تعلیم کی ایک انوکھی تجربہ گاہ


اسکول کے پرنسپل آٹھویں جماعت کے طلبا سے فردا فردا ملاقات کر رہے تھے۔ میں اپنی باری پر روشن اور ہوا دار صحن سے پرنسپل کے نیم تاریک آفس میں داخل ہوا۔ رسمی علیک سلیک کے بعد انہوں نے ایک پمفلٹ میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ ”میں آپ سب بچوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ آپ نویں جماعت کے لیے ڈی سی کالج میں داخلہ لے لیں،“ وہ بولے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ڈی سی کالج کی سب سے اچھی بات اس کی تجربہ گاہ ہے۔

میں واپس صحن میں آ گیا جہاں دیواروں پر اقوال زریں کے بورڈ لگے ہوئے تھے۔ تاکہ بچے بڑے لوگوں کی بڑی باتوں سے انسپریشن حاصل کریں۔ اکثر میری نگاہ کسی قول پر پڑ جاتی تو میں گھنٹوں اس کے مطلب پر غور کرتا رہتا۔ آج میری نظر قائد اعظم کے اس قول پر پڑی۔

”ہم نے پاکستان کا مطالبہ اس لیے کیا تاکہ اسے اسلام کی تجربہ گاہ بنا سکیں۔“

کچھ روز بعد میں ڈی سی کالج میں اپنے پرانے کلاس فیلوز، کزن اور اس کے دوستوں کے ساتھ نویں کلاس کے پہلے لیکچر میں بیٹھا ہوا تھا۔ یہ پرانے ماحول ور نئے تجربے کا حسین امتزاج تھا۔ ڈی سی کالج ایک پرائیویٹ کالج تھا۔ ان کے ایک سٹوڈنٹ نے بورڈ میں پوزیشن حاصل کی تھی جس کی دھوم اشتہارات کی بدولت سارے شہر میں مچی ہوئی تھی۔ حال ہی میں انہوں نے ہائر سیکنڈری کی تعلیم شروع کی تھی۔ ہم ان کا پہلا بیچ تھے۔

اگلے روز ہمارے لیب کے دو سیشن ہوئے۔ ڈی سی کالج میں دو لیب تھیں۔ ایک سائنس کی لیب اور دوسری کمپیوٹر کی۔ میں سائنس کی لیب میں پہلی بار مائیکرو سکوپ، کیمیکلز اور عناصر کی ڈائیاگرام دیکھ کر بہت مسحور ہوا۔ غالباً یہی وہ تجربہ گاہ تھی جس کی تعریف اسکول کے پرنسپل نے کی تھی۔ اور ہمیں ڈی سی کالج میں داخلے کا مشورہ دیا تھا۔

پھر ہم کمپیوٹر کی لیب میں آ گئے۔ دو بڑے کمروں میں چاروں طرف دیوار سے جڑی ٹیبل پر کمپیوٹر ترتیب سے رکھے ہوئے تھے۔ مجھے لگا کہ میں نے صحیح معنوں میں جدید دنیا میں قدم رکھ دیا ہے۔ ڈی سی کالج سے منسلک ایک چھوٹا سا ہوسٹل بھی تھا۔ جس میں دوسرے شہروں سے آنے والے طلبا رہتے تھے۔

بریک کے وقت ہم کالج کی کینٹین سے چکن پلاؤ یا گول گپے کھاتے۔ یا پاس گیمز کی دکان پر چلے جاتے اور ویڈیو گیمز یا بلیئرڈ کھیلتے۔ کالج میں ہر مہینے کھیلوں کے ٹورنامنٹ ہوتے۔ سال میں ایک بار کالج کا ٹرپ بھی جاتا۔ کالج میں سب کچھ بہت اچھا تھا۔

کچھ دنوں بعد میں نے نوٹ کیا کہ کوئی بھی ٹیچر ہمیں ٹک کر نہیں پڑھا رہا تھا۔ آئے دن کسی مضمون کا استاد تبدیل ہو جاتا۔ کچھ دنوں بعد خبر ملتی کہ فلاں ٹیچر نے اپنا کاروبار شروع کر لیا ہے۔ یا ان کی کسی بینک میں جاب لگ گئی ہے۔ استادوں نے اس کالج کو ایک سرائے سمجھ لیا تھا جس میں وہ کچھ عرصہ پڑاؤ کرتے اور پھر اپنی اگلی منزل کی طرف نکل جاتے۔ گویا انہیں ہمارے مستقبل سے زیاد اپنے مستقبل کی فکر تھی۔

کئی بار ایسا ہوتا کہ ہمیں ایک سبجیکٹ کا نیا باب ایک نیا ٹیچر پڑھاتا۔ ایک بار تو حد ہو گئی۔ ایک استاد ہمیں ایک سبق کے درمیان میں ہی چھوڑ گئے۔ اگلے روز نئے ٹیچر نے ہمیں بتایا کہ وہ ہمیں ٹھیک کانسیپٹ دے کر نہیں گئے۔ اور اب وہ ہمیں ٹھیک طرح سے پڑھائیں گے۔

ایک طرح سے یہ بھی خوب تھا۔ ہم ایک ہی ٹاپک  کو مختلف زاویوں سے دیکھ رہے تھے۔ اب ہم مختلف ٹیچروں کے اسباق کا موازنہ کر سکتے تھے۔ یوں ہماری تنقیدی صلاحیتوں میں دن بدن اضافہ ہو رہا تھا۔

پھر یہی نہیں ہمارے ٹیچر رنگارنگ خوبیوں کے بھی مالک تھے۔ انگلش کے ٹیچر ہمیں اپنی شاعری سناتے۔ ریاضی کے ٹیچر کو جب یہ معلوم ہوا کہ میں ڈرائنگ کرتا ہوں تو انہوں نے مجھ سے اپنی منگیتر کا سکیچ بنانے کی فرمائش کی۔ جسے وہ آگے یہ کہہ کر پیش کریں گے کہ وہ انہوں نے خود بنائی ہے۔ انہی کے لیے میں نے عشقیہ خطوط بھی لکھے۔ مجھے جتنے شعر یاد ہوتے سب ان میں لکھ ڈالتا۔

ہمارے اسلامیات کے ٹیچر عربی پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ وہ قرآن مجید کی سورتوں کی تلاوت ایک حافظ سے کراتے۔ کلاس ان سے خاصا فرینک ہو چکی تھی۔ وہ جب کسی کی پٹائی کے لیے ہاتھ مانگتے تو طالبعلم ان کا حکم ہنسی میں اڑا دیتے۔ ایسے میں وہ بڑی لجاجت سے بولتے، ”بس تھوڑی سی لے لو۔ تھوڑی سی لے لو۔“

ایک روز ایک سٹوڈنٹ سے لیب میں ایک بوتل ٹوٹ گئی۔ اس کے بعد ہمارا لیب میں داخلہ بند ہو گیا۔ آخر لیب کے سامان کی حفاظت بھی ضروری تھی۔ لیب کا وقار آنے والے طلبا کے لیے قائم رہنا چاہیے تھا۔ ہم نے جتنے پریکٹیکل کرنے تھے کر لیے تھے۔ باقی کا کام امتحان میں سفارش سے بھی ہو سکتا تھا۔

کمپیوٹر کی لیب میں بھی بیشتر کمپیوٹر خراب تھے یا اتنے سلو تھے کہ ہم کام نہیں کر سکتے تھے۔ سو ہم گھنٹوں اپنی باری آنے کا انتظار کرتے۔ ہماری ایک کلاس سے کچھ طلبا کے بستر برآمد ہوئے۔ معلوم ہوا کہ رات کے وقت وہاں دوسرے شہروں سے آنے والے طلبا ٹھہرتے تھے۔

ایک روز پرنسپل گھبراتے ہوئے ہماری کلاس میں آئے اور ہمیں فوراً کلاس خالی کرنے کی تاکید کی۔ ہم کالج کی چھت سے ملحق ایک فرنیچر کی دکان کی چھت پر چلے گئے۔ جانے والے تنگ رستے کو ایک چادر سے ڈھانپ دیا گیا۔ کوئی خبر نہیں تھی کہ کیا ہو رہا تھا۔ یہ کسی آفت کی صورت میں ہنگامی اخراج کی ریہرسل بھی ہو سکتی تھی۔

ہماری کلاس چھت کے فرش پر دھوپ میں بیٹھی ہوئی تھی۔ ٹیچر نے ہمیں کام دیا ہوا تھا مگر اس روز پڑھنے کا کوئی سین نہیں تھا۔ چھت سے پچھلی گلی کی طرف سیڑھیاں نکل رہی تھیں۔ مگر نیچے دروازے پر تالا لگا ہوا تھا۔ سو ہم اس چھت پر مکمل طور پر محصور تھے۔

اسی اثنا میں ایک لڑکے کو حاجت محسوس ہوئی۔ اس نے ٹیچر سے کالج کے ٹوائلٹ جانے کی اجازت مانگی۔ ٹیچر نے اسے کنٹرول کرنے کا کہا۔ پرنسپل نے سختی سے تاکید کی تھی کہ کوئی کالج کی حدود میں نہ آئے۔ میں چادر کے ساتھ بیٹھا تھا۔ میں نے ایک سوراخ سے کچھ لوگوں کو پرنسپل کے ہمراہ سائنس لیب کی طرف جاتے ہوئے دیکھا۔ حاجت والا لڑکا اب باقاعدہ ٹوائلٹ جانے کی ضد کرنے لگا۔

اگلے دن معلوم ہوا کہ پچھلے روز بورڈ کی انسپیکشن ٹیم نے اچانک کالج کا دورہ کیا تھا۔ اس پرائیویٹ کالج کو میٹرک کی کلاسیں پڑھانے کی اجازت نہیں تھی۔ انہوں نے تجرباتی طور پر نویں اور دسویں کی کلاسیں شروع کی تھیں۔ انسپیکشن ٹیم کو اس بات کا معلوم نہ ہو سو اس لیے انہوں نے ہمیں ساتھ فرنیچر کی دکان کی چھت پر چھپا دیا تھا۔

میں نے سوچا کہ وہ کالج ایک تجربہ گاہ ہی تو تھا۔ جہاں ہمیں روز نت نئے تجربات کے لیے لایا گیا تھا۔ مجھے اچانک اسکول کے پرنسپل کی بات یاد آ گئی۔ معلوم نہیں انہیں کون سی تجربہ گاہ پسند آئی تھی۔ جسے دیکھ کر انہوں نے ہمیں ڈی سی کالج میں داخلے کا مشورہ دیا تھا۔

فرحان خالد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

فرحان خالد

فرحان خالد تعلیمی اعتبار سے انجنیئر ہیں. ایک دہائی سے سافٹ ویئر انڈسٹری سے منسلک ہیں. بچپن سے انہیں مصوری، رائٹنگ اور کتابیں پڑھنے کا شوق ہے. ادب اور آرٹ کے شیدائی ہیں.

farhan-khalid has 36 posts and counting.See all posts by farhan-khalid

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments