جنوبی پنجاب میں جعلی پولیس مقابلے اور احساس کرپشن


جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی کہاوت کو عملی طور پر دیکھنا ہو تو جنوبی پنجاب تشریف لے جائیں۔ اس علاقے کے حالات 21 ویں صدی میں بھی کسی بالی وڈ فلم کی کہانی کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایم این اے، ایم پی اے شپ نسل در نسل اس طرح منتقل ہوتی ہے جیسے مزاروں پر گدی نشینی کا سلسلہ ہوتا ہے۔ انتظامیہ وہاں اے سی یا ہیٹر والے کمروں سے باہر نہیں نکلتی ہے، نکلے گی بھی کیوں؟ کس کے لئے؟ جہاں انسانوں کو بھیڑ بکریوں کا ریوڑ ہی سمجھا جائے۔ وہاں صاحب بہادر کیوں زحمت کریں کیونکہ اس ریوڑ کو ہانکنے کے لئے ایم این ایز، ایم پی ایز صاحبان کے درجنوں ہرکارے اور مقامی پولیس ان کی بھرپور معاونت کے لئے موجود ہوتی ہے۔

میں یہاں پر صاحبان اقتدار کو کھلا چیلنج کر رہا ہوں کہ جنوبی پنجاب بالخصوص راجن پور میں ایک ایف آئی آر بلکہ نہیں رپٹ (ابتدائی رپورٹ) تک بغیر کسی سفارش، بغیر کوئی رقم خرچ کیے درج کروا کر دکھا دیں۔ وہاں انسان بھینسیں، بھیڑ، بکریاں ہیں اور ہانکنے والی لاٹھی پولیس ہے۔ وہاں ایم این ایز، ایم پی ایز صاحبان کا دیدار عوام کو بس انتخابات کے قریب یا پھر کسی شادی اور فوتیدگی کے موقع پر ہی نصیب ہوتا ہے۔ پولیس کا یہاں کی سیاست میں اتنا ایک عمل دخل ہے کہ مجھے یاد ہے جب بوسن گینگ بنا تو آپریشن کے نام پر ہر دوسرے دن ہی پولیس میرے گاؤں کے گھروں میں داخل ہو جایا کرتی تھی۔ جس کے بعد تنگ آ کر وہاں کے نوجوانوں نے اسلحہ اٹھایا اور بوسن گینگ میں شامل ہو گئے۔

وجہ تھی تو صرف اور صرف پولیس کی جانب سے آئے روز چادر اور چار دیواری کی پامالی، جاگیرداروں، وڈیروں کی حکم عدولی پر دائر کیے جانے والے جعلی مقدمات۔ جب پولیس کی جانب سے ہی قانون کی عملداری کے نام پر گھناؤنا مذاق کیا جائے تو ایسے علاقے میں کیا حالات ہوں گے میرے قارئین بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ جعلی پولیس مقابلے تو یہاں ثواب سمجھ کے کیے جاتے ہیں، ثواب بھی وہ کہ جس سے تعریف و توصیف الگ، میڈل اور ترقیاں الگ تو پھر کیوں کوئی اس ثواب کو کرنے سے محروم رہے گا۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی پولیس نے جام پور سے کراچی جانے والے ایک نوجوان کو فاضل پور ٹول پلازہ کے قریب بس سے اتارا گیا۔ ناظم گوپانگ نامی اس نوجوان کو پولیس نے بھری بس سے نشاندہی کے بعد اتارا، جاتے ہوئے ٹول پلازہ پر لگے ہوئے سی سی ٹی وی کیمروں کے ڈی وی آر بھی ہمراہ لے گئی۔

جس کے بعد اس نوجوان کو بہت بڑا ڈاکو قرار دے کر گولیوں سے چھلنی کر کے پھینک دیا گیا اور اس عمل کو پولیس مقابلے کا نام دے دیا گیا۔ پولیس کی جانب سے پولیس مقابلے کی بھونڈی اور مضحکہ خیز پریس ریلیز جب سوشل میڈیا پر آئی تو متعلقہ ٹول پلازے پر موجود شخص اور بس کمپنی کے منیجر سامنے آ گئے۔ یوں اس پولیس مقابلے کے نام پر کیے جانے والے سفاک قتل کا بھانڈا پھوٹا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پولیس مقابلے کی قیادت کرنے والے ڈی ایس پی روجھان پرویز احمدانی اور ایس ایچ او اختر ہجبانی جعلی پولیس مقابلوں کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔ سب انسپکٹر اختر ہجبانی ایک ہفتے پہلے ہی قتل کے مقدمے میں لواحقین کو دو کروڑ کے لگ بھگ دیت ادا کرنے کے بعد بری ہوئے (اس کیس کا فیصلہ بھی موجود ہے ) ۔

کیونکہ پولیس کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز میں اول الذکر دونوں صاحبان کا نام موجود تھا اور پولیس کے خلاف چشم دید گواہان کی جانب سے بیان حلفی موجود ہے تو مبینہ کا لفظ تحریر میں استعمال نہیں کیا گیا۔ اس واقعے سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں پر قانون کا کیسا گھناؤنا مذاق اڑایا جاتا ہے کہ ایک افسر نے دوران سروس ایک قتل کیا، جاکر ورثاء کو دیت دی اور یہ سب ڈاکیومنٹڈ ثبوت ہے مگر اس کے باوجود بھی اعلی افسران نے نہ صرف اس قاتل کو نوکری کر رکھا بلکہ سی آئی اے سٹاف اور ایس ایچ او شپ جیسے عہدوں سے بھی نوازا۔

دوسری جانب احساس پروگرام کے نام پر بھی ان علاقوں میں وہ لوٹ مار مچی ہوئی ہے کہ الامان، جام پور کی اصغری بی بی (نام بوجوہ تبدیل کر دیا گیا ہے ) نے بتایا کہ کارڈ بنوانے کے لئے جب احساس سینٹر پر اپلائی کرنے گئے تو وہاں بھی پانچ سے ایک ہزار روپے صرف کارڈ بنوانے کے لئے جاتے ہیں۔ اس کے بعد ہر تین یا 4 ماہ کے بعد جب بھی رقم آتی ہے تو اس رقم کو نکلوانے کے لئے بھی ریٹیلرز کی جانب سے 500 روپے لئے جاتے ہیں۔ اصغری بی بی نے بتایا کہ گزشتہ دنوں ایک خاتون نے اس لوٹ مار کے خلاف آواز اٹھائی تو ری ٹیلر نے شناختی کارڈ واپس کر کے بول دیا کہ بی بی جہاں سے مرضی جاکر نکلوا لیں۔

شرمناک عمل تو یہ ہے کہ دن دیہاڑے 500 روپے فی کسٹمر اس کٹوتی کو ”خرچی“ کا نام دیا جاتا ہے۔ ایسے میں مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق یہ وصولی کے نام پر غنڈا ٹیکس تمام خواتین کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ اللہ جانے اس خطے کے حالات کب بہتر ہوں گے، اللہ جانے کب یہاں کوئی مسیحا پیدا ہو گا۔ میری چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے اپیل ہے کہ اس خطے میں جاری اس مارا ماری کے خلاف سوؤ موٹو ایکشن لیا جائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments