معاشرے کی افتاد طبع بھی غورطلب ہے


مقام اطمینان ہے کہ حکومت اور کالعدم مذہبی جماعت میں معاہدہ طے پا گیا ہے۔ تادم تحریر دھرنا پوری طرح سمٹا نہیں۔ تاہم چونکہ معاہدے کی جزیات خفیہ رکھی گئی ہیں، لہٰذا ہمیں نہیں معلوم کہ کیا طے پایا ہے۔ ایک بات مگر طے ہے کہ آپ ججوں اور جرنیلوں پر تنقید کر کے خود کو نڈر صحافی بتا سکتے ہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز کی میمز بنا سکتے ہیں۔ عمران خان ہی نہیں ان کی گھر بیٹھی بی بی پر تضحیک آمیز مضامین لکھ اور چھاپ سکتے ہیں۔ لیکن کالعدم تنظیموں پر لکھنا نہ تب آسان تھا نہ اب ہے۔

اس باب میں پاکستانی معاشرے کی افتاد طبع کو سمجھنا ہو گا۔

مذہب کے نام پر ملک میں پہلے ہنگامے سال 1953ء میں ہوئے۔ فوج کو امن و امان کی بحالی کے لئے بھی پہلی بار تبھی بلایا گیا تھا۔ بیس سال بعد انہی بنیادوں پر تحریک ایک بار پھر مگر زیادہ شدت سے پھوٹی۔ بھٹو صاحب کہ جن کے جانے پر ہمالیہ نے رونا تھا، ایک مذہبی تحریک ان کی حکومت کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے گئی۔ مذہب کو روز اول سے ہمارے ہاں سیاست میں ایک اہم عنصر کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ مذہب کے نام پر سیاست کے کاروبار نے باقاعدہ صنعت کی صورت مگر جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں اختیار کی۔ ایک عشرے کے اندر اندر افغان جہاد نے پاکستانی معاشرے کی ہیئت بدل کر رکھ دی۔ ایک دن آیا کہ روس تو چلا گیا، امریکہ نے بھی اپنی راہ لی، ہمارے شہر اور بستیاں مگر جتھوں کی آماجگاہ بن کر رہ گئے۔

دہشت گردی کے شعلوں نے امریکی سر زمین کو اپنی لپیٹ میں لیا تو ہی ہمارے خطے میں بھی بدلتے امریکی اہداف کی بنا پر کل کے مجاہدین ’دہشت گرد‘ کہلانے لگے۔ راتوں رات ہماری ریاست نے بھی اپنی پالیسی بدلی۔ عوام کو یوں اچانک قائل کرنا مگر اس قدر سہل نہ تھا۔ انتشار اس وقت عروج پر پہنچا جب جنرل مشرف کے دور میں ہم نے الیکٹرانک میڈیا کے دور اور ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ میں ایک ساتھ قدم رکھا۔ یہ وہی دور تھا جب آپ سلامتی کے اداروں پر تو سرشام کھل کر تنقید کر سکتے تھے، مگر دہشت گردوں کے خلاف بولنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔

اس دور میں ایک خاص مذہبی سیاسی جماعت متشدد عناصر کی سر گرم سہولت کاری کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقوں میں افواج پاکستان کی موجودگی اور دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کی مخالفت میں پیش پیش تھی۔ لاہور کی مون مارکیٹ میں خود کش بمبار نے عورتوں، بچوں سمیت ساڑھے تین سو بے گناہوں کو شہید کیا تو اگلے ہی روز جائے حادثہ پر اس مذہبی سیاسی جماعت کے احتجاجی بینرز کو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ انسانیت سوز خونریزی کی مذمت کی بجائے سانحے کو سوات میں شروع کیے گئے فوجی آپریشن کا رد عمل قرار دیا گیا تھا۔

اس مذہبی سیاسی جماعت کا استدلال قابل فہم تھا کہ مذہب کے نام پر عسکریت پسندی اس کی نظریاتی فکر سے ہم آہنگ تھی۔ تاہم بد قسمتی یہ ہوئی کہ ’مین سٹریم‘ سیاسی پارٹیاں بھی سیاسی مصلحتوں کی بناء پر دہشت گردوں کی کھل کر مخالفت سے اجتناب برتتی رہیں۔ اے این پی نے جرآت مندانہ موقف اپنایا اور قیمت ادا کی۔ خونریزی کے اس عشرے میں قوم اپنی اور پرائی جنگ کے سوال پر بٹی رہی۔ خود ہمارے اپنے گھروں میں ہم سے امریکی جنگ کا حصہ بننے پر سوال کیا جاتا تھا۔ میرے ایک ماتحت افسر کے والد نے اسے متنبہ کیا کہ ’بیٹا اگر اس جنگ میں مارے گئے تو جنازہ نہیں پڑھوں گا‘ ۔

ادھر جنرل مشرف اور افتخار چوہدری کے مابین تناؤ عروج پر تھا تو دوسری طرف دارالحکومت کے اندر لاٹھی بردار سیاہ برقع پوش خواتین کی کارروائیاں بڑھتی چلی جا رہی تھیں۔ مسجد اور اس سے ملحقہ مدرسے کے اندر مسلح افراد کی تعداد میں تشویش ناک اضافہ دیکھنے میں آیا تو میڈیا نے آسمان سر پر اٹھالیا۔ سٹیٹ کی رٹ بحال کیے جانے کے مطالبات بلند آہنگ ہوتے چلے گئے۔ بالآخر جب فوجی کارروائی خونریزی پر منتج ہوئی، تو آپریشن کا مطالبہ کرنے وا لے ہی پلٹ کر ریاستی اداروں پر حملہ آور ہو گئے۔

عوام کی ہمدردیاں پہلے سے بڑھ کر عسکریت پسندوں سے وابستہ ہو گئیں۔ یہی وہ دن تھے جب ملک کی تاریخ میں پہلی بار ہمیں عوامی مقامات سے پرے رہنے کی ہدایات جاری کی گئیں۔ ملک کے کونے کونے میں خونریز کارروائیاں اپنے عروج پر پہنچ گئیں۔ عبادت گاہوں، عوامی و تفریحی مقامات، بازاروں اور حساس سرکاری دفاتر پر حملوں میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ سب سے بڑھ کر یہ ہوا کہ خطے کی صدیوں پر محیط تاریخ میں پہلی بار صوفیاء کے مزارات دہشت گردی کا نشانہ بننے لگے۔ مینگورہ کے خونی چوک کے بیچ ایک پیر صاحب کی لاش کئی دن تک لٹکتی رہی اور مریدین دور دور سے بے بسی کے ساتھ تکتے رہے۔

یہی وہ دن تھے جب متشدد بیانیے کے سامنے ایک متبادل بیانیہ لائے جانے کا خیال زرخیز دماغوں میں پیدا ہوا۔ چنانچہ ’پولیٹیکل اسلام‘ کے تدارک کی خاطر ’صوفی اسلام‘ کی سرپرستی کا فیصلہ ہوا۔ اسی سلسلے کی ایک کاوش کے طور پر ہم نے شاہی قلعے کے مرکزی دروازے کے سائے میں بیٹھے راحت فتح علی کو امن، محبت اور بھائی چارے کے صوفیانہ راگ الاپتے ہوئے سنا۔ ریاست نے ہمیں سمجھایا کہ ہمارا مذہب تشدد نہیں بلکہ امن، آشتی اور باہم رواداری کا درس دیتا ہے۔ انگریزی میں اس بیانیے کو Enlightened Moderation کا نام دیا گیا۔

بتایا جاتا ہے کہ کالعدم تحریک کو پہلی بار طاہر القادری کے سد باب کی خاطر میدان میں لایا گیا تھا۔ الزام ہے کہ یہی جتھے پھر ایجنسیوں کے کام آئے۔ ایجنسیوں کی استعداد کار کو اکثر مبالغے سے بیان کیا جاتا ہے۔ جتھوں کی آبیاری کے لئے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے والے معاشرے کی افتاد طبع کو مد نظر نہیں رکھتے۔ تحریک کے آنجہانی سربراہ کی نماز جنازہ پر امڈ آنے والا جم غفیر کیا ہمیں یاد نہیں؟ لاکھوں انسانوں کا سمندر کسی اور کی نہیں خود پاکستانی معاشرے کی نمائندگی کر رہا تھا۔

مولانا نے سواد اعظم کو پہلی بار اپنی طاقت کا احساس دلایا تھا۔ معاشرے کے پسے ہوئے طبقے سے وابستہ افراد کو سڑکیں شاہراہیں روک کر نظام مملکت کو منجمد کر دینے کی اپنی صلاحیت کا احساس دیا تھا۔ پہلی بار اکثریتی مسلک کو ایک رہنما دستیاب ہوا جو مقتدر قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا تھا۔ مولانا کے جنازے میں لوگ لائے نہیں گئے تھے۔ لاکھوں پاکستانی جوق در جوق خود چل کر آئے تھے۔

اس الزام سے قطع نظر کہ کالعدم تحریک کو کسی بھی دور میں ریاستی سرپرستی حاصل رہی ہے یا نہیں، یہ امر ہماری تاریخ کا حصہ ہے کہ حکومتی سرپرستی یا ایجنسیوں کی لیبارٹری میں پروان چڑھنے والا ہر سیاسی یا مذہبی فرد یا تحریک ’فرینکنسٹائن کی تخلیق‘ کی طرح ایک دن پلٹ کر خود اپنے خالقوں کے گلے پڑتے ہیں۔ تاریخ ہمیشہ خود کو ایک نئے سانحہ کی صورت دہراتی ہے۔ تاریخ کا مگر سب سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں پکڑتا۔

تاہم مقام اطمینان ہے کہ حالیہ بحران کے دوران، لال مسجد کے خطیب اور مولانا فضل الرحمٰن سے منسوب ایک آدھ بیان کے سوا مجموعی طور پر سیاسی جماعتوں کا طرز عمل مثبت اور پختہ فکری کا عکاس رہا ہے۔ حتی کہ مریم نواز کا ٹویٹر ہینڈل بھی اس باب میں خاموش رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر مگر طعنہ بازی عروج پر رہی۔ دور گزشتہ کا ایک سے بڑھ کر ایک پرانا ویڈیو کلپ ڈھونڈ کر چلایا جاتا رہا۔ کوئی اسے مکافات عمل کا نام دیتا رہا تو کوئی مخصوص عدالتی فیصلوں سے تسکین حاصل کرتے ہوئے پایا گیا۔ حکومت کو اس کی کمزوریاں مسلسل یاد دلائی جاتی رہیں۔ اب جو کوئی ایک معاہدہ طے پا گیا ہے تو حکومت کو ’سرنڈر‘ کرنے پر آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے۔ پاکستانی معاشرے کی افتاد طبع پر مگر کوئی غور کرنے کو تیار نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments