نشتر میں بلی بھی سموسہ کھاتا ہے


کچھ عرصہ پہلے تک نشتر میڈیکل کالج کے طلبہ سیر کرنے کے لئے ملتان کینٹ پیدل ہی چلے جاتے تھے۔ بیس طلبہ کا ایک گروپ سیر کر کے ہوسٹل واپس آیا۔ مرکزی کینٹین پر خوش گپیاں کرنے بیٹھ گیا۔ گروپ میں ملک کے ہر خطے کی نمائندگی تھی۔ طلبہ کا آپس میں گہرا یارانہ تھا۔ ہر شخص خود کو ارسطو اور افلاطون کا سچا جانشین سمجھتا تھا۔ ایک صاحب کا داخلہ مخصوص سیٹ پر ہوا تھا۔ مگر وہ دنیا میں ہر طرح کی تخصیص کے خلاف تھے۔ ان کے مارکس بہت کم مگر کال مارکس پر یقین بہت زیادہ تھا۔ شدید انقلابی واقع ہوئے تھے۔ یوسفیؔ صاحب کے بقول کچھ لوگ رشتے داری کے لحاظ سے خاندان کے مضافات میں بستے ہیں۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ اکثر انقلابی علم اور عمل کی بستی کے مضافات میں بستے ہیں۔ عالم کو ذاتی اصلاح کی فکر ہوتی ہے جبکہ انقلابی پوری دنیا کو ٹھیک کرنے کے چکر میں ہوتا ہے۔ طلبا سموسے کھانے کے بہت شوقین تھے۔ اکثر اوقات سموسوں کا کچھ حصہ میز کے نیچے بھی گر جاتا تھا۔ بلیاں بھی شوق سے سموسے کھاتی تھیں۔ کچھ طلبہ بلیوں کا پیٹ بھرنے کے لئے قصداً بھی سموسوں کے کچھ ٹکڑے نیچے گرا دیتے تھے۔

ہمارے انقلابی صاحب کا شعور بلیوں کو سموسہ کھاتا دیکھ کر ضرورت سے زیادہ بیدار ہو گیا وہ فوراً مقرر کے رتبے پر فائز ہو گئے۔ فرمانے لگے ”نشتر میں تو بلی بھی سموسہ کھاتا ہے۔ ہمارے علاقے میں تو مزدور بھی سموسہ نہیں کھا سکتا“ ۔ وگتی کی جنم بھومی، جھنگ کے سپوت ڈاکٹرصاحب نے ترنت جواب دیا ”ہمارے علاقے میں بھی کئی آدمی اس طرح کے سموسے بناتے ہیں کہ کوئی یار بیلی بھی نہیں کھا سکتا اور بلی بھی نہیں کھا سکتی۔ شاید آپ کے علاقے میں بھی سموسوں کا معیار بہتر بنانے کی شدید ضرورت ہے۔“

گروپ کے ایک طالب علم ہر وقت پریشان رہتے تھے۔ ان کی صحت واجبی سی تھی۔ شکل و صورت صحت سے بھی زیادہ واجبی تھی۔ ایک رحم دل دوست نے نہایت تشویش کے ساتھ پریشانی کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے ”میرے ساتھ ایک مسئلہ ہے۔ ڈاڑھی کٹوا دوں تو سک (sick) لگتا ہوں۔ ڈاڑھی بڑھا لوں تو سکھ لگتا ہوں۔ آپ ہی بتائیں میں کیا کروں“ ۔ دوست کا تفکر تدبر میں بدل گیا۔

ایک اور طالب علم تربیلا ڈیم کے متاثرین میں شامل تھے۔ دوستوں نے ان کے نام کے ساتھ متاثرہ کا اضافہ کر دیا۔ عموماً ان کو متاثرہ کے نام سے پکارا اور جانا جاتا تھا۔ وہ پہلے تعلیمی سال نہایت فخر سے دعویٰ کرتے تھے ”ایک دن میں نے پورے نشتر کو آگے لگا لینا ہے“ ۔ تعلیم میں ان کی دلچسپی بالکل نہیں تھی۔ چار سال متواتر فیل ہوتے رہے۔ ایک دن ایک جگری دوست بولے ”میرا بھائی ولی ہے، ولی۔ آیا تھا تو کہتا تھا میں نے پورے نشتر کو آگے لگا لینا ہے۔ اب چار سال جونیئر بھی آگے لگ گئے ہیں“ ۔

ایک ڈاکٹر صاحب بہت مذہبی تھے۔ ایک ہمسایہ ملک چلے گئے جہاں خانہ جنگی ہو رہی تھی۔ سائنس کے طالب علم تھے۔ حالات کا تجزیہ کیا۔ واپس آ گئے۔ ایک جونیئر نے ایک دن پوچھا ”آپ وہاں کیوں گئے تھے؟ کس کی طرف سے اور کس سے لڑتے رہے“ ۔ بڑے تاسف سے جواب دیا ”گیا کیوں تھا، یہ تو شاید ساری زندگی نہ سمجھ سکوں، وہاں جا کر خود سے ہی لڑتا رہا اور یہ لڑائی شاید اب بقیہ تمام عمر لڑنی پڑے۔ ڈاکٹر کا کام مرض سے لڑنا ہوتا ہے یہاں لگتا ہے۔ سوچنا ہی اصل مرض ہے“ ۔

تاریخ خود کو دہراتی ہے مگر ہسٹری نہیں۔ ایک زیر تعلیم ڈاکٹر صاحبہ نے ایک مریض کی ہسٹری اس طرح لی کہ وہ ہسٹری تاریخ میں امر ہو گئی۔ ایک مریض ٹانگ کی ہڈیوں کے فریکچر کے ساتھ آیا۔ وجہ ٹرک کا ٹانگ پر سے گزر جانا تھا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے پوچھا ”آپ کے والد کی ٹانگ پر سے بھی کبھی ٹرک گزرا تھا؟ آپ کے بڑے بھائی کی ٹانگ پرسے کبھی ٹرک گزرا تھا؟“ ساتھ کھڑے ایک کلاس فیلو نے بڑی معصومیت سے کہا ”آپ کے سوال بالکل بجا ہیں۔ یہ پسماندہ علاقہ کا رہنے والا ہے۔ ان کے علاقے میں ٹرک آتا کبھی کبھار ہے اور اس دن ان کے والد اور بھائی دوسرے گاؤں گئے ہوئے تھے ورنہ ٹرک ضرور گزرتا“ ۔

ایک ڈاکٹر صاحب شاعر بن گئے اور دھڑا دھڑ اپنی کتابیں چھپوانا شروع کر دیں۔ ان کے ایک دوست ادب کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ وہ اپنی ہر کتاب ان کو پیش کرتے اور تعریفی کلمات کے متمنی ہوتے۔ ایک دن دوست نے کہا ”میں آپ کی ہر کتاب پڑھتا ہوں۔ تعریف مگر ایسے کرتا ہوں جیسے کتاب نہ پڑھی ہو۔ بعض کتابیں اگر نہ پڑھی ہوں توان کی تعریف کرنا آسان ہوتا ہے۔“

ایک نوجوان کا داخلہ نشتر میڈیکل کالج میں ہو گیا۔ ان کی اپنی صحت بہت خراب رہتی تھی۔ کمزور سے ”جثے“ کے مالک تھے۔ لوگوں کی مدد کرنے کے بہت شوقین تھے۔ ایک دن ایمرجنسی کے ساتھ واقع کنٹین پر بیٹھے تھے۔ لب و لہجے سے ایک شخص اپنے علاقہ کا لگا۔ اس کو بلایا۔ چائے پلائی۔ بتایا میں بھی آپ کے شہر کا ہوں، ہوتا ادھر ہی ہوں۔ وہ صاحب کہنے لگے ”آپ ٹھیک جگہ پر آئے ہیں۔ آپ جلدی ٹھیک ہوجائیں گے ہمارے پہلے بھی کئی مریض اسی ہسپتال سے ٹھیک ہوئے ہیں۔“

نشتر روڈ پر واقع بعض ہوٹل طلبہ کو میس کی سہولت بھی فراہم کرتے تھے۔ وہاں سالن کی ”سپلی“ دی جاتی تھی۔ ایک طالب علم مٹر قیمہ کے بہت شوقین تھے۔ خوراک بھی اچھی تھی۔ مٹر قیمہ کھاتے ہوئے انہوں نے متعدد بار ”سپلی“ منگوائی تو ویٹر نے نہایت مودبانہ لہجے میں پوچھا ”سر! جس جماعت میں آپ پڑھ رہے ہیں اس میں کل کتنے مضمون ہیں؟“ جواب ملا ”پانچ سبجیکٹ ہیں“ ۔ ویٹر نے کہا ”سر! مبارک ہو آپ نے اپنی سپلیوں کا ریکارڈ بہتر کر لیا ہے۔ یہ چھٹی“ سپلی ”ہے“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments