بس آپ نے گھبرانا نہیں



دنیا میں زیادہ آبادی والے ممالک کے مسائل بھی زیادہ ہوتے ہیں اور ان مسائل کی وجہ سے قومیں اگے نہیں بڑھ پاتی۔ بنگلہ دیش کو مثال ہمارے سامنے ہے آج وہ معاشی، تعلیمی ہر لحاظ سے ہم سے اگے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ ان کی اپنی آبادی پر کنٹرول کرنا ہے۔ ماضی میں ہماری سابقہ حکومتوں نے آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔ موجودہ حکومت وہ واحد حکومت ہے جو ملکی آبادی کو کنٹرول کرنے میں نہ صرف سنجیدہ ہے بلکہ عملی اقدامات بھی کر رہی ہے۔

جب کرونا وبا نے دنیا بھر کو متاثر کرنا شروع کیا تو موجودہ حکومت نے اپنی حکمت عملی سے پوری کوشش کی کہ اس وبا کی وجہ سے ملکی آبادی میں کمی کی جا سکے جس کا فائدہ ملک کو ہو۔ لیکن حکومتی کوششوں کے باوجود خاطر خواہ نتائج نہ آ سکے۔ اس کے بعد حکومت نے دوسرا آپشن استعمال کرنا شروع کیا۔ روز بہ روز مہنگائی میں اضافہ کیا جا رہا ہے اور حکومت کو امید ہے کہ حکومت کی اس حکمت عملی کے خاطر خواہ نتائج نکلیں گے۔ بعض دوست حکومت کے اس فیصلے پر سوشل میڈیا میں بہت آواز بھی اٹھا رہے ہیں لیکن یہ لوگ تاریخ سے نا واقف ہیں۔

ان کو نہیں معلوم کہ خان صاحب نے جرمنی اور جاپان کے ترقیاتی ماڈل کو سٹڈی کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ملک و قوم کی ترقی کے لیے اس کو پہلے تباہ و برباد کرنا ضروری ہے۔ جرمنی اور جاپان کی ترقی کی مثال ہمارے سامنے ہیں۔ اور خان صاحب نے اسی تناظر میں جاپان اور جرمنی کے بارڈر اپس میں ملا دیے تھے۔ خان صاحب کی حکومت پر تنقید کرنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ خان صاحب نے ابھی تو اپنی پہلی باری بھی پوری نہیں کی ہے جبکہ دیگر سیاسی جماعتیں پانچ پانچ بار اپنی باریاں لے چکے ہیں۔

اس لیے خان صاحب کو کم از کم دوسری باری تو دینی چاہیے۔ خان صاحب پہلے وزیر اعظم ہیں جنہوں نے ریاست مدینہ کی بات کی ہے۔ عوام پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے بالکل نہ گھبرائیں کیوں کہ ریاست مدینہ میں لوگ پیدل اور گھوڑوں پر ہی سفر کرتے تھے۔ آج لوگ چینی مہنگی ہونے پر شور کر رہے ہیں جبکہ حکومت کی کوشش ہے کہ پاکستانی عوام چینی سے پرہیز کریں تاکہ لوگ شوگر کے مرض سے دور رہیں۔ حکومت پر تنقید کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ موجودہ حکومت بہت سے ایسے کام ہوئے ہیں جو ماضی میں کسی حکومت نے نہیں کیے ۔

ماضی میں مسائل کے ذمہ دار سیاستدانوں کو ٹھہرایا جاتا تھا لیکن یہ پہلی حکومت ہے جس میں عوام حکومت سے زیادہ محکمہ جنگلات پر برہم ہیں۔ اور تمام مسائل کا ذمہ دار حکومت کے بجائے محکمہ جنگلات کو گردانا جا رہا ہے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں چاہے وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ہوں اس ادارے کے تابع ہیں۔ غلطیاں ادارے کے فیصلہ سازی کی وجہ سے ہوتی تھی لیکن گالیاں ان سیاستدانوں کو پڑتی تھی۔ خان صاحب کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے عوام کے سامنے سچائی پیش کر دی عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد کم از کم عوام کو یہ تو پتہ چل گیا کہ پاکستان میں اصل حکومت کس کی ہے۔

اہم اداروں کے سربراہان ریٹائرڈ یا حاضر سروس جرنیلوں کو لگا دیا گیا۔ جو کہ ایک اچھا اور مثبت اقدام ہے۔ کم از کم عوام کی جو غلط فہمیاں تھی وہ مزید دور ہو گئی۔ دہائیوں سے پاکستان کے عوام مسائل کا سامنا کر رہے ہیں کیا کسی اور حکومت نے اپنے بیانات کے ذریعے عوام کو اتنی تفریح فراہم کی ہے جو اس موجودہ حکومت نے کی ہے؟ وزرا اور حکومتی اہلکاروں کے بیانات کے بعد عوام کنفیوز ہیں کہ روئیں یا ہنسیں۔ ہمارے عوام حکومت کی قربانیوں سے بھی لا علم ہے۔

حکومت وقت نے ماضی میں شیخ رشید کو چپڑاسی، پرویز الہٰی کو ڈاکو اور ایم کیو ایم کو قاتل کہا تھا لیکن عوام کے بھلائی کے لئے ان کو بھی اپنے ساتھ ملایا۔ خان صاحب کے احسان کہاں تک یاد رکھیں گے الیکشن سے پہلے ان کا کہنا تھا کہ وہ خودکشی کر لیں گے لیکن قرض نہیں لیں گے لیکن عوام کی محبت میں انہوں نے نہ صرف قرضہ لیا بلکہ اتنا لیا کہ ماضی کی حکومتوں میں مثال نہیں ملتی۔ قرضے کے علاوہ عوام کے خاطر چندہ لینے سے بھی گریز نہیں کیا۔

موجودہ حکومت کو عوام کی تکلیف کا بھی بہت احساس ہے۔ اور اسی احساس کی وجہ سے آپ کو کہیں یہ بورڈ نظر نہیں آیا ہو گا کہ رفتار کم کریں آگے کام ہو رہا ہے۔ وقت نے ثابت کیا کہ خان صاحب جھوٹ نہیں بولتے الیکشن سے پہلے کہتے تھے سب کو رلاؤں گا خان صاحب اپنے بات کے پکے ثابت ہوئے آج پوری قوم رو رہی ہے۔

کچھ عرصہ پہلے وزیر اعظم عمران خان نے قوم کو خوش خبری دی تھی کہ تیل کے ذخائر دریافت ہونے والے ہیں۔ ہم لوگ وزیر اعظم عمران خان کی بات کا مذاق اڑاتے تھے۔ لیکن وقت نے ثابت کر دیا کہ وزیر اعظم عمران خان کی بات 100 % درست تھی۔ اس وقت پوری قوم سے تیل نکالا جا رہا ہے۔ اتنا سچ بولنے والا لیڈر ہمیں کہاں ملے گا؟ صرف کارکردگی کو معیار رکھنا زیادتی ہو گی۔ یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ ہینڈسم ہے کہ نہیں۔ ایک اچھی خبر یہ سننے میں آ رہی ہے کہ گھبرا جانے والوں کو ٹائیگر فورس تسلی دے گی۔ بس اپ نے گھبرانا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments