سندھی کے باکمال افسانہ نویس، شوکت حسین شورو کا تعزیت نامہ


سندھی زبان و ادب کے مقبول کہانی گر اور ڈرامہ نویس، شوکت حسین شورو، کورونا کی وجہ سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے، اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ جس سے سندھی جہان ادب میں اداسی کی لہر چھائی ہوئی ہے، اور ان کی رخصت کو سندھی فکشن کا بہت بڑا نقصان سمجھا جا رہا ہے۔

شوکت حسین شورو کی پیدائش، 4 جولائی 1947 ء کو سندھ کے ضلع ٹھٹھہ کے تعلقہ سجاول کے ایک چھوٹے سے گاؤں، گوٹھ حاجی نور محمد شورو (جو، اب ضلع سجاول میں واقع ہے۔ ) میں ہوئی۔ ان کے والد، عبدالکریم شورو، ایک زمیندار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے علاقے کے ایک منجھے ہوئے وکیل بھی تھے، جو بعد میں جج کے عہدے پر بھی فائز ہوئے۔ شوکت صاحب پرائمری سطح تک کی تعلیم اپنے گاؤں سے چار جماعت سندھی کی صورت میں (جو اس وقت کا طریقۂ تعلیم تھا۔) حاصل کرنے کے بعد ، انگریزی تعلیم کے حصول کے سلسلے میں سجاول شہر میں قائم ”چانڈیا ہائی اسکول“ میں داخل ہوئے۔ جہاں سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد ، حیدرآباد میں تلک چاڑھی پر واقع سچل آرٹس کالج سے پہلے انٹرمیڈیٹ اور بعد ازاں 1966 ء میں بی۔ اے۔ (پاس) کا امتحان پاس کیا۔ اور پھر 1968 ء میں جامعہ سندھ جامشورو کے سندھی شعبے سے سندھی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔

حیدرآباد میں اپنی تعلیم کے حصول کے دوران، ان کو اپنے والد کی ملازمت ختم ہونے کی وجہ سے جب مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اور اس دور میں یہ نوبت تک آئی، کہ ان کو اپنا تعلیمی سلسلہ منقطع تک کرنے کا خطرہ درپیش آیا، تو ایسے میں انہوں نے اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہونے کی حیثیت سے اس ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے، اپنے دور کے سندھی کے بہت بڑے شاعر شیخ ایاز کو کسی بھی ممکنہ چھوٹی موٹی ملازمت کے حصول کے سلسلے میں مدد کرنے کی گزارش پر مشتمل ایک خط لکھا۔

اس کے جواب میں شیخ ایاز نے انہیں اپنے حیدرآباد کے اگلے دورے پر ملنے کو کہا۔ شوکت جب شیخ ایاز سے ملنے پہنچے، تو ان کے پاس اس وقت، سندھی کے ایک اور نامور مفکر اور شیخ ایاز کے دوست، محمد ابراہیم جویو موجود تھے۔ (جو اس زمانے میں سندھی ادبی بورڈ کے سیکریٹری تھے۔ ) شیخ ایاز نے جویو صاحب کو شوکت کو ملازمت دینے کی سفارش کی۔ اور اس طرح سے وہ سندھی ادبی بورڈ حیدرآباد میں پہلے کلرک اور بعد ازاں جلد ہی اسی بورڈ سے بچوں کے لئے شائع ہونے والے ماہنامہ رسالے ”گل پھل“ [پھول بوٹے ] کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔

وہ کچھ عرصہ بورڈ کے لائبریرین بھی رہے۔ (تب ادبی بورڈ، سول لائنز حیدرآباد میں واقع ہوا کرتا تھا، جو اب جامشورو میں قائم ہے۔ ) بعد ازاں وہ پاکستان ٹیلی وژن کے کراچی سینٹر پر ”اسسٹنٹ اسکرپٹ پروڈیوسر“ کی حیثیت سے اپنی تخلیقی اور پیشہ ورانہ ذمہ داریاں انجام دیتے رہے۔ وہی شیخ ایاز، جب بعد میں بھٹو دور میں، سندھ یونیورسٹی کے وائیس چانسلر مقرر ہوئے، تب انہوں نے وہاں خود شورو صاحب کو انہی کے کہنے پر ملازمت دی۔ جہاں وہ مختلف انتظامی عہدوں پر اپنی خدمات انجام دینے کے بعد ، 2001 ء میں سندھ یونیورسٹی کے اہم ادارے انسٹیٹیوٹ آف سندھیالوجی کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ جہاں 2001 ء تا 2009 ء (اپنی ریٹائرمنٹ تک) اپنی اعلیٰ انتظامی خدمات انجام دیتے رہے۔

شوکت صاحب کو لکھنے کا بنیادی شوق مطالعے سے آیا اور کتابیں پڑھنے کی عادت ان کو اپنے بچپن میں اپنے چچا کی بدولت پڑی، جن کے مختلف ادبی کتب اور رسائل خریدنے کے ذوق نے ان میں کتب بینی کے شوق کو بیدار کیا۔ جس کی آبیاری ان کے سجاول میں جاری تعلیمی سلسلے کے دوران ان کی عزیز جعفرانی اور سرویچ سجاولی جیسے ادیبوں کی دوستی نے کی، جو اس وقت محض شوکت کے سینیئر طالب العلم تھے اور سجاول کے اسی اسکول میں زیر تعلیم تھے۔

شوکت نے بے ضابطہ لکھنے کی شروعات اسی دور سے کی اور شروع شروع میں بچوں کے لئے کہانیاں لکھیں، جو ان دنوں سندھی اخبارات میں طبع ہونے والے بچوں کے ہفتہ وار صفحات میں شائع ہونے سے ان کی ہمت افزائی کا باعث بنیں۔ انہوں نے لکھنے کا باضابطہ آغاز، 1964 ء میں اپنے زمانۂ طالب العلمی سے کیا۔ ان کا پہلا سندھی افسانہ بعنوان: ”اکھیوں روئی پیوں“ [آنکھیں رو پڑیں! ] 1964 ء میں اپنے دور کے معروف سندھی ادبی جریدے ماہنامہ ”روح رہانڑ“ (مدیر: حمید سندھی) میں شائع ہوئی۔

تب شوکت صاحب میٹرک کے طالب العلم تھے۔ یوں ان کے ادبی سفر کا آغاز ہوا۔ شوکت صاحب جب کالج کی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے حیدرآباد آئے، تو وہ ون یونٹ کا پر آشوب دور تھا اور صوبوں کے وجود کے ساتھ ساتھ ان کی زبانوں اور ثقافت کے خلاف ایوب کے سیاہ آمرانہ دور کی کارروائیاں جاری تھیں۔ اس دور میں اس مارشل لائی اقدام کے خلاف زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ ساتھ سندھی دانشور بھی بہت سرگرم تھے۔ ان دنوں معروف سندھی ادبی تنظیم ”سندھی ادبی سنگت“ کی میٹنگز، حیدرآباد کی گول بلڈنگ میں رسول بخش پلیجو کے دفتر میں منعقد ہوا کرتی تھیں، جن میں مسلسل شرکت سے شوکت حسین شورو کی ادب کے ساتھ ساتھ ادبی حلقوں سے شناسائی بھی بڑھی۔

شوکت، سندھی ادب میں ”اسٹریم آف کانشسنیس“ (شعور کے دھارے ) کے باکمال اور یکتا افسانہ نویس تھے۔ شعور کے دھارے کے تحت لکھے ہوئے فکشن میں عام طور پر اندرونی یکجہتی کی داستانی تکنیکوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کے استعمال میں انہیں خاص مہارت حاصل تھی۔ شورو صاحب کے افسانوں کے اب تک پانچ مجموعے، بعنوان ”گونگی دھرتی بوڑو آکاس“ [گونگی زمین۔ بہرا آسمان] (شائع: 1981 ء) ، ”اکھین میں ٹنگیل سپنا“ [آنکھوں میں لٹکے سپنے ] (شائع: 1983 ء) جو بھارت سے شائع ہوا، ”گم تھیل پاچھو“ [گمشدہ سایا] (شائع: 1989 ء) ، ”شوکت حسین شورے جوں لکھیل چونڈ کہانڑنیوں“ [شوکت حسین شورو کے منتخب افسانے ] (شائع: 2007 ء) اور ”رات جو رنگ“ [رات کا رنگ] ( 2011 ء) شامل ہیں۔

شوکت حسین شورو کے کچھ مشہور سندھی افسانوں میں ”سمنڈر ائیں ہیکلو روح“ (سمندر اور تنہا روح) ، ”سرنگ“ (سرنگ) ، ”اشارو“ (اشارہ) ، ”مشعلوں“ (مشعلیں ) ، ”بیٹھل پانڑی“ (آب ساکت) ، ”سفر“ ، ”شاگرد اڳوانڑ“ (اسٹوڈنٹ لیڈر) ، ”فیصلو“ (فیصلہ) ، ”گلے میں پھاتل سڈکو“ (گلے میں پھنسا ہوا آنسو) ، ”آخری ڈینہں“ (آخری دن) ، ”منجھیل لکیروں“ (الجھی لکیریں ) ، ”ادھ مڑھیل سوئیٹر“ (ادھ بنا سوئیٹر) ، ”ادھورا مانہڑوں“ (ادھورے لوگ) ، ”کاری رات۔ رت پھڑا“ (کالی رات اور خون کے قطرے ) وغیرہ شامل ہیں۔

شوکت شورو نے ون یونٹ کے خلاف قلمی احتجاج میں اپنا مزاحمتی کردار ادا کرتے ہوئے، اپنے معاصرین، ارباب کھہاوڑ سندھی، منیر احمد ”مانڑک“ (منیر سندھی) کے ساتھ علامتی انداز میں مزاحمتی افسانے اور ’قومی کہانیاں‘ بھی تحریر کیں۔ شوکت حسین شورو پہلے سندھی فکشن ادیب تھے، جنہوں نے ”اسٹریٹ تھیٹر“ لکھا، جو انہوں نے 13 نومبر 1960 ء کو لاہور کے ایک قیدخانے میں مارشل لائی استبداد کے ہاتھوں تشدد سے مارے جانے والے قومی کارکن حسن ناصر کی شہادت کے پسمنظر میں لکھا تھا۔ جسے ان کی شہادت کے 6 سال بعد ، حیدرآباد کے گاڑی کھاتا کے علاقے میں ”نیشنل عوامی پارٹی“ کے دفتر کے سامنے روڈ پر پیش کیا گیا تھا۔

شوکت حسین شورو کو ریڈیو کے لئے ڈرامے لکھنے کی پیشکش سندھ کے نامور فکشن قلمکاروں اور براڈکاسٹرز، آغا سلیم اور امر جلیل نے کی، جو 1967 ء 68 ء کے دوران ریڈیو پاکستان حیدرآباد پر ’ریجنل ڈائریکٹر‘ بن کر آئے۔ انہوں نے ریڈیو کے لئے متعدد ڈرامے لکھے، جو سامعین میں مقبول ہوئے۔ پاکستان ٹیلی وژن سے ان کے لکھے ہوئے کئی کھیل نشر کیے گئے۔ جن میں چار سیریلز اور لاتعداد سیریز شامل ہیں۔ ان کے بے حد مقبول سندھی سیریلز میں ”ملکیت“ ، ”دھبنڑ“ (دلدل) ، ”باکھ“ (فجر) اور ”سونیتی“ (جو سندھ کی معروف عشقیہ داستان ”سونی باگو“ کے پسمنظر میں لکھا گیا کھیل تھا۔ ) شامل ہیں۔ انہوں نے اردو میں بھی کچھ سولو پلیز تحریر کیے ، جو پی ٹی وی کراچی سے نشر ہوئے اور پسند کیے گئے۔ ان کے کئی ڈرامے مختلف نجی سندھی ٹی وی چئنلز سے بھی نشر ہوتے رہے ہیں۔

شوکت حسین شورو نے 1984 ء تا 2013 ء سندھی ادیبوں کے مختلف وفود کے ساتھ بھارت کے متعدد دورے کیے ۔ یہاں سے ہجرت کر جانے والے سندھی دانشوروں کے ساتھ ان کے گہرے ادبی مراسم رہے۔ سندھ میں بھی نہ صرف ان کے اپنے ہم عمر ادبی ساتھیوں سے دوستانہ ناتے تھے، بلکہ اپنے جونیئر قلمکاروں کی ہمت افزائی کے لحاظ سے بھی ان کا کردار قابل تعریف رہا۔ ان کے دور کے وہ اہم سندھی قلمکار، جن سے شوکت صاحب کا یارانہ رہا، ان میں علی بابا، عبدالقادر جونیجو، منیر احمد ”مانڑک“ اور عبدالحق عالمانی سر فہرست ہیں۔

سندھی زبان و فکشن کے یہ نامور افسانہ نویس اور ڈراما نگار، منگل 9 نومبر 2021 ء کو کراچی کے ساؤتھ سٹی ہسپتال میں اس دار عارضی سے ہجرت کر گئے۔ انہیں سندھی ادب، بالخصوص سندھی فکشن میں تادیر یاد رکھا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments