روحانی راہوں کا بھٹکا مسافر شہر خموشاں کیوں بنانا چاہتا ہے؟


ایک روز یادوں کی کھڑکی میں کھڑا ارسلان آئینے میں اپنا عکس دیکھ رہا ہوتا ہے کہ اسے گئے وقتوں کی جھلک دکھائی دیتی ہے، جس میں اسے جامعہ کے دالان میں ٹہلتے کچھ دوست نظر آتے ہیں۔ ان دوستوں میں وہ جوان بھی شامل ہوتا ہے جو حال ہی میں ”نیپال تاپو بان“ سے لوٹا ہے۔ نیپال سے لوٹا یہ جوان طالب علمی کے زمانے میں گرو رجنیش المعروف اوشو کی کرشماتی شخصیت سے اس قدر متاثر ہوا کہ ایک روز جوش خطابت میں اپنا آشرم بنانے کا اعلان کر بیٹھا۔

وہ لڑکا آشرم بنانے کا خواب آنکھوں میں سجائے لمحہ لمحہ اس خواب میں جیتا رہا، اور ہم آنے والے کل کو لے کر حال میں جینا بھول گئے۔ دن، مہینے، سال گزر گئے، دیکھتے ہی دیکھتے جامعہ کے دالان میں ٹہلتے سارے یار آنکھوں سے اوجھل ہو گئے۔ کچھ تاریک راہوں کے مسافر بنے تو کچھ حالات کی بھٹی میں جل کر بابو بن گئے۔

ایک دہائی بعد دیرینہ دوست لوٹا تو ارسلان اس سے ملنے گیا۔ لیکن اسے یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ اب اس کے دوست کا نظریہ بدل چکا ہے۔ جو لمحہ لمحہ جی بھر کے جینے کا عادی تھا، اب پل پل آنے والے کل کو لے کر کڑھتا رہتا ہے۔ روحانی راہوں کا بھٹکا مسافر اب آشرم بنانے کا ارادہ ترک کر چکا ہے۔ اب اسے کسی درویش کی درگاہ بنانے کا شوق چڑھا ہے۔ لیکن اس سے پہلے وہ ریئل اسٹیٹ کے دھندے میں قسمت آزمانا چاہتا ہے۔ کیوں کہ اسے لگتا ہے کہ یہ کاروبار دن دو گنی اور رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ ٹیکس کی مد میں بھی بڑی حد تک چھوٹ حاصل ہے۔ لہذا وہ اپنا ایک پروجیکٹ شروع کرنے کا خواہشمند ہے۔

بقول اس کے ”میں چاہتا ہوں کہ ایک ایسا شہر بناؤں جہاں ہر طرف سکون، ہریالی اور گھنے درخت ہوں۔ جہاں شور شرابے کا نام نہ ہو۔ در حقیقت جہاں سے کوچ کرنے والوں کا شہر، شہر خموشاں بنانا چاہتا ہوں۔ یہ اپنی طرز کا پہلا شہر خموشاں ہو گا، جو تمام تر جدید سہولیات سے آراستہ ہو گا۔ جس میں، ہسپتال، ڈاکٹرز، مسجد، مولانا، پارک، شیلٹر ہوم، سرد خانہ، غسل خانہ، جنازہ گاہ، نیز قبروں کی دیکھ بھال اور حفاظت کے لیے سیکورٹی سمیت مردوں کی بخشش کے لیے قرآن خوانی، قل، فاتحہ اور خصوصی دعاؤں کا انتظام ہو گا۔ سب سے بڑھ کر قبریں لیز شدہ زمین پر عین اسلامی طریقے کے مطابق بنائی جائیں گی۔

بکنگ کے مرحلے کو آسان بنانے کے لیے پروجیکٹ کی اپنی ویب سائٹ اور ایپ بنائی جائے گی۔ جہاں مرنے سے پہلے لوگ اپنی قبریں، تابوت ان کا ڈیزائن، ماربل، ٹائل، کتبہ اور اپنی پسند کے پتھر وغیرہ منتخب کر سکیں گے۔ ”

پروجیکٹ کے لیے پیسے اور زمین سے متعلق نیپال سے لوٹا شہزادہ، ارسلان کو بتاتا ہے کہ دو شہروں کے درمیان آبا و اجداد کی زمین پڑی ہوئی ہے۔ اس زمین کو پروجیکٹ کے لیے استعمال کرنے کا سوچا ہے۔ اس سلسلے میں جوانوں کے ایک پروگرام میں ڈھائی کروڑ روپے تک کا قرضہ حاصل کرنے کا فارم بھر رکھا ہے۔ صرف ایک دفعہ قرضہ منظور ہو جائے تو دو، چار، ماڈل قبریں بنا کر پروجیکٹ کی آفیشل ویب سائٹ لانچ کر دوں گا۔

ارسلان اپنے دوست سے پوچھتا ہے کہ تمہارے ذہن میں شہر خموشاں بنانے کا خیال کیسے آیا؟

جس پر مستقبل کا درویش جواب دیتے ہوئے کہتا ہے کہ، ایک دن اخبار پڑھتے وقت ایک خبر پر نظر پڑی کہ جس میں لکھا ہوا تھا کہ کچھ دیہاتوں کے مکین سراپا اس بات پر احتجاج ہیں کہ ہمیں ہمارے گھروں سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔ سیٹھ لوگ چاہتے ہیں کہ ہم پرکھوں کی زمین انہیں کوڑیوں کے دام فروخت کریں، فروخت نہ کرنے کی صورت میں قبروں اور گھروں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔

خبر پڑھنے کے بعد میں نے ابا حضور سے بات کی کہ، ہماری زمین بھی دو نئے شہروں کے درمیان ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم سے ہماری زمین چھین لی جائے، ہمیں بے دخل کیا جائے، کیوں نہ ہم اپنا شہر بنائیں، شہر خموشاں۔ جس پر ابا نے کہا کہ یہ کیا بے ہودہ مذاق ہے؟

میں نے تحمل سے ابا کو سمجھایا کہ نہ تو میں نالوں پر قبضے کی بات کر رہا ہوں، اور نہ ہی پارکوں پر، نہ غریبوں کے مکان ڈھانے کی بات کر رہا ہوں اور نہ ہی مڈل کلاسیوں کو جھانسا دے کر ان کا سرمایہ ہڑپنے کی بات کر رہا ہوں۔ میں تو اپنی زمین پر اپنا شہر بنانے کی بات کر رہا ہوں۔ میں تو ایک ایسے شہر کی بات کر رہا ہوں جس میں ابدی آرامی خود کو محفوظ تصور کر سکیں، کم از کم انہیں اس بات کا یقیں ہو کہ ہماری ہڈیوں کو بلند و بالا عمارتوں میں بطور سریے کے استعمال نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی قبروں سے نکال کر ان کی بے حرمتی کی جائے گی۔

اس منصوبے کو بنانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آئندہ کچھ سالوں میں نئے شہروں کی آبادی دس سے پندرہ لاکھ ہو جائے گی۔ لیکن اتنی بڑی آبادی کے لیے ان شہروں میں قبرستان کے لیے مختص کی گئی زمین بہت کم ہے۔

ارسلان بھائی، ذرا سوچیں، مادیت پرستی کا زمانہ ہے، آج کل سبھی مصروف ہیں۔ کہاں کسی کو اتنی فرصت کہ مردوں کو آبائی شہروں، دیہاتوں، قصبوں میں لے جا کر دفنائیں، یا پھر کسی بے ہنگم شہر کے کسی بوسیدہ قبرستان میں دفنائیں۔ جہاں قبروں کے مکین ہڈیوں سمیت لاپتہ کر دیے جاتے ہوں۔ لہذا نئے شہر اور وہاں کے مکینوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ منصوبہ سوچا ہے۔

ارسلان اپنے دوست سے اجازت لیتے وقت نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ لالہ تمہیں تو پتہ ہے کہ میں مارکیٹنگ کے شعبے سے وابستہ ہوں، لہذا جب اپنا اگلا پروجیکٹ، درویش کی درگاہ شروع کرو تو مجھ سے رابطہ کر لینا شاید میں تمہارے کسی کام آ سکوں۔ جس پر وہ کہتا ہے جی ضرور انشاء اللہ، اور پھر ارسلان نیپال سے لوٹے دوست اجازت لے کر چلا جاتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments