سندھ میں سردار کے ہاتھوں خاتون فہمیدہ سیال کا مبینہ قتل


سندھ میں امن و امان کی صورتحال اس قدر خراب ہے کہ حکومتی طبقے کے لوگ، اسمبلی کے ارکان نے مسلسل اقتدار میں رہتے ہوئے اقتدار، پاور اور بے تحاشا پیسے کے نشے کی وجہ سے اب ریاست کے اندر ریاست قائم کی ہوئی ہے۔ اب قانون کو ہاتھ میں اٹھاتے ہوئے خود لوگوں کو جان سے مارنے کی پریکٹس شروع کر رکھی ہے۔ پولیس، قانون، عدلیہ ان کے گھر کی لونڈی بن چکا ہے یا صرف غریبوں کے لئے ہے۔ پہلے رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو نشانہ بنایا جاتا تھا، اب تو عام لوگ بھی نشانے پر ہیں۔ سندھ جہاں صوفیوں ولیوں بزرگوں اللہ والوں اور سنتوں کی دھرتی کے طور پر پہچانی جاتی تھی۔ تب امن محبت پیار پریم بھائی چارہ ہوتا تھا۔ مرد ہو یا خواتین بچے ہوں یا بزرگ سب کو عزت احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ بڑوں سے عزت بچوں سے شفقت اور خواتین کو سات قرآن کی برابر اہمیت دی جاتی تھی۔

مگر اب تو سندھ کی پہچان وڈیرہ شاہی، سرداری جاگیردارانہ نظام بن گیا ہے۔ اس نظام کے پیچھے پیپلز پارٹی کی شفقت اور آصف علی زرداری کی مہربانیاں شامل ہیں۔ جس نے اقتدار میں آتے ہی سرداروں جاگیرداروں وڈیروں کے ہاتھ میں پاور دی تاکہ عوام کو دبا کر ووٹ حاصل کیا جا سکے۔

سندھ میں پہلے صحافیوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ مگر مجال ہے کہ کوئی آواز اٹھتی، سینکڑوں صحافیوں کے خلاف مختلف قسم کے سنگین مقدمات درج کر کے ڈرانے دہمکانے کی کوشش کی گئی مگر ناکامی حاصل ہوئی۔ سندھ کے علاقے محراب پور کاوش کے ٹی این نیوز کے رپورٹر عزیز میمن کو قتل کر دیا گیا۔ جس کے مرکزی ملزم کو اب تک قانون اپنی گرفت میں نہیں لا سکا ہے۔ سکھر کے علاقے صالح پٹ میں صحافی اجے کمار لالوانی کو بیچ شہر میں فائرنگ کر کے گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ اور اب یہ معاملہ بڑی تیزی کے ساتھ عام لوگوں تک پہنچ چکا ہے۔

سندھ میں ناظم جوکھیو کے ظالمانہ قتل کے بعد ایک اور افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے جس کا ذکر سینیٹ میں بھی سنا گیا مگر پیپلز پارٹی کے ممبران بجائے اس پر تائید کرتے، اس پر شور مچانا شروع کر دیا۔ شاباش ہے سینیٹ چیئرمین صادق سنجرانی کو جس نے معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا اور رپورٹ طلب کرلی۔ یہ افسوسناک واقعہ جس میں مبینہ طور پر ایک نوجوان خاتون کو حکومتی پارٹی کے منتخب اسمبلی کے والد نے فائرنگ کر کے بے دردی سے قتل کر دیا۔

میڈیا کے مطابق دل دہلا دینے والا واقعہ سندھ کے شمال کی طرف قمر شہداد کوٹ کے علاقے خیرپور جوسو میں پیش آیا، دریں اثناء سیال اور اسران فریقین میں پلاٹ کے تکرار کا فیصلہ سابق صوبائی وزیر سہیل انور سیال کے بھائی طارق سیال نے کیا تھا۔ رکن سندھ اسمبلی گھنور اسران اس کے والد غلام شہید اسران نے فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا۔ غلام شہید اسران نے اپنے مسلح افراد اور پولیس کے ہمراہ سیال برادری کے گھروں پر دھاوا بول دیا۔

مرد نہیں تھے تو خواتین قرآن شریف لے کر آ گئی کہ فیصلے میں زمین ہمیں ملی ہے آپ جھگڑا نہ کریں یہ قرآن شریف کا واسطہ ہے۔ (سندھ کی سالوں سے ایک روایت رہی ہے کہ جب بھی جہاں بھی قرآن شریف کو بیچ میں لایا جاتا ہے تو معاملہ ختم کر دیا جاتا ہے مزید نقصان نہیں ہوتا) بتایا جاتا ہے کہ غلام شہید اسران بہت غصے میں تھے انہوں نے ساتھیوں سمیت فائرنگ شروع کردی۔ جس میں ایک خاتون جس جا نام فہمیدہ سیال تھا وہ گولیاں لگنے سے جاں بحق ہو گئی۔ گولی پہلے قرآن شریف کو کراس کرتے شہید کرتے ہوئے فہمیدہ کو لگی جس کی وجہ سے اس کی موت ہوئی۔ ایک شخص عامر سیال زخمی ہو گیا۔ فائرنگ کا منظر اور جھگڑے کا واقعہ فیس بک سوشل میڈیا پر لائیو چل رہا تھا۔

سوشل میڈیا اور میڈیا اسٹریم پر معاملہ بگڑنے کی وجہ سے پولیس حرکت میں آئی، جس کے بعد مقتولہ فہمیدہ سیال کے شوہر غلام تقی سیال نے قتل کا مقدمہ اپنی ہی پیپلز پارٹی کے گھنور خان اسران کے والد غلام شہید اسران سمیت 4 افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔ جبکہ مقدمے کا مرکزی کردار ایم پی اے قانون کی گرفت اور گرفتاری سے باہر ہے۔ جی ہاں یہ سب کچھ سندھ حکومت میں ہو رہا ہے۔  جے یو آئی سندھ کے سیکرٹری جنرل علامہ راشد محمود سومرو نے قرآن شریف کی بے حرمتی اور شہادت پر الگ ایف آئی آر درج کرانے کا مطالبہ کیا۔ جے یو آئی کا وفد طاہر محمود سومرو عزیر گل جاگیرانی کی قیادت میں تھانے پہنچ گیا۔ پولیس نے یہ کہ کر دوسری ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیا کہ قتل کیس میں قرآن مجید کی بے حرمتی کا ذکر کیا گیا ہے۔

پہلی مرتبہ ہے کہ کسی متاثر کے جنازے میں حکمران جماعت کے رکن اسمبلی میر نادر مگسی جس کا تعلق بھی پیپلز پارٹی سے ہے وہ فہمیدہ کے جنازے میں شریک ہوا اور جنازے کو کندھا بھی دیا۔ یہ منظر دیکھ کر جب نوجوانوں نے پی پی کے رکن سندھ اسمبلی میر نادر مگسی جو بھی اپنے قبیلے کا سردار ہے دیکھ کر سرداری نظام نامنظور کے نعرے لگائے تو نادر مگسی نے کہا کہ سردار تو برادری قبیلے لوگوں کا بڑا ہوتا ہے جب وہ لوگوں کو مارے گا تو یہ سسٹم کیسے چلے گا۔ اب بھی وقت ہے کہ سندھ میں سرداروں جاگیرداروں وڈیروں کو وزارتوں مشیروں اسمبلی ممبران بنانے سے دور رکھا جائے۔

سندھ میں زیادہ تر قتل و غارت کے واقعات، اغوا برائے تاوان، برادری تکرار، قبائل میں جھگڑے کے واقعات زمینوں پر قبضہ کرنے، پلاٹوں ملکیتوں پر قبضہ کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ سندھ میں قبضہ کرنے کا رواج تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ شریف پڑھے لکھے غریب لوگ ہاتھ اٹھا جاتے ہیں۔ ان کو پتا ہے کہ پولیس میں وہ دم نہیں ہے۔ عدالتوں میں معاملات جائیں تو سالوں سال لگ جاتے ہیں۔ سندھ میں جتنی لینڈ مافیا طاقتور ہے شاید ہی کوئی ہو، کیوں کہ اس کالے دھندے میں سرکار سے لے کر بیوروکریسی، کامورا شاہی، پولیس، سمیت دیگر با اثر افراد ملوث ہوتے ہیں۔

ڈاکو راج، چوری ڈکیتی کی وجہ عوام کو تعلیم سے دور رکھنے جاہل بنانے اور الیکشن میں ووٹ لینے کے لئے کرائے جاتے ہیں۔ جب الیکشن کا وقت قریب ہوتا جاتا ہے۔ یہی سیاسی پنڈت، سردار جاگیردار وڈیرے ان جھگڑے والے فریقین میں صلح کراتے ہیں۔ جب الیکشن کا وقت گزر جاتا ہے پھر وہ ہی کھیل کھیلا جا رہا ہوتا ہے۔ فریقین آپس میں دست گریباں ہو جاتے ہیں۔

عوام کو اب سرداروں جاگیرداروں کی ضرورت نہیں رہی ہے۔ عوام کو اب تعلیم، صحت، امن امان، روزگار کی ضرورت ہے۔ سندھ کی عوام مزید کس بھی فرسودہ نظام روایات کو برداشت کرنے کی سکت نہی رکھ سکتی۔ سندھ میں شاہ لطیف، سچل، شاہ عنایت لال شہباز قلندر کی پیار محبت پریم والی تبلیغ کی اشد ضرورت ہے۔ جس سے امن قائم ہو سکتا ہے اور مہذب معاشرہ جنم لے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments