ہم سا ہو تو سامنے آئے!


یہ مرض، دنیا کے ان عجیب امراض میں سے ہے جس کا مریض، دیگر امراض سے برعکس، کبھی صحتیاب نہیں ہونا چاہتا۔ یہ کہنا اور زیادہ مناسب ہو گا کہ وہ اس مرض کو بڑھتا دیکھ کر، مزید طمانیت محسوس کرتا ہے۔ وہ ایسی باتیں سننے کے لئے ہمہ تن گوش اور سنانے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے اور ایسے مواقع ڈھونڈتا ہے اور ایسے موضوعات چھیڑنا ہے جو انجام کار، اس مرض کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کریں۔ وقت کے ساتھ، اس مرض کی جڑیں گہری ہوتی چلی جاتی ہیں اور پھر یہ شخصیت کا لازمی اور ( کبھی کبھار ) دائمی حصہ بن سکتی ہیں۔

ماہرین کے مطابق، ہمارے معاشرے میں یہ مرض عام پایا جاتا ہے اور اب وقت گزرنے کے ساتھ، اس کا پھیلاؤ اس قدر ہمہ گیر ہو گیا ہے اور اس میں اتنی شدت پیدا ہو گئی ہے کہ اسے متعدی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں اس مرض کے شکار جگہ جگہ دیکھے جا سکتے ہیں۔ انھیں ڈھونڈنا اس لئے بھی مشکل نہیں کہ یہ، اپنا مرض چھپاتے نہیں، بلکہ یہ بہت اعتماد سے وہ ساری علامات ظاہر کرنے میں خوشی اور فخر محسوس کرتے ہیں جو اس مرض کی نشاندہی کرتی ہیں۔

اس مرض کا سب سے تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ اس میں یکے بعد دیگرے، مریض کی ساری حس ختم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اس کا ( شعوری ) مدافعتی نظام کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ بصارت کم زور ہو جاتی ہے۔ منظر دھندلا دکھائی دیتا ہے۔ سماعت کی وہ حالت ہو جاتی ہے کہ دوسروں کی آواز بالکل سنائی نہیں دیتی۔ اسی طرح اوروں کی آرا ( اور نقطہ ہائے نظر ) سننے کی طاقت جاتی رہتی ہے۔ اس مرض کے زیر اثر، رفتہ رفتہ، دل اور دماغ دونوں کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

اس حالت میں وہ، صرف خود کو اور اپنے جیسوں کو، تمام خوبیوں کا مالک گردانتے لگتا ہے۔ اسے یہ وہم ہوجاتا ہے کہ وہ اور اس کے ہم خیال (اور ہم مرض) دنیا بھر میں، ہر اعتبار سے، سب سے زیادہ دانش مند، سب سے زیادہ قابل اور سب سے زیادہ سمجھ دار ہیں اور ان جیسی خصوصیات، کوئی دوسرا حاصل نہیں کر سکتا۔ اس کے ذہن پر یہ بات بھی طاری ہوجاتی ہے کہ جب تک دوسرے لوگ، اس کے اور اس کے ہم خیالوں جیسے نہ ہو جائیں، ان کی ذہنی، فکری اور تخلیقی کیفیت میں افاقہ ممکن نہیں۔

یہ کیفیت، درحقیقت غیر محسوس طریقے سے خود فراموشی کو جنم دیتی ہے اور مریض اپنی ذات سے بے خبر ہو کر دوسروں کو کم تر اور حقیر ثابت کرنے کے لئے ( خود ساختہ) دلیلیں اور (من گھڑت ) تاویلیں ڈھونڈھتا رہتا ہے۔ وہ اپنی کم مائیگی کا جائزہ لے کر، خود شناسی سے کام لیتے ہوئے، خود احتسابی اختیار کرنے کی بجائے، اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار، دوسروں کو قرار دیتا ہے۔ اس معاملے میں وہ اس قدر کج رو ہوجاتا ہے کہ اپنی ترقی اور عروج سے زیادہ، اسے دوسروں کی تنزلی اور زوال میں دلچسپی لینے میں زیادہ لذت محسوس ہوتی ہے۔

اس مرض میں مبتلا ہونے کی مختلف وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ کچھ لوگوں میں یہ پیدائشی ہوتا ہے جبکہ بعض افراد میں یہ مرض، گروہی اور علاقائی ماحول کی وجہ سے ہوتا ہے۔ موسمی آب و ہوا کی وجہ سے بھی یہ مرض لاحق ہو سکتا ہے۔

گر یہ مرض کم عمری میں آ گھیرے تو اس کے حصار سے نکلنا اور اس کے خود کو توڑنا، نسبتاً محال ہو جاتا ہے۔ یہ مرض اگر انفرادی سطح پر ہو تو یہ اپنے اہل خانہ، احباب اور گردونواح کے لئے مشکلات کا سبب بن جاتا ہے اور انھیں چار و ناچار، بہ حالت مجبوری، اس کے ساتھ رہنے کی یہ (مستقل) سزا، مسلسل کاٹنی پڑتی ہے۔ اگر یہ بیماری گروہوں میں زور پکڑ لے تو بے حد مہلک ثابت ہو سکتی ہے اور اس کے معاشرتی اثرات بھی دور رس اور دیرپا ہو سکتے ہیں۔ گروہ در گروہ، اس کے پھیلنے کا اندیشہ بھی موجود رہتا ہے۔

اس مرض میں بتدریج اضافہ، بالآخر خود فریبی کی سطح پر آ جاتا ہے اور اس سے کنارا کشی کے امکانات معدوم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اسے صرف وہ دکھائی دیتا ہے جو وہ دیکھنا چاہتا ہے۔ اسے وہی درست نظر آتا ہے، جو اسے بتایا، جتایا ( اور سمجھایا ) گیا ہے۔ اپنے طے شدہ تصورات اور خیالات کے عقب مین چھپی دنیا اسے سراب اور واہمہ نظر آتی ہے۔ اپنے سے علیحدہ، اسے بونے اور اپنے سے مماثل، اسے دیو قامت کی صورت لگتے ہیں۔ حقیقت سے یہ لاتعلقی، غیر محسوس طریقے سے، کسی بھی برے انجام کے لئے، اس کا انتظار کرتی ہے۔

اس مرض سے سنبھلنے اور ایسے مریض کو سنبھالنے کے عمل میں حقیقت پسندی اور کشادہ دلی کا نسخہ تجویز کیا جاتا ہے، مگر بنیادی اہمیت اس بات کی ہے کہ مریض اس تشخیص کو تسلیم کر کے، شعوری طور پر اس بات پر آمادگی ظاہر کرے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ خود پسندی کا شکار ہو رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments