ) شروع ہو رہی تھی۔ انہوں نے کمال صاحب کو ہیرو لیا۔ محمد علی صاحب نے میری سفارش کی کہ آصف خان کو موقع دیا جائے۔ میں نے اس زمانے میں نوشہرہ میں ایک پٹرول پمپ لیا تھا۔ میں اس پر موجود تھا کہ ساقی صاحب میرے پاس آئے اور کہ محمد علی صاحب نے تمہیں بلوایا ہے۔ رحیم گل صاحب کی ایک پشتو فلم میں تمہیں کام کرنا ہے۔ میں دو تین دن بعد لاہور آیا اور رحیم گل صاحب سے ملاقات کی۔

کاسٹ میں یاسمین خان اور ثریا خان وغیرہ تھے۔ اسی دوران رنگیلا صاحب کا شاگرد ممتاز علی خان مجھے ملا اور کہا کہ میں فلم ’درہ خیبر‘ ( 1971 ) شروع کر رہا ہوں آپ اس میں کام کریں۔ میں نے اس کو اوپر سے نیچے تک دیکھا کہ یہ بچہ کیا کرے گا۔ خیر اس فلم کی شوٹنگ شروع ہو گئی، بن بھی گئی اور سپر ڈوپر بھی ہو گئی۔ ’درہ خیبر‘ ، ’موسیٰ خان گل مکئی‘ سے پہلے نمائش کے لئے پیش ہو گئی۔ اس طرح پشتو فلموں میں بھی شروعات ہوئی۔ اس کے ساتھ اردو فلمیں بھی کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔ میرا شمار بھی چوٹی کے ہیرو اور ولن میں ہونے لگا۔ میں نے تقریباً سات آٹھ سو اردو فلمیں کیں“ ۔

فلم ”کالا دھندا گورے لوگ“ :

” میں نے پوری دنیا دیکھی۔ پھر جب پیسے آئے تو میں نے برمنگھم، برطانیہ میں آرٹ ٹائپ کی اردو فلم“ کالا دھندا گورے لوگ ” ( 1981 ) بنائی۔ ہم فلم کے لئے وہاں چھ مہینے رہے۔ فلمسازی میں میرے شریک کار کفایت حسین شاہ صاحب تھے۔ یہ بہت ہی شریف اور اچھے آدمی تھے۔ وہ اس فلم کو بمبئی کے کسی فلمی میلے میں بھی لے کر گئے۔ وہاں اس کو شوق سے دیکھا گیا لیکن پاکستانی ہونے کی وجہ سے یہ مناسب پذیرائی حاصل نہیں کر سکی۔ ویسے وہاں کی انڈسٹری کے قابل ذکر لوگوں نے وہ فلم دیکھی، پسند بھی کی اور مجھے بڑا سراہا۔

فلم کے موسیقار پرویز چوہان صاحب تھے جو بھارتی موسیقار جوڑی شنکر جیکشن کے زیر نگرانی کام کر چکے تھے۔ انہوں نے لاہور میں گانوں کی صدا بندی کے لئے کراچی سے میوزیشن منگوائے۔ یہاں مجھے لوگوں نے کہا کہ میوزک پر اتنا خرچہ؟ میں نے کہا کہ جب میوزک اچھا نہ ہوا تو فلم کیسے اچھے بنے گی؟ چوہان صاحب موسیقی کے لیے برطانیہ سے یہاں آئے اور ایک مہینے رہے۔ وہ گانے اب بھی آپ سنیں تو یوں لگے گا جیسے انڈین گانا سن رہے ہوں۔ یہ صاحب اب بھی برطانیہ میں حیات ہیں۔ گیت نگار ڈاکٹر صفی صاحب تھے۔ یہ بھی برمنگھم سے تھے۔ کیمرہ مین ناصر خان صاحب تھے“ ۔

” حسن طارق صاحب کے ساتھ کبھی کام کرنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ البتہ اردو فلموں میں چار ڈائریکٹر ایسے تھے جنہوں نے مجھے اپنی فلموں میں رکھا۔ یہ ہیں : جاوید فاضل، اقبال کاشمیری، جان محمد اور اقبال یوسف صاحب۔ جان محمد صاحب کی ہر فلم میں نے کی اور ہر ایک فلم سپر ہٹ ہوئی۔ جیسے ’چوروں کا بادشاہ‘ ( 1988 )“ ۔

” اس زمانے میں فلم انڈسٹری میں گھر کا سا ماحول تھا۔ وہ ہمارے اپنے گھر کے جیسا ہی تھا۔ ہمارا زیادہ تر وقت گھر میں خاندان کے بجائے ادھر اسٹوڈیو میں کام کے دوران گزرتا۔ یہ بھی خاندان ہی ہو گیا“ ۔

” اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ اور بدر منیر آپس میں رشتہ دار تھے؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” جی ہاں یہ سوال لوگ پوچھتے تھے کہ بدر منیر آپ کا بھائی ہے؟ میں نے کہا ہاں! ہم دونوں بھائیوں جیسے رہتے تھے۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ اس نے بڑا کردار ادا کیا اور میں نے چھوٹا۔ یا اس نے دس دفعہ مارا اور میں نے کم مارا۔ کبھی میری بدر صاحب سے ’تو تو میں میں‘ نہیں ہوئی نہ کسی اور اردو فلموں کے فنکار کے ساتھ۔ فوجیوں کی طرح کوئی فنکار مجھ سے ایک درجہ بھی اونچا ہے تو اس کی عزت کرتا تھا۔ تو اس طرح میں نے بڑی اچھی زندگی گزاری“ ۔

” مجھے اللہ نے موقع دیا اور میں کئی مرتبہ استنبول، لندن، روس جاپان، سری لنکا، نیپال وغیرہ۔ کہاں نہیں گیا۔ ہر ایک فلم میں ہیرو بدلتے تھے میں وہی رہتا تھا۔ میں ولن، ہیرو اور سائڈ ہیرو کا کردار ادا کرتا تھا۔ منیلا، فلپائن میں تین چار فلمیں کیں۔ فلمی صنعت کی بہاریں ہم نے دیکھی ہیں۔ بیرون ملک بننے والی فلموں میں اکثر مجھے کاسٹ کیا جاتا تھا۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم لوگ فلمی دنیا میں اس کے سنہری دور میں داخل ہوئے۔ وہ بڑا اچھا وقت تھا“ ۔

اعزازات:
فلم ”شانی“ میں بہترین ساتھی اداکار کا نگار ایوارڈ برائے سال 1989۔

فلم ”کالا دھندا گورے لوگ“ میں بہترین تدوین کار کا نگار ایوارڈ ایڈیٹر اکبر علی کو برائے سال 1981 دیا گیا۔

پنجابی فلم ”شعلہ“ میں بہترین اداکار کا نگار ایوارڈ برائے سال 1978۔
بارہ سو فلمیں :

” میں نے پشتو، پنجابی اور اردو ملا کر بارہ سو فلمیں کیں۔ ہر ہیرو ہیروئن کے ساتھ کام کیا جیسے سلطان راہی صاحب۔ ان کے ساتھ بہت کام کیا۔ وہ عظیم آرٹسٹ تھے۔ وحید مراد صاحب کے ساتھ بھی کام کیا۔ اپنی فلم ’کالا دھندا گورے لوگ‘ میں ان کو لندن لے گیا تھا۔ یہ ان کی آخری فلم تھی۔ ڈبنگ کے موقع پر وہ بیمار ہو گئے تھے۔ غلام محی الدین کے ساتھ بڑا کام کیا۔ اظہار صاحب (م) اور ندیم صاحب کے ساتھ بھی۔ بدر منیر صاحب ہمارے نامور اداکار تھے۔ اللہ اسے غریق رحمت کرے۔ اب جس کا نام لیتے ہیں ان میں سے اکثر فوت ہو چکے ہیں۔ بہت افسوس ہوتا ہے۔ ہم بھی چلے جائیں گے۔ یہ زندگی تو عارضی ہے اصل تو وہ زندگی ہے۔ اللہ ہم سب کی وہ زندگی اچھی کر دے۔ اللہ ہم پر رحم و کرم کرے! “ ۔

میرا بیٹا میرے نقش قدم پر:

” ایک دفعہ ہدایتکار سید نور صاحب ملے کہ آپ کے بیٹے کو ’ٹرائی‘ کرنا ہے۔ میں نے کہا کہ وہ تو سادا لڑکا ہے جو نماز روزے میں اپنی ماں پر گیا ہے۔ فلم“ گھونگھٹ ” ( 1996 ) کی شوٹنگ ہمایوں قریشی کے گھر میں ہو رہی تھی۔ میں اور میرا بیٹا ارباز وہاں گئے۔ فلم کی اوپننگ تھی۔ میں نے ہمایوں سے کہا کہ اس کو اندر لے جاؤ اور دیکھو کہ اداکاری کر بھی سکتا ہے؟ شان، صائمہ اور ہم

سب لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ پانچ دس منٹ بعد ہمایوں باہر نکلے اور مجھے دیکھ کر دائیں ہاتھ کا انگوٹھا اوپر اٹھا کر کہا ’ویری گڈ‘ ۔ میں بڑا خوش ہوا۔ اور ارباز ’گھونگھٹ‘ میں کاسٹ ہو گیا جو گولڈن جوبلی ثابت ہوئی۔ اس طرح ارباز اس فلم سے ہٹ ہوا اور میرے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس کی بھی فلمی زندگی شروع ہو گئی۔ وہ پشتو فلموں میں کام نہیں کر رہا تھا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ پشتو فلموں میں ہی تمہاری زندگی ہے۔ تمہیں پذیرائی پشتو فلموں سے ہی حاصل ہو گی۔ اب وہ پشتو فلموں سے اتنا پیار کرتا ہے کہ پندرہ بیس پشتو فلموں کی ہدایت کاری کر چکا ہے۔ دو تین سو فلموں میں ہیرو کا کردار ادا کیا۔ لوگ اسے بہت پسند کرتے ہیں۔ کچھ میرے توسط سے کہ یہ آصف خان کا بیٹا ہے۔ پھر اس نے اچھی، سپر ہٹ اور گولڈن جوبلی فلمیں بنائیں۔ یہ این سی اے سے فارغ التحصیل ہے ”۔

” بس۔ زندگی گزر گئی۔ انسان کو پتا ہی نہیں لگتا کہ یہ 77 سال کیسے گزر گئے! بچوں کی شاد یاں ہو گئیں۔ ایک لڑکا اور باقی لڑکیاں ہیں جو اپنے گھروں میں خوش ہیں۔ اور میری گزر بسر بھی اللہ کے فضل سے بہت اچھی ہو رہی ہے۔ اس کے لئے میں اللہ کا جتنا شکر ادا کروں وہ کم ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس کے فضل سے میں نے فلم میں ایک اعلیٰ مقام حاصل کیا ورنہ میں کہاں ایک پہاڑوں کا رہنے والا۔ میرے خاندان میں کوئی سیٹی نہیں بجا سکتا تھا اور میں ہیرو نکلا اور ارباز کو میں نے فلم کرنے کو کہا اور وہ بھی ہیرو بنا“ ۔

” پھر میں کراچی کا بہت مشکور ہوں جہاں کا میں ٹاپ کا ہیرو تھا۔ وہاں میری فلم لگتی تھی اور لوگ ٹوٹ پڑتے تھے۔ پھر کراچی کے صحافی اور اخبارات خصوصاً نگار کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ الیاس رشیدی صاحب بہت پیار کرنے والے انسان تھے۔ کسی پارٹی یا فنکشن میں ہوتے تو ضرور ملاقات کرتے تھے۔ ان کے انتقال کے وقت میں ملک سے باہر شوٹنگ پر تھا۔ بڑا افسوس ہوا۔ اب شاہد لطیف صاحب آئے ہیں یہ بھی ہمارے پرانے دوست ہیں۔ جوانی میں دیکھا تھا آج بڑھاپے میں دیکھ رہے ہیں۔

اس وقت ایور نیو فلم اسٹوڈیو میں بیٹھا ہوں، آدمی نہ آدم زاد۔ کچھ نظر ہی نہیں آ رہا ہے۔ کہاں یہاں گاڑیوں اور لوگوں کی چہل پہل ہوتی تھی۔ شام کو پورے لاہور کا سب سے خوبصورت علاقہ یہ ہی تھا۔ بڑے بڑے لوگ آتے تھے۔ اب تو پاکستان فلم انڈسٹری بند ہو گئی۔ کچھ بھی نہیں رہا۔ آنے والے وقت میں بھی کچھ نظر نہیں آ رہا۔ یہ کشتی تقریباً ڈوبتی جا رہی ہے۔ بلکہ ڈوبنے والی ہے۔ میں نے بڑا اچھا وقت دیکھا! پچاس سال ہو گئے فلم لائن میں!

پشتو فلموں میں بہت کام کیا۔ ممتاز علی خان بڑے اچھے ڈائریکٹر تھے۔ عزیز تبسم صاحب ٹاپ کے ڈائریکٹر تھے جنہوں نے پہلی پشتو فلم ’یوسف خان شیر بانو‘ ( 1970 ) بنائی تھی۔ پھر نسیم خان اور عنایت اللہ خان بہت اچھے ڈائریکٹر تھے۔ یہ چار حضرات پشتو فلموں کے بہترین ڈائریکٹر مانے جاتے ہیں۔ اب ارباز، ارشد خان، شاہد خان ماشاء اللہ اس میدان میں اچھا کام کر رہے ہیں۔ آغا جہانگیر بڑا خوبصورت آرٹسٹ ہے۔ وہ ہیرو کے ساتھ ولن کا کردار بھی ادا کرتا ہے“ ۔

” کیا پشتو فلمیں اب بھی اسی تعداد میں بن رہی ہیں؟“ ۔

” پشتو فلم انڈسٹری میں بھی اب پروڈکشن بہت کم رہ گئی ہے۔ ایک وقت تھا کہ ہم دس دس فلموں کی شوٹنگ کرتے تھے۔ کابل، افغانستان اور دبئی ایک بڑی مارکیٹ تھی“ ۔

” فلم ’کالا دھندا گورے لوگ‘ کے بعد بھی کیا آپ کی فلمسازی جاری رہی؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” جی ہاں! ’شیشے کا دل لوہے کے ہاتھ‘ ( 1986 ) ، پشتو فلم ’مقدر‘ ( 1982 ) ، ’پرستان‘ ( 1989 ) بنائیں اور اس کے ساتھ ’پختون پہ ولائیت کنہ‘ ( 1981 ) ۔ یہ میری فلم ’کالا دھندا گورے لوگ‘ کا پشتو ورژن تھا۔

” پڑھنے والوں کے کیے کوئی پیغام؟“ ۔

” میری دعا ہے کہ ہم ہوں نہ ہوں، پاکستان فلم انڈسٹری کی گئی بہاریں دوبارہ واپس آ جائیں۔ جب کہ تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ آثار ایسا نہ ہونے کا اشارہ دیتے نظر آتے ہیں۔ اب دور ویڈیو اور موبائل کاہے۔ میڈیا بہت تیز رفتار ہو گیا ہے۔ سنیما میں فلم دیکھنے کا ایک اپنا ہی مزہ ہے۔ بڑی اسکرین کی کیا بات تھی۔ ہم خود جب سنیما جاتے تھے تو بہت خوشی ہوتی تھی“ ۔

یوں ہماری یہ ملاقات اختتام کو پہنچی۔ آصف خان صاحب نے مجھے پیشکش کی کہ جہاں بھی جا رہا ہوں وہ وہیں مجھے اپنی گاڑی میں چھوڑیں گے لیکن میں اس دوران کریم کو بلوا چکا تھا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آصف خان صحت والی آسودہ زندگی پائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments