گیارہ اگست کی تقریر کا آسیب اور مظلوم اوریا مقبول جان صاحب


اگر قائد اعظم محمد علی جناح 11 اگست 1947 کو پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں اپنی تاریخی تقریر نہ کرتے تو کیا ہوتا؟ کم از کم مکرم اوریا مقبول جان صاحب کی صحت پر وہ منفی اثرات نہ مرتب ہوتے جو اب ہو رہے ہیں۔ ہر کچھ عرصہ بعد وہ کالم لکھنے کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں جن میں ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ قائد اعظم ہرگز کوئی سیکولر شخص نہیں تھے اور نہ ہی وہ پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے کا کوئی ارادہ رکھتے تھے۔ یہ سب پاکستان کے سیکولر طبقہ کی سازش ہے اور یہ لوگ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے قائد اعظم کی جعلی تقریر گھڑنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

اوریا صاحب ان کالموں میں دو نکات پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ قائد اعظم نے 11 اگست 1947 کو کوئی ایسی تقریر کی ہی نہیں تھی جس میں تمام مذاہب کے لوگوں کے لئے برابر کے حقوق کا ذکر ہو۔ اور دوسرا زور اس بات پر ہوتا ہے کہ جسٹس منیر نے 1953 کے فسادات پنجاب پر بننے والی تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں قائد اعظم کے الفاظ کو بدل کر انہیں سیکولر لیڈر بنا دیا۔ ورنہ قائد اعظم دل و جان سے پاکستان کو ایک مذہبی ریاست بنانا چاہتے تھے۔

پہلے اس سلسلہ میں انہوں نے 30 دسمبر 2013 کو روزنامہ دنیا میں ایک کالم تحریر کیا اور انہیں دو نکات کو ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اس وقت 11 اگست 1947 کی تقریر والے پہلو پر بہت سے محققین نے جواب دیا تھا۔ حیرت ہے کہ مکرم اوریا مقبول جان صاحب نے یہ دلیل تو پیش کی کہ سول اینڈ ملٹری گزٹ میں یہ تقریر شائع نہیں ہوئی تھی اور اس بنیاد پر وہ اس تقریر کے وجود کا ہی انکار کرتے ہیں۔ لیکن اس تقریر کو ڈھونڈنے کے لئے اخبارات کی پرانی فائلوں کی چھان پھٹک کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔ دوسرے ممالک کی طرح پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کا ریکارڈ بھی شروع سے لے کر اب تک باقاعدہ شائع ہوتا آیا ہے۔ اور اب یہ ریکارڈ قومی اسمبلی کی سائٹ پر میسر ہے۔

میری مکرم اوریا مقبول جان صاحب اور ان کے ہمنوا حضرات سے گزارش ہے کہ قومی اسمبلی کی سائٹ پر جائیں۔ اس کی اوپر والی پٹی پر legislative Business پر کلک کر کے NA Debates پر کلک کریں اور 11 اگست 1947 کی تاریخ کا انتخاب فرمائیں۔ اس روز کی ساری کارروائی قائد اعظم کی تقریر سمیت آپ کے سامنے آ جائے گی۔ اس تقریر کو تلاش کرنے کے لئے کسی شرلاک ہومز کی کوئی ضرورت نہیں، اس طریقہ پر آپ دو تین منٹوں میں سچ تک پہنچ سکتے ہیں۔

بہر حال یہ تو 11 اگست کی تقریر کا قصہ تھا۔ قائد اعظم ایک معروف شخصیت تھے۔ بالفرض آپ نے 11 اگست والی تقریر کبھی نہ کی ہوتی۔ اور نہ ہی جسٹس منیر یا ان کی لکھی ہوئی رپورٹ کا کوئی وجود ہوتا تو بھی قائد اعظم کے نظریات اتنے گمنام نظریات نہیں تھے کہ وہ دنیا کی نظر سے پوشیدہ رہتے۔

حال ہی میں اوریا مقبول جان صاحب نے اس قسم کا ایک اور کالم تحریر فرمایا ہے۔ اس کا عنوان ہے ”ایک سیکولر سابقہ چیف جسٹس آف پاکستان“ ۔ اس تحریر میں انہوں نے ایک بار پھر یہ الزام لگایا ہے کہ جسٹس منیر نے اپنی رپورٹ میں قائد اعظم کے ایک انٹرویو کے الفاظ کو تبدیل کر کے شامل کیا ہے تا کہ قائد اعظم کو سیکولر ثابت کیا جا سکے۔ اس کالم میں وہ لکھتے ہیں :

” یہ انکوائری کمیشن تحریک ختم نبوت کے دوران ہونے والے ہنگاموں کی تحقیق کے لئے بنایا گیا تھا، لیکن جسٹس منیر نے شرارتاً، اسلام اور نظریہ پاکستان کے تصورات کو بھی زیر بحث لانا شروع کر دیا۔ وہ اس بحث سے اپنے مذموم مقاصد کا حصول چاہتا تھا۔ نظریہ پاکستان اور تخلیق پاکستان کو اسلام سے علیحدہ ثابت کرنے کے لئے ضروری تھا کہ جھوٹ اور دھوکے بازی سے بانی پاکستان قائد اعظمؒ کو بھی سیکولر ثابت کیا جائے۔ ایسا مواد قائد اعظمؒ کے افکار و خیالات اور تقاریر میں تو کہیں ملتا نہیں تھا۔

اس لئے جسٹس محمد منیر اور اس کے ساتھی جسٹس رستم کیانی نے قائد اعظمؒ کے“ رائٹرز ”کو دیے گئے انٹرویو میں رد و بدل کر کے اپنا مقصد پورا کیا۔ اس جھوٹ پر آج تک پردہ ہی پڑا رہتا، اگر مشہور ناول نگار سید فضل احمد کریم فضلی کی صاحبزادی سلینہ کریم اس پر تحقیق نہ کرتی۔ نوٹنگھم، برطانیہ کی رہنے والی اس عظیم خاتون نے رائٹرز کے دفاتر میں جا کر اصل ریکارڈ کو تلاش کیا اور اس بددیانتی کا پول کھولا۔ وہ کہتی ہے کہ“ جسٹس منیر نے جب قائد اعظمؒ کا فقرہ تبدیل کیا تو جیسے کوئی چور، اپنا نشان چھوڑ جاتا ہے ویسے ہی اس سے انگریزی کی ایک ایسی غلطی ہو گئی جس سے مجھے شک گزرا کہ یہاں ضرور بددیانتی ہوئی ہے۔

سلینہ کریم نے جب اصل فقروں اور جسٹس منیر کے بددیانتی والے فقروں کا موازنہ کیا تو جھوٹ سامنے آ گیا۔ قائد اعظمؒ نے کہا تھا:

”The Government of Pakistan can only be a Popular Representative Democratic form of Government۔“

”پاکستان کی حکومت ایک مقبول، نمائندہ جمہوری حکومت ہو گی“ ۔ اب جسٹس منیر کا بدلا ہوا بددیانت فقرہ ملاحظہ کریں۔

”The new State would be a Modern Democratic state with Sovereignty Resting in People۔“

”نئی ریاست ایک جدید، جمہوری ریاست ہو گی جس کا اقتدار اعلیٰ عوام کے پاس ہو گا“ ۔ قائد اعظمؒ کے منہ میں ان الفاظ کو ڈالنا ”اقتدار اعلیٰ عوام کے پاس ہو گا“ دراصل قائد اعظمؒ کی زبان سے قرارداد مقاصد کے اس تصور کی تکذیب مقصود تھی، جس میں لکھا گیا تھا کہ ”اقتدار اعلیٰ اللہ سبحان و تعالیٰ کے پاس ہے اور حکومت اس کی امین ہے۔“

انصاف کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم نے اوریا مقبول جان صاحب کے اصل الفاظ درج کر دیے ہیں۔ اب اس بارے میں حقائق پیش کیے جاتے ہیں۔ اوریا مقبول جان صاحب نے 2013 کے آخر میں جو کالم تحریر فرمایا تھا اس میں بھی یہی الزام لگایا تھا کہ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں جسٹس کیانی اور جسٹس منیر نے قائد اعظم کے الفاظ میں تحریف کر کے غلط تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ بلکہ انہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ جسٹس منیر نے قائد اعظم کے انٹرویو کے پیرے کے پیرے تبدیل کر دیے تھے۔

عرض ہے کہ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں اس انٹرویو کا ذکر انگریزی کی رپورٹ کے صفحہ 300 پر اور اردو کی رپورٹ کے صفحہ 215 پر ہے۔ یہاں پر اس انٹرویو کا ذکر صرف پانچ سطروں تک محدود ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ اس انٹرویو کے پیرے کے پیرے تبدیل کر دیے گئے ہوں۔ اوریا صاحب مبالغہ کے گھوڑے کو دوڑاتے ہوئے بہت دور نکل گئے۔ یہ تحریر کا اصول ہے کہ اگر کسی کا بیان قوسین میں درج کیا جائے تو اس کے معین الفاظ درج کرنے ضروری ہوتے ہیں لیکن اگر کسی کا بیان قوسین یا Inverted Commas کے بغیر درج کیا جائے تو اس کا خلاصہ بیان کرنا یا اسے معنوی طور پر درج کرنا کافی ہوتا ہے۔ اس رپورٹ میں اس انٹرویو میں قائد اعظم کے الفاظ قوسین میں درج نہیں کیے گئے۔ اس لئے یہ ضروری نہیں تھا کہ جج صاحبان معین الفاظ درج کرتے۔

اوریا صاحب نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ قائد اعظم نے یہ نہیں کہا تھا کہ پاکستان میں اقتدار اعلیٰ عوام کے پاس ہو گا اور جج صاحبان نے یہ الفاظ قائد اعظم کے منہ میں ڈالے ہیں تاکہ اسلامی نظریات اور قرارداد مقاصد کی تکذیب کی جا سکے۔ اس بارے میں گزارش ہے کہ قائد اعظم کا یہ انٹرویو نیٹ پر موجود ہے۔ اوریا صاحب نے اپنے کالم میں قائد اعظم کا مکمل بیان درج نہیں کیا۔ آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ پہلی قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس انٹرویو میں قائد اعظم نے یہ ہر گز نہیں کہا تھا کہ پاکستان ایک مذہبی ریاست ہو گی۔ قائد اعظم کے اصل الفاظ یہ تھے :

”Government of Pakistan can only be a popular representative and democratic form of Government. Its Parliament and Cabinet responsible to the Parliament will both be finally responsible to the electorate and the people in general without any distinction of caste, creed or sect, which will the final deciding factor with regard to the policy and programme of the Government that may be adopted from time to time.“

ترجمہ: پاکستان کی حکومت ایک مقبول، نمائندہ اور جمہوری حکومت ہی ہو سکتی ہے۔ اس کی پارلیمنٹ اور کابینہ جو پارلیمنٹ کو جواب دہ ہو گی، اور دونوں آخر کار نسل، عقیدہ اور فرقے کی تفریق کے بغیر عوام کو جوابدہ ہوں گے۔ اور یہی آخری فیصلہ کن عنصر ہو گا جو فیصلہ کرے گا کہ مختلف اوقات میں گورنمنٹ کی پالیسیاں اور پروگرام کیا ہوں گے؟

میری انگریزی کمزور ہے۔ فاضل پڑھنے والے خود ہی پڑھ کر فیصلہ کر لیں کہ کیا اس انٹرویو میں یہ نہیں لکھا ہوا کہ پاکستان میں ہر پالیسی کا آخری فیصلہ عوام کی رائے کرے گی؟ اور کیا ان الفاظ یہ مطلب نہیں نکلتا کہ پاکستان میں اقتدار اعلیٰ عوام کے پاس ہو گا؟ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس انٹرویو کا کون سا حصہ اوریا مقبول جان صاحب کے نظریات کی تائید کر رہا ہے۔ اس انٹرویو میں تو ہو بہو وہی نظریات بیان کیے گئے ہیں جو 11 اگست کی تقریر میں بیان کیے گئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments