خصوصی لڑکیوں کے احساسات اور جذبات عام لڑکیوں جیسے ہی ہوتے ہیں


آمنہ حامد کا تعلق کراچی سے ہے۔ وائرل انفیکشن نے آمنہ کی قوت سماعت، بینائی اور چلنے کی صلاحیت کو متاثر کیا۔ آمنہ کی قوت سماعت اور بینائی میں بہت بہتری آ چکی ہے لیکن سپائنل کارڈ کی سوزش کی وجہ سے ویل چیئر پر ہیں۔ یونیورسٹی آف لندن کے ایکسٹرنل پروگرام سے بیچلرز کیا ہے۔ امریلی سٹیل میں بطور سٹریٹجک کونٹینٹ ڈیویلپر فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔ کتابیں پڑھتی ہیں، کالمز لکھتی ہیں اور فوڈ بلاگنگ کرتی ہیں۔ فری لانسنگ کرتی ہیں اور اسی حوالے سے ایک ادارے کے قیام کی خواہش مند ہیں۔

آمنہ کے والد صاحب حامد حسین خان کراچی کی گلاس اور سرامک انڈسٹری کی جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ پرنس گلاس، غنی گلاس اور بلوچستان گلاس انڈرسٹری میں مارکیٹنگ ہیڈ کے طور پر فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں۔ بہت سی کمپنیوں کو آئی۔ ایس۔ او سرٹیفائیڈ کروا چکے ہیں۔ آئی۔ ایس۔ او کی ٹریننگ بھی دیتے رہے ہیں۔ والدہ صاحبہ کا نام فرحت حامد ہے جو کہ استاد اور ماہر تعلیم ہیں۔ بلوچستان کی خواتین کی تعلیم اور کھیلوں کے فروغ میں آمنہ کی والدہ کا بڑا کردار ہے جسے آج بھی سراہا جاتا ہے۔

آمنہ والدین کی اکلوتی اولاد ہیں۔ پیدائش کوئٹہ میں ہوئی۔ کچھ وقت کوئٹہ میں گزارا پھر والد کی نوکری کی وجہ سے خاندان کو کراچی شفٹ ہونا پڑا۔ آمنہ کا داخلہ کراچی کے گرائمر سکول میں کروا دیا گیا۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ آمنہ تعلیم کے میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑتے چلی جا رہی تھیں۔

جنوری 2000 ء کی ایک رات آمنہ کو شدید بخار ہوا۔ ٹانگوں میں اچانک جان ختم سی ہونے لگی۔ آمنہ گھبرا اٹھیں پھر گھر کے چکر لگانے شروع کر دیے۔ کبھی ٹیرس پر جاتیں تو کبھی کمرے میں آتیں۔ آمنہ کہتی ہیں کہ اتوار کا دن تھا جب انھیں آغا خان لے جایا گیا۔ آغا خان والوں نے آمنہ کی حالت دیکھتے ہی تمام متعلقہ ڈپارٹمنس کھول دیے۔ ہیڈ آف ڈپارٹمنس کو فوری طور پر بلا لیا۔ ڈاکٹر یہ جاننے کی کوشش کرنے لگے کہ دوائی یا سرجری کے ذریعے آمنہ کا علاج ممکن ہو سکے۔

لیکن ایسا ممکن نہ ہوا۔ آمنہ کو عام فلو ہوا ٹرانس ورس مائی لیٹس نام کا وائرس فلو کے ذریعے جسم میں داخل ہوا جس کی وجہ ٹانگوں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ اس کے علاوہ ٹینائٹس نام کے وائرس نے قوت سماعت کو بھی متاثر کیا۔ اب آمنہ فون پر بات نہیں کر سکتیں لیکن عام زندگی کے تمام امور بہترین انداز میں سرانجام دیتی ہیں۔ دو مرتبہ آپٹک نیورائٹس بھی ہو چکا ہے۔ جس میں آنکھوں کی بینائی شدید متاثر ہو جاتی ہے۔ اس کا اثر دو ماہ رہا لیکن خدا کے فضل و کرم سے بینائی واپس آ گئی۔ اب آمنہ کی بینائی منفی پانچ پر رک گئی ہے۔ اس کے علاوہ خون میں کلاٹنگ بھی ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے مستقل دوائی استعمال کرنا پڑتی ہے۔ آمنہ کے کیس کو آغا خان کے مشہور نیوروفزیشن عزیز سونا والا دیکھ رہے ہیں۔ جنھیں امید ہے کہ ایک نہ ایک دن آمنہ اپنے پیروں پر چلنے کے کا قابل ضرور ہو جائیں گیں۔

حرام مغز کی سوزش ایسا مرض ہے جس کی نہ تو کوئی دواء ہے، نہ آپریشن اور نہ ہی کوئی علاج۔ جب تک سوزش ہے آمنہ ویل چیئر پر ہیں۔ جس دن سوزش ختم ہو جائے گی اسی دن آمنہ چل پڑیں گیں۔

آمنہ پر بیماری کا جب حملہ ہوا اس وقت آمنہ او۔ لیولز میں تھیں۔ بیماری نے سب کو پریشان کر دیا اس موقع پر والدہ صاحبہ اور سکول کی پرنسپل مسز چشتی مجاہد صاحبہ نے بھرپور ساتھ دیا۔ اپنی زیر نگرانی آمنہ کے کورسز ختم کروائے۔ نوٹس کی فراہمی میں بھر پور تعاون کیا۔ امتحانات گراؤنڈ فلور پر رکھوائے تاکہ آمنہ کو دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

آمنہ کو پڑھائی سے اتنا لگاؤ تھا کہ طبعیت سنبھلنے کے فوراً بعد پڑھائی شروع کر دی۔ آنے جانے اور رسائی کے مسائل کی وجہ سے ریگولر تعلیم کو ترک کرنا پڑا۔ اتنا پڑھا کہ دو سال کا اے۔ لیول ایک سال میں ہی کر لیا۔ آمنہ کی کامیابی نے سب کو حیران کر دیا۔ آمنہ تعلیمی سلسلے کو آگے بڑھانے کے لئے پر جوش تھیں۔ لیکن والدہ صاحبہ کی بیماری کی وجہ سے سلسلہ جڑتا اور ٹوٹتا رہا۔ آمنہ ریگولر پڑھنا چاہتی تھیں۔ لیکن کراچی کی ایک یونیورسٹی کے سوا کہیں بھی ریمپس اور رسائی کی سہولیات موجود نہ تھیں۔

بہت کوششوں کے بعد ریگولر تعلیم کا خواب ترک کرنا پڑا۔ لیکن زندگی کے کسی بھی موڑ پر ہمت نہ ہاری۔ آن لائن یونیورسٹیاں تلاش کرنا شروع کر دیں۔ یونیورسٹی آف لندن کے ایکسٹرنل پروگرام کو اپنی اسناد بھیجیں تو انھوں نے فوری طور داخلہ دے دیا۔ مینجمنٹ ود لاء کا یہ پروگرام تین سال پر محیط تھا۔ ای۔ میلز اور کورئیر کے ذریعے کورس آمنہ تک پہنچ جاتا۔ مزید معلومات کے لئے آمنہ لائبریریوں کے چکر لگاتی رہتیں۔ پروگرام شروع ہوتے ہی آمنہ نے ڈگری کو انجوائے کرنا شروع کر دیا اور تین سالہ پروگرام دو سال کے مختصر سے عرصے میں مکمل کر لیا۔

وطن عزیز میں پرائیویٹ کمپنیوں کے لئے منافع ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ اسی لیے پرائیویٹ کمپنیاں خصوصی افراد کو نوکری دینے کا رسک لینا پسند نہیں کرتیں۔ پانچ سال قبل امریلی سٹیل کے چیف آپریٹنگ افسر جناب ہادی اکبر علی کی آمنہ سے ملاقات ہوئی۔ آمنہ کی صلاحیت اور قابلیت کو دیکھتے ہوئے ہادی صاحب نے آمنہ کو نوکری دینے کا فیصلہ کیا۔ پانچ سال سے امریلی سٹیل کا حصہ ہیں۔ کمپنی نے آمنہ کو ورک فرام ہوم کی سہولت دے رکھی ہے۔ سارا کام گھر میں ہی مینیج کر لیتی ہیں۔ ضرورت پڑنے پر آفس چلی جاتی ہیں۔

آمنہ وقت سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ بلاگنگ، آرٹیکل رائٹنگ، سوشل میڈیا منیجمنٹ، ایم۔ ایس آفس اور گوگل سوٹس، کونٹینٹ رائٹنگ، سیلز اور مارکیٹنگ کی منصوبہ بندی میں خاصی مہارت رکھتی ہیں۔ دفتر کے کام کے بعد بھی فارغ رہنا پسند نہیں کرتیں۔ فری لانسگ کے پراجیکٹس حاصل کرنے میں جڑ جاتی ہیں۔

حادثے نے آمنہ کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ معذوری کو قبول کرنے اس کے ساتھ جینے اور گھر سے باہر نکلنے میں چھ سے سات سال کا عرصہ لگ گیا۔ آمنہ نے گھر کو قابل رسائی بنا لیا ہے جس کی وجہ سے سارے کام خود کر لیتی ہیں۔ آمنہ کے پاس آٹومیٹک گاڑی بھی ہے۔ جس کا ایک بٹن دباتے ہی ویل چیئر آمنہ کے سامنے آجاتی ہے۔

فارغ وقت میں کتابیں پڑھنا، کوکنگ اور بیکنگ کرنا پسند ہے۔ مختلف میگزینز میں کوکنگ اور بیکنگ کی ٹپس اور ٹوٹکوں کے حوالے سے لکھتی رہتی ہیں۔ ٹریولنگ اور ہوٹلنگ کا بہت شوق ہے۔ دوستوں کے ساتھ گھومنا نئے نئے ہوٹلز دریافت کرنے کا بہت شوق ہے۔ آمنہ کہتی ہیں کہ ہمارے معاشرے نے خصوصی لڑکیوں کے ساتھ غلط تصورات کو جوڑ رکھا ہے۔ خصوصی لڑکیوں کے احساسات اور جذبات عام لڑکیوں کی طرح ہی ہوتے ہیں۔ آمنہ کو خوشبوؤں سے لگاؤ ہے۔ اچھے پرفیومز خریدنا اور شاپنگ کرنے کا بے حد شوق ہے۔

ایدھی، محسنات اور عالمگیر میں اشیائے ضروریہ بھیجنے کا اہتمام کرتی رہتی ہیں۔ خصوصی افراد کی مدد کرنے کا جنون ہے۔ خصوصی افراد کو مددگار آلات کی فراہم کرنے کی بھر پور کوشش کرتی ہیں۔

آمنہ کونٹینٹ رائٹنگ کی مہارت کو فروغ دینا چاہتی ہیں۔ کونٹینٹ رائٹنگ کے حوالے سے ایک ادارہ قائم کرنا چاہتی ہیں۔ جہاں لوگوں کو اس حوالے سے باقاعدہ ٹریننگ دی جائے۔

آمنہ کہتی ہیں کہ خصوصی افراد کی تعلیم، صحت، سوشل سیکورٹی اور روزگار کے حوالے سے حکومت کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ حکومت ان معاملات کی کڑی نگرانی کرے تو خصوصی افراد معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

آمنہ کہتی ہیں کہ بولنا، چلنا، دیکھنا، سونگھنا اللہ کے عظیم ترین تحفے ہیں۔ قدرت نے ہر انسان کو کسی نہ کسی تحفے سے نواز رکھا ہے۔ خصوصی افراد مایوس ہونے کے بجائے خدا کی دی ہوئی صلاحیتوں کو تلاش کریں پھر اس پر محنت کریں۔ پھر اسی صلاحیت سے معاشرے میں مقام بنائیں اور معاشرے کی خدمت بھی کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments