مظاہرین کے بیچ پھنسی پولیس


پاکستان میں پولیس وہ واحد محکمہ ہے جسے مجھ سمیت ہر شخص بآسانی تنقید کا نشانہ بنا سکتا ہے بلکہ میں تو پولیس کا بہت بڑا ناقد ہوں۔ کوئی چھوٹا سا واقعہ ہو، چوری ہو، ڈکیتی ہو، قتل ہو، لڑائی جھگڑا ہو، کسی قسم کے احتجاج کے دوران ناخوشگوار واقعات ہوں الغرض کچھ بھی ہو، ہر حال میں پولیس ہی کسی نہ کسی صورت مطعون ٹھہرتی ہے۔

دو ہزار چودہ میں نواز حکومت کے دوران عمران خان کا اسلام آباد کا مشہور زمانہ دھرنا کس کو یاد نہیں ہو گا۔ اس وقت بھی پولیس اپنا فرض نبھا رہی تھی اور آج عمران خان کی حکومت میں عمران حکومت کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہرے یا دھرنے کے دوران پولیس ہی سب سے پہلے اپنا فرض نبھانے میدان عمل میں اتری ہے۔ اس وقت بھی پولیس زیر عتاب ٹھہری تھی اور آج بھی کالعدم مذہبی جماعت کے دھرنوں میں پولیس ہی وہ واحد محکمہ ہے جس نے جوانوں کی قربانی دے کر معاملات کو اپنے تئیں خوب سنبھالا ہے۔ (جوان سے مراد ہر وہ پولیس والا ہے جو پولیسنگ کے فرائض ادا کرتا ہے اس میں بزرگ اور جوان کی کوئی تفریق نہیں۔ )

محدود نفری اور وسائل کے باوجود پولیس اپنا سب سے بہترین کام کرنے کی کوشش کرتی ہے مگر افسوس کہ عوام اور پولیس میں بڑھتی ہوئی خلیج کو کبھی کسی نے پر کرنے کی کوشش نہیں کی۔ یا اگر پولیس اور عوام کے درمیان خلیج پاٹنے کی کبھی کوئی مثبت کوششیں ہوئی بھی ہیں تو حکومتی نا اہلیوں کے باعث وہ کوششیں بارآور ثابت نہیں ہو سکیں۔

دو ہزار چودہ کے دھرنے کے دوران کئی ایسی ویڈیوز وائرل ہوئیں جن میں پولیس کے جوانوں کو زد و کوب کیا جا رہا تھا اور تبدیلی کی وبا میں مبتلا عاقبت نا اندیش لوگ دل ہی دل میں پولیس پر ہونے والے ظلم و ستم پر خوشی محسوس کرتے تھے۔ اس وقت تو تبدیلی کا بخار سر چڑھا ہوا تھا اور شاید اسی بخار کی معراج پہ بیٹھے تبدیلی کے وہم میں مبتلا لوگ یہ بھول بیٹھے تھے کہ آنے والے وقت میں کوئی دوسرا جتھہ بھی اسی روش پر چل سکتا ہے اور نتائج سنگین نکل سکتے ہیں۔ آج دیکھ لیجیے کہ کالعدم جماعت کا دھرنا کم از کم چھ پولیس والوں کی شہادت پر منتج ہوا۔

مان لیا کہ پاکستان کے پولیسنگ سسٹم میں مسائل موجود ہیں لیکن ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اکیلی پولیس یا پولیس کے اعلی افسران ہی اکیلے اس سسٹم کو مرتب نہیں کرتے۔ پولیس بھی حکومتی و ریاستی مشینری کا حصہ ہے جس کے اعلی افسران کو اعلی حکومتی و سیاسی عہدیداروں کے احکامات ماننے پڑتے ہیں۔ اگر نہ مانیں تو پولیس کے اعلی افسران تک کو سنگین نتائج بھگتنا پڑتے ہیں، دھمکیاں اور گالیاں تو معمول کی بات ہے۔

عمران حکومت کے ابتدائی مہینوں کا واقعہ ہے کہ محترمہ مریم اورنگزیب صاحبہ کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں وہ کسی جگہ احتجاجی دھرنا دیے بیٹھی تھیں، جب پولیس کے افسران نے انہیں دھرنا ختم کرنے اور وہاں سے اٹھ جانے کو کہا تو محترمہ نے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ ہماری دوبارہ بھی باری آنی ہے ہم آپ کو دیکھ لیں گے اور پولیس افسر بیچارہ جھینپ کر، ناکام مسکراہٹ کے ساتھ ایک طرف ہو گیا تھا۔

حکومتی نا اہلیوں اور جتھوں کے اتحاد کی صورت میں کئی بار ایسے ناخوشگوار واقعات ہو چکے ہیں جن میں پولیس کے عام جوان اپنی زندگی قربان کر چکے ہیں۔ اعلی افسران دفاتر میں اور حکومتی عہدیداران اسمبلیوں میں بیٹھے تقاریر جھاڑتے رہتے ہیں یا پھر فرامین جاری کرتے رہتے ہیں جبکہ ایک عام پولیس والا میدان جنگ بنے ہوئے ماحول میں اور بپھرے ہوئے احتجاجیوں کے درمیان حالات کو سازگار بنانے کی کوشش میں سر دھڑ کی بازی لگا رہا ہوتا ہے۔

کیا ہماری حکومتیں یا ہمارے حکمران اتنے نا اہل اور بیوقوف ہیں کہ آنے والے وقت کی پیش بندی نہیں کر سکتے۔ ؟ کیا ہمارے حکمران اتنی کمزور دانش کے حامل ہیں کہ کچھ دن پہلے ایک جماعت کو انڈین فنڈنگ سے چلنے والی کہہ رہے تھے اور کچھ دن بعد اسی جماعت کو مذاکرات کے لیے ساتھ بٹھا لیا؟ کیا ہمارے پولیس کے جوانوں کی جانیں اتنی سستی ہیں کہ جب جس کا جی چاہے پکڑ کر ان کو قتل کر ڈالیں پھر چاہے وہ تبدیلی کے نام پر ہو یا مذہب کے نام پر؟ کیا ہمارے عوام اتنے سادہ ہیں کہ جب جس کا جی چاہے انہیں اپنے فائدے کے لیے استعمال کر لے۔ ؟ کیا پولیس اور عوام کے بیچ بڑھتی ہوئی خلیجیں یونہی دم بدم مزید وسیع تر ہوتی چلی جائیں گی؟

دھرنا ختم ہو گیا، حکومتی اور کالعدم مذہبی جماعت کے ارکان ایک دوسرے کو مبارکبادیں دیتے ہوئے گھر لوٹ رہے ہیں۔ لیکن ان چھ پولیس والوں کے خون ناحق کا حساب کون لے گا جو پردے کے پیچھے بیٹھے ہوئے طرم خان، بزدل اور عاقبت نا اندیش حکمرانوں اور بلوائیوں کے مفادات کے ہاتھوں اپنی زندگی کی بازی ہار گئے۔ ؟

کیا حکومتی امداد، ناموس کے نعرے، سیاستدانوں کے ہمدردانہ بیانات اور مذہبی لوگوں کے فاتحہ و قل ان مرحومین کے بچوں کی محرومی کا ازالہ کر سکیں گے؟

گریبان دونوں کا پکڑنا چاہیے، حکومت کا بھی اور ان احتجاجیوں کا بھی جنہوں نے اتنے روز ملک میں کشت و خون کا کھیل جاری رکھا اور ناحق اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کو شہید کیا۔ مگر گریبان پکڑے کون؟ پولیس بھی حکومت کی ماتحت اور عالیہ و عظمی بھی حکومت کے بغل بچے۔

ہمیں تیار رہنا چاہیے کہ آئندہ پھر ایسی ہی صورتحال پیش آئے گی، پھر پولیس والے ناحق مار کھائیں گے، پھر عوام ذلیل و خوار ہوں گے اور پھر حکومتی نا اہلیوں کے نتائج پولیس سمیت عوام کو بھی بھگتنا پڑیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments