سکولی شگر۔ ویرانی نہیں دیکھی جاتی


یکم نومبر کی سرد شام کو میں اسکولی میں تھا اور میرے ذہن کے نہاں خانے میں اس گاؤں کے وہ نقوش ابھر رہے تھے جسے یانگ ہسبنڈ، ایرک شپبٹن، لینو لیسیڈلی، رونالڈ میسنر، گیلن راول اور دوسرے متعدد مہم جو حضرات نے تحریر کیے تھے۔ میں خود کئی بار اسکولی آیا ہوں اور دیکھا ہے کہ اس چھوٹے سے گاؤں میں کوہ پیماؤں اور سیاحوں سے لدی پھندی گاڑیاں آ کر رکتی اور قراقرم کے اس آخری گاؤں میں بڑی رونق لگتی۔ یہی سے آگے سر پھرے اپنا پیدل سفر جاری رکھتے اور یوں بیافو ہسپر گلیشیر، بلتورو گلیشیر، مستاغ، ٹرانگو ٹاور، براڈ پیک اور K 2 کو فتح کرنے اور جان سوزی کی انوکھی کہانیاں وجود میں آتی رہیں۔

یہاں کے نمبردار حاجی مہدی کا ذکر تو ہر کہانی میں ہوتا تھا جو معمولی مذہبی تعلیم کے باوجود زبردست فہم و فراست کا مالک تھا سیاحوں کے لئے انڈا، بکری، نمک اور آٹا تک فراہم کرتا اور ہر ایک کی مدد کے لئے بھی پیش پیش رہتا۔ ہمارے دوست سلمان رشید نے اپنی کتاب Apricot Road to Yarqand میں حاجی مہدی کی یادیں تازہ کی ہیں۔ فیملی ریکارڈ اور خاندانی روایات کے مطابق حاجی مہدی کا خاندان شروع سے نمبرداری منصب پر فائز رہا ہے ان کے خاندان کو سنگرپا کہتے ہیں اور تعلق نگر سے ہے۔

اب نمبرداری انہی کے خاندان کے اصغر کے پاس ہے جو حال ہی میں پولیس کمیونٹی امن لیزان کمیٹی کے ممبر بھی منتخب ہوئے ہیں۔ حاجی مہدی کا دیسی سٹائل کا کیمپنگ سائٹ اور ان کے بیٹوں کا ”حاجی مہدی سرائے“ سیاحوں کی پہلی ترجیح ہوتا تھا یوں دنیا کے معروف کوہ پیما اور مہم جو سفر کا آغاز یہی سے کرتے اور واپسی میں یہاں ٹھہرتے اپنی کامیابیوں کی خوشیاں اور حادثات کی قصے بیان کرتے۔ کئی مہم جو یہاں سے آگے گئے لیکن واپس نہیں آئے یوں اسکولی میں ان کی سانسیں رچی بسی ہیں ہمارے اپنے پیارے علی سدپارہ بھی 2020 کی سردیوں میں یہیں سے آگے K 2 گئے اور پھر واپس نہ لوٹے۔

اسکولی تمام جانبازوں کا مقدس پڑاؤ تھا جہاں رک کر دیدہ و دل کو تازگی بخشتے اور ایک نئے عزم و ہمت سے پہاڑوں کے ساتھ زندگی اور موت کی جنگ لڑنے نکل پڑتے۔ اب اسکولی کی وہ شان باقی نہیں رہی سڑک آگے چلی گئی ہے اب سیاح یہاں نہیں رکتے یوں حاجی مہدی کی سرائے ویران اور گاؤں کی گہما گہمی ماند پڑ گئی ہے کوئی اکا دکا سرپھرا یہاں آ کر ٹھہرتا ہے۔

اسکولی دریائے برالدو کے دائیں جانب شوگر کا آخری گاؤں ہے اس کی دوسری جانب تستے اور کروفے کے گاؤں آباد ہے۔ اسکولی 3052 میٹر بلندی پر واقع ہے اور یہاں پر فروٹ کے درخت موجود نہیں صرف بید اور سفیدہ پایا جاتا ہے۔ یک فصلی زمین ہونے کی وجہ سے لوگوں کی معیشت کا انحصار زراعت کے علاوہ زیادہ تر سیاحوں کی باربرداری پر ہے اور یہ کام بھی صرف گرمیوں کے سیزن میں ہی ملتا ہے۔ گزشتہ دو سالوں سے کرونا کی وجہ سے سیاحت رک گئی اور پورے برالدو کے لوگوں کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی۔

اسکولی میں ایک مڈل سکول موجود ہے جہاں اب میٹرک تک کی کلاسیں بھی چلائی جاتی ہے۔ اس وقت 292 کے قریب طلباء زیر تعلیم ہیں جہاں تھونگل، سرنگو، سینو، تستے اور اسکولی کے گاؤں کے طلبا اور طالبات آ کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ تین ٹیچر محکمہ تعلیم کی طرف سے ہیں جبکہ پانچ ٹیچر جونیپر ٹرسٹ، ایلکس گیوین اور آرمی کی مدد سے تعینات ہیں۔ جبکہ کمیونٹی کی طرف سے تین ٹیچرز والنٹیئر طور پر پڑھا رہی ہیں۔ سکول کے آغاز کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے اور اس کا تعلق بھی حاجی مہدی سے جا کر نکلتا ہے۔

زمان علی جن کا تعلق حاجی مہدی کے سنگرپا خاندان سے ہے اور برالدو ایریا کے اہم ذمہ دار افراد میں شامل ہے کا کہنا ہے کہ 1963 میں اسکولی پرائمری سکول کا آرڈر ہوا تھا لیکن کوئی علیحدہ عمارت نہیں بنی تھی لہذا حاجی مہدی نے اپنے ذاتی گھر میں سکول کی کلاسیں چلانے کا انتظام کیا۔ یہی نہیں بلکہ جو بھی استاد تعینات ہوا اس کی رہائش بھی حاجی مہدی کے گھر میں رہی۔ بعد ازاں اسی انتظام کے ساتھ سکول حاجی مہدی کے ہی زمین جہاں ٹورسٹ کیمپنگ کی جگہ ہے وہاں شفٹ ہوا اور 1995 تک یہ انتظام چلتا رہا۔

1995 میں ایک انگریز سیاح اور AKRSP کے تعاون سے سکول کے لئے علیحدہ دو کمرے، گاؤں کے لئے واٹر سپلائی اور کھیتی باڑی کے لئے ایریگیشن چینل بنا۔ بعد ازاں ہمالین گرین کلب نے مزید دو نئے کمرے بنوائے۔ موجودہ سکول کی عمارت جہاں میٹرک تک کلاسیں چلائی جا رہی ہیں وہ 2007 میں تعمیر ہوئی ہے جس میں کل پانچ کمرے ہیں جو ناکامی ہے لہذا کچھ کلاسیں ابھی بھی سکول کے قریب واقع امام بارگاہ کے ہال میں اسکولی کمیونٹی کے تعاون سے چل رہی ہیں۔

شگر سے اسکولی تک کی سڑک ابھی بھی خستہ حالی کا شکار ہے اس اہم سیاحتی مقام کو نذر انداز کر کے نہ جانے سیاحت کیسے بڑھائی جا سکتی ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے برالدو یونین کونسل میں بجلی نہیں ہے تستے بجلی گھر خراب ہے اور چھکپو بجلی گھر میں بھی فنی خرابی یوں پورا علاقہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔ نہ جانے سٹوڈنٹ کیسے پڑھتے ہیں، ان کی یونیفارم کیسے استری ہوتی ہے؟ بزرگ اور خواتین کس طرح اندھیروں میں گھر سے باہر نکلتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments