شبنم گل اور خواب نگر (کتاب پر تبصرہ)۔


شبنم گل کا کردار، کام، تحریر، مزاج لب و لہجہ، شخصیت اور حتی کہ اس کا نام ایک دوسرے سے مربوط ہیں، شبنم کی تحریر کانوں کو دکھائی اور آنکھوں کو سنائی دیتی ہے۔ اس کی تحریر میں چوڑیوں کی جھنکار، پرندوں کی چہچہاہٹ، ہوا کا شور، پتوں کی سرسراہٹ، بارش کی چھم چھم بچوں کی ہنسی، لڑکیوں کی سرگوشیوں کی آوازیں مدھم موسیقی کی طرح کانوں میں رس گھولتی ہیں۔

شبنم کی تحریر ایک گداز احساس کا نام ہے۔
چائے کے باغات کی سیر کے قصے میں ایک جگہ لکھتی ہیں۔
” مجھے چائے کے باغات میں جا کر دیکھنا ہے کہ یہ عورتیں پتوں میں لپٹے ہوئے اپنے خواب کیسے چنتی ہیں“ ۔
اسی صفحے پر آگے لکھتی ہیں۔

”مزدور کی حالت ہر جگہ ایک سی ہے، جب ہم چائے کے باغات کی سیر کرے کے گاڑی میں بیٹھے تو عرین اور میرے پیروں میں جونک نما کیڑے لپٹے ہوئے تھے۔ پاؤں کی انگلی سے خون بہہ رہا تھا جس کا حل ڈرائیور مالک نے یہ نکالا کہ ایک کاغذ جلا کر مجھے اس کی راکھ دیتے ہوئے کہا کہ اس کی راکھ ملنے سے افاقہ ہو گا، اور ایسا ہی ہوا۔ فطرت کے قریب رہنے والے حل بھی فطری ڈھونڈ لیتے ہیں۔ میری بیٹی نے پوچھا، امی یہ عورتیں چائے کے باغات میں کس طرح کام کرتی ہوں گی۔

”یہ خود نقصان اٹھا کر دوسروں میں آب حیات بانٹتی ہیں“ میں نے جواب دیا ”

خواب ناک لہجے میں تھائی لینڈ اور سری لنکا کے سفر کی روداد لوری کی مانند پر سکون ہے، جسے پڑھتے ہوئے انسان ناصرف تہذیب، تاریخ، رہن سہن، اور علاقے کے باسیوں کے مزاج سے واقف ہوتا ہے بلکہ مصنفہ کی شخصیت، اس کی فکر اور سوچ کے کئی زاویے بھی قاری پر آشکار ہوتے ہیں۔ شبنم کو شاید خود احساس نہ ہو اور نہ ہی ان کی شخصیت سے یہ بات عیاں ہوتی ہے، لیکن جا بجا وہ خود کلا می کے انداز میں نصیحت بھی کرتی ہیں، محبت کا درس دیتی ہیں، بچوں کی تربیت کے انداز اور انسانیت کے اصول سکھاتی چلی جاتی ہیں۔

شبنم نے ایک کٹھن وقت سہا ہے، جس نے اسے حد درجہ حساس بنا دیا ہے، شبنم کی شخصیت اور اس کی تحریر سے ایک اداسی جھلکتی ہے، پر چھلکتی نہیں، کیوں کہ اس کھوکھلی دنیا کی حقیقت جانتی ہے، رنج و الم سے اس نے کھلنا تو سیکھا ہے، پر کھلنا اسے قبول نہیں۔ وہ مضبوط رہنا جانتی ہے۔ ایک جگہ لکھتی ہیں۔

”کنول کی جڑیں کیچڑ میں رہے ہوئے بھی پھول میں خوشبو اور طراوت برقرار رکھتی ہیں انسان کی زندگی کو بھی غم و مصائب میں مبتلا ہونے سے ذہن و روح کو جلا ملتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں انسان اپنے وجود کی خالص مہک کو بدی و مصائب کی صورت میں بھی برقرار رکھنا ہے۔ وقت اور حالات کا مقابلہ کرتے رہنا ہے۔ جو کچھ بھی حاصل ہو تا ہے وہ ذہن و روح کی شفافیت سے ملتا ہے“ ۔

ان کی تحریر سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ سری لنکن اپنے عبادات بڑے نظم و ضبط، یک جہتی اور عقیدت کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔

جب کہ میرا اپنا خیال ہے کہ ہمارے ہاں عبادات کے مختلف طریقے اور خدا اور اس کے برگزیدہ بندوں سے محبت کا اظہار سڑک پر، گلی یا اپارٹمنٹ میں ٹینٹ لگا کر لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے کیا جا تا ہے۔ کافی عرصے سے عبادات کی بے فیضی دیکھ کر مجھے یہ گمان ہوتا ہے کہ اس شور سے اوپر والے کی سماعت ضرور متاثر ہوئی ہے۔

سفر کے دوران مناظر، اس کی فکر اور ذات کا حصہ بن کر گویا اس کے دل میں سمٹ گئے۔ ان مناظر نے اسے محظوظ ہی نہیں کیا، بہت سارے سوالات بھی پیدا کیے۔ جاننے کی خواہش اسے سوال پر اکساتی۔ سوالات کا وہ انبار ہے، کہ وہ ہر ملنے والے سے اس کا نام ہی نہیں معنی بھی جاننا چاہتی ہیں۔

مجھے کتاب پڑھتے ہوئے یوں لگا جیسے کوئی ٹیچر ویژول سر گرمی کے ذریعے اپنے طلبا کو کچھ سمجھا رہی ہے، ایک کے بعد آنکھوں کے سامنے منظر آتے رہے، سوالات، اور جوابات کے بعد کلاس کے اختتام پر، قاری کو ہوم ورک بھی دے دیا گیا۔ جو کچھ اس طرح ہے۔

اپنے اندر آزادی کا احساس پیدا کر نے کے لیے کن چیزوں کو فنا کرنا ضروری ہے۔
اپنے حال میں جینے کے سامان کو ترتیب وار لکھو،
انتشار میں یک جہتی کے لیے کوئی عملی نمونہ پیش کرو۔
زبان و ثقافت کی بقا کا بنیا دی نکتہ، اپنی مادری زبان میں بیان کرو

اس کا دل، دماغ حس جمالیات سے معمور ہے، اس کی آنکھ حسن کی متلاشی رہتی ہے، اور حسن اس کے سامنے ہر روپ میں جلوہ گر رہتا ہے۔

سندھ دھرتی سے جڑی محبت ان کے اس خوب صورت سفر کے ہمراہ رہی۔ کسی بھی منظر، جگہ یا تہذیبی حوالے پر انہیں سندھ کی یاد آتی رہی۔

سری لنکن صدر مہندا کی تعریف کرتے ہوئے قلم سے بے اختیار ایک خوب صورت جملہ بکھرتا ہے۔
” تقدیر ملک کے رہنما ترتیب دیتے ہیں“

دنیا میں کتنی ہی ایسی قومیں ہیں جو مستقل آزمائشوں سے گزرنے کے بعد اپنے عروج پر پہنچی ہیں، جیسے سندھ مستقل بیرونی حملہ آوروں کے تسلط میں رہا، لیکن سندھ کی زبان اور ثقافت کو، کوئی بھی نہیں کچل سکا۔

بدھا کے مقدس دانت کی زیارت کا ذکر کرتے ہوئے وہ رائل پیلس میں واقع مندر میں اپنی کیفیت کو شاہ لطیف کے مزار میں ہونے والی کیفیت سے ہم آہنگ کر دیتی ہیں۔ چائے کے کھیت میں سر سے لپٹے دوپٹے میں پتیاں چنتے دیکھ کے انہیں کپاس چننے والی عورت کے دوپٹے کا خیال آیا جسے ”کانبھو“ کہا جا تا ہے۔

مناظر کو قلمبند کرتے ہوئے ان کی تحریر فطرت سے ہم آہنگ ہو کر ”ہو“ ہو جاتی ہے۔

لکھتی ہیں، کبھی ہم زندگی، کی بقا کا جشن مناتے ہیں، اور ہمارے اندر فنا کی راکھ اڑتی رہتی ہے، اپنی ذات سے لاتعلقی پوری کائنات سے جوڑ کر رکھ دیتی ہے، جب تک ذات کا زعم ساتھ ہے، باہر کچھ دکھائی نہیں دیتا۔

بودھی بھی زندگی میں زندگی سے بے دھیانی کا لطف لیتے ہیں، ہونے میں نہ ہو نے کی لا محدود وسعت کی رمز کو پرکھتے ہیں، طویل مسافتوں کی گرد سے انہیں محبت ہے، پاؤں کے چھا لوں میں سکون دریافت کرتے ہیں۔

ان کی رو انہیں پھر سندھ کی جا نب موڑ دیتی ہے۔

لکھتی ہیں

ہم سندھ میں کہیں بھی جائیں، تو مزار، مندر ضرور جاتے ہیں، یہ مقدس جگہیں فقط مذہبی جذبات کا اظہار ہی نہیں کرتیں بلکہ یہ لوک ادب، صوفی، شاعری و موسیقی سے روحانی طور پر جڑی ہوئی ہیں۔ ایک لمحے میں، میں تھر میں واقع گوڑی مندر جا پہنچی ہوں جین مت کے اس مندر میں گویے صوفی کلام گا رہے ہیں، انسانی احساس، زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے۔

اس سفر نامے سے پہلے میں ان کے مضامین اور ایک کتاب کا مطالعہ کر چکی ہوں، ان کے خوب صورت اسلوب اور فکر کی قائل ہوں، انہیں اس خوب صورت کتاب کے لیے مبارک باد پیش کرتی ہوں۔ آپ سری لنکا اور تھائی لینڈ گھومے یا نہیں لیکن اس کتاب کے مطالعے کے ذریعے اس سفر میں جتنے پڑاؤ بھی آئیں گے آپ کی دل بستگی کے لیے روحانی، فکری اسباب فراہم کرنا بھی مصنفہ نے اپنے ذمہ لیا ہے، آپ صرف کتاب تھامیے، سفر کا آغاز کیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments